پاور پالیٹکس حق و باطل کا معرکہ نہیں
از، عامر فاروق
اس کھیل میں ہر فریق، دوبارہ پڑھیں، ہر فریق، اصولوں کی خاطر سر کٹوانے کے لیے نہیں بل کہ maximum possible یعنی جہاں تک ممکن ہو، بڑا حصہ پانے کے لیے میدان میں اترتا ہے۔
کھیل کھیلنے کی اولیں کُوالی فکیشن کسی نہ کسی درجے کی عوامی حمایت ہے، جس کو جتنی زیادہ سپورٹ ہو گی اتنی زیادہ کام یابی سمیٹنے کا امکان ہو گا۔
جوڑ توڑ، موقع شناسی کے علاوہ اپنی قوت اور حریف کی کم زوری کا ادراک تو ہر کھیل میں ہی چاہیے ہوتا ہے یہاں اپنی کمزوری اور حریف کی قوت کا درست اندازہ ہونا بھی حتمی کامیابی کے لیے اتنا ہی اہم ہے۔ یہ ثانوی ہنر ہیں جو پاور پالیٹکس کے لیے نا گزیر ہیں۔
اور آخری مگر شاید سب سے اہم انتظار کا حوصلہ اور صبر ہے۔ جو اسے محدود اووَرز کا کھیل سمجھتا ہے اسے محدود اووَرز ہی ملتے ہیں۔ یہ میراتھون ہے، یہاں زیادہ سٹَیمِنا اور سر جھکا کر مسلسل چلتے رہنے والے ہی زیادہ ٹریک کَور کرتے ہیں۔
اس کھیل کا کوئی متعین سٹارٹنگ پوائنٹ نہیں۔ یہ اک ریس ہے لیکن یہاں ریس ٹریک کی طرح دوڑ کا آغاز پستول داغنے کی آواز سے نہیں ہوتا۔
انتخابات دوڑ پڑنے کا اعلان نہیں، میراتھون میں ایک مرحلہ ہیں۔ ورنہ تو یہ دوڑ مسلسل جاری ہے۔ آپ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، بحرِ سیاست پُر سکوں ہو یا اس میں تلاطم ہو، محفلِ مرگ ہو یا ہنگامۂِ شادی، سیاست 24/7 ایکٹِوِٹی ہے۔
اچھا سیاست دان پرانی حکایات والے نَبّاض حکیموں جیسا ہوتا ہے۔ سماج کی نبض پر ہاتھ رکھے آنکھیں بند کیے انگلیوں کی پَوروں سے دل کی دھک دھک محسوس کر رہا ہوتا ہے، اور اچانک استِغراق سے برآمد ہو کر مریض کو کبھی امید کی نوید دیتا ہے تو کبھی ڈرا دیتا ہے۔
مَشّاق سیاست دان کھلونا ٹرین، چابی والے بندر، سانپوں کی پٹاری اور چند شیشیاں رکھ کر سڑک کنارے لوگ اکٹھا کرنے والا مجمع باز نہیں ہوتا۔ جو چرب زبانی، چند چُٹکلوں، تھوڑے تماشے اور نا قابلِ یقین معجزوں کے دعوے پر مجمع اکٹھا کر کے راکھ بیچتا ہے، دھول پھانکتا ہے، اور کوئی گہرا نقش چھوڑے بغیر اگلی دیہاڑی کھری کرنے کسی اگلے شہر میں نئے شو کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے۔
سیاست دان، اچھا سیاست دان، انتظار کا حوصلہ رکھتا ہے۔ زیرِ بحث بات معمولی سی ہی کیوں نہ ہو، اس کی نظر دور رس اثرات پر ہوتی ہے۔ اور جب بات آفاقی و بین الاقوامی منطقوں کی ہو تو اس کی جڑت حاضرین کے معروضی حالات سے دکھاتا ہے، اس کا لوکل پرسپَیکٹِو پیشِ نظر رکھتا ہے۔
ان اوصاف کے ساتھ جب سیاست دان اور پاور پالیٹکس کے غیر اعلانیہ شراکت دار (پاکستان میں فوج، عدلیہ، بیُوروکرِسی اور سرمایہ کار) میدان میں اترتے ہیں تو مول تول “بنیادی کُوالی فِکیشن” یعنی عوامی حمایت کا توشہ دکھا کر شروع ہوتا ہے۔ پھر ثانوی ہنر اور تجربہ بَہ رُوئے کار آتے ہیں۔ بارگیننگ کا پراسیس آگے بڑھتا ہے۔ مخالف کو سودا ٹوٹ جانے سے ڈرایا جاتا ہے۔ کھیل چوپٹ ہونے کا خوف دلایا جاتا ہے۔
اس دوران ہر کھلاڑی کے حامی بھی چُوں کہ کھیل کو دل چسپی سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اس لیے غیر اعلانیہ قواعد کے مطابق “سکرین” پر ان کے لیے بھی “پیش رفت” کی جھلکیاں نشر کی جاتی ہیں۔
ان جھلکیوں میں آدرشوں کی گونج ہوتی ہے، انقلاب کا آہنگ سنائی دیتا ہے، “لارجر دَین لائف” مسیحا “سٹیٹس کو” سے بِھڑتے دکھائی دیتے ہیں، سکرین کو اشتیاق سے تکتے مجمع کے لیے محبت کے زم زمے بہائے جاتے ہیں، ان کے لیے کٹ مرنے، پابندِ سلاسل ہونے اور ہر نمرود کی بھڑکائی آگ میں کود پڑنے کے اعلان ہوتے ہیں… یہ بس اعلان ہوتے ہیں۔
یہ پاور پالیٹکس ہے۔ اصولوں اور آدرشوں کی لڑائی نہیں۔ یہ کھیل شو رَن کرنے والوں کے طے کردہ قواعد و ضوابط کے تحت کھیلا جا رہا ہے۔ اس کو 24/7 اضطراب کی کیفیت میں فالو نہ کریں۔ اپنے اطمینان اور سکون کی ذمے داری خود لیں۔
اس کھیل میں عمران ولی اللہ ہے نہ نواز، زرداری شیطان اور وائسِ وَرسا۔ سکرپٹ، مور آر لیس (more or less) سکرپٹ پر ہی عمل ہوتا آیا ہے، ہو رہا ہے۔
تاہم ہر دم خون کھولائے ہی رکھنا چاہیں تو گالی گلوچ جاری رکھیں۔
کچھ لوگوں کے خیال میں جھپٹنے، پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے سے خون گرم رہتا ہے اور یوں اس میں موجود بُری چکنائی یعنی کولیسٹرول قابو میں رہتا ہے۔ لیکن خیال رکھیے گا بڑھا ہوا بلڈ پریشر بھی پورا بِچ، بولے تو bitch ہے، اچھا نہیں۔
کولیسٹرول کم کرتے کرتے دماغ کی شریان پنکچر نہ کروا لیجیے گا۔