تنگ نظر نظریاتیوں کے قصیدہ خواں
از، نصیر احمد
یونہی بیٹھے بیٹھے نوائے وقت پڑھنے لگے۔ اور دس پندرہ چھوٹے چھوٹے مضمون نوائے وقت کے مرحوم مدیر مجید نظامی کے بارے میں پڑھ ڈالے۔
بس قصائد کا ہی ایک سلسلہ تھا۔ محب، وطن، نظریہ پاکستان کے محافظ، نڈر، سچے، پر عزم، ارادوں کے پکے، فیاض، جابر سلطان کے سامنے کلمۂِ حق کہنے والے۔ بس خوبیاں ہی خوبیاں۔
تنگ نظر نظریاتیوں کے قصیدہ خواں بھی تنگ نظر نظریاتی ہی ہوتے ہیں۔ پھر اخبار ابھی تک شاید مجید نظامی کے کنبے کی ہی ملکیت ہے اور نوکری ایسی مجبوری ہوتی ہے جو مالکان کی تعریف کے موقع پر بندے کو فصیح و بلیغ بھی کر دیتی ہے کہ اس معاملے میں لُکنت، لغزش یا کوتاہی بہت سارے نقصانات کی وجہ بن جاتی ہے اور نقصانات تکلیف کا باعث بنتے ہیں اور تکلیف سے بچنے کے لیے گِھسے گھسائے، رٹے رٹائے اور پِٹے پٹائے تعریفی جملے تو لکھنے پڑتے ہیں۔ اوپر سے نظریاتی ہم آہنگی بھی ہو تومفادات اور نظریات کا یہ امتزاج زورِ بیان میں اضافہ ہی کرتا ہے۔
پھر بھی ہم نے سوچا کہ اتنی زیادہ تعریفیں کر رہے ہیں تو ذرا دیکھ لیں کہ بندے میں عقل کتنی تھی؟
ایک مضمون میں درج تھا کہ مرحوم ایٹمی ہتھیاروں کے انتہائی پرجوش حامی تھے۔ ایک دن فرمانے لگے کہ ہمارا ایٹمی اسلحہ صرف دکھانے کے لیے نہیں ہے۔ ایسا کرو کہ مجھے ایک ایٹمی میزائل کے ساتھ باندھ دو کہ اور بھارت پر لانچ کردو تاکہ بھارت کی بربادی میں شامل تو ہو سکوں۔
یہ تو اس مووی ڈاکٹر سٹرانگ لو والی بات ہو گئی۔ یہ مووی شاید کیوبا کے میزائلی بحران کے دور میں بنی تھی جب سوویت یونین اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے درمیان ایٹمی جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔ اس کے چند آخری مناظر میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ایک فوجی ہنستے ہنستے ایٹمی میزائل سے لپٹے ہوئے جان دے دیتا ہے اور ساتھ اپنے دنیا بھی لے جاتا ہے۔
مووی کا مقصد جنگی جذبات کے پیچھے چھپی ہوئی حماقت پر کچھ ٹھٹھا کرنا تھا اور توجہ بھی دلانی تھی کہ برین واشنگ آدمی کو اپنی حماقت کے بارے میں کتنا آسودہ رکھتی ہے۔
تو یہ حال تھا مجید نظامی صاحب کا کہ معانقے کے لیے بھی انھیں میزائل ہی اچھے لگتے تھے۔ اگر انھیں کچھ بوس وکنار کی آرزو ہو جاتی تو ۔۔۔ ۔
ان کے ایک اور مداح لکھتے ہیں کہ مجید نظامی صاحب ایک دن یوں کہتے پائے گئے کہ بنگلہ دیش کو پاکستان میں شامل کرنا ایک اہم قومی فرض ہے۔
اسے پڑھ کر ہنسی روکنا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر یہ بات جنرل ارشاد (بنگلہ دیش کے ایک سابق آمر) کے سامنے بھی رکھتے تو وہ بھی گالف کلب سے گالف کی گیند سے لپٹے ہوئے سیدھے ڈھاکہ کے حضرت شاہ جلال ایئر پورٹ پر اترتے اور جل تو جلال تو، آئی بلا ٹال تو کا ورد کرنے لگتے، اس پر حسینہ واجد کیسے راضی ہوں گی؟ اور بنگلہ دیشیوں کو ان کی رضا کے بغیر پاکستان میں شامل رکھنے کا ہم ایک خوفناک تجربہ کر چکے ہیں جس کے نتیجے بجز درد وغم کچھ ہاتھ نہیں آیا۔
مجید نظامی کو بھی کچھ اس سارے سانحے کی خبر ہو گی لیکن نظریاتی ہونے کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ جتنی بھی سفاکی کی جائے گی، نظریاتیوں کو کم ہی لگتی ہے۔
پھر ایک خاتون ماتحت نے لکھا ہے کہ میں نے بے نظیر کا اس وقت انٹرویو کیا جب وہ اپوزیشن لیڈر تھیں لیکن مجید صاحب اس انٹرویو کو چھاپنے سے انکاری ہو گئے۔ بڑی مشکل سے سمجھا بجھا پائیں کہ بے نظیر کا انٹرویو چھاپنا کوئی گناہ کبیرہ نہیں ہے۔
اب خود ہی سوچیے کہ میدان صحافت کے چشم و چراغ کو یہ بات سمجھانی پڑ جائے کہ ایک اپوزیشن لیڈر کا انٹرویو چھاپنا در اصل اخبار کی شہرت کے لیے اچھا ہے تو یہ حق جوئی اور حق گوئی کا بھانڈا بھی پھوٹ جاتا ہے اور فہم وفراست کا بھی کچھ اندازہ ہو جاتا ہے۔
زرداری صاحب کو مردِ حُر کا لقب بھی نظامی صاحب کا دیا ہوا ہے۔ اس بات پر ضرور کسی کو ھررررررررررررررررر کہنا چاہیے تھا اور بات وہیں ختم ہو جاتی۔
پتا نہیں، یہ مداح کیوں اتنا کاغذ ضائع کرتے رہتے ہیں؟ خیر ان کا تو فائدہ ہی ہوتا ہے لیکن صارفین کی اپنے قاضی صاحب والی پوزیشن ہو جاتی ہو گی۔
قاضی صاحب ہمارے بڑے دلدار دوست ہیں لیکن جب ہم لوگ لڑکے بالے تھے تو ان کو لڑائی جھگڑے کا بڑا شوق تھا۔ ایک محفل میں کسی پرانے جھگڑے کا ذکر ہو رہا تھا۔ اور لوگ بڑی توجہ سے سن رہے تھے۔ بات کچھ یوں چل رہی تھی کہ پھر اس نے اس بدمعاش کو یوں مکا مارا۔
نگاہیں قاضی صاحب کی طرف چلی گئیں۔ وہ ہاتھ میں ایک گلاس تھامے تھے۔ اور جیسے لڑائی کے ذکر میں جوش وجذبہ میں اضافہ ہوتا، قاضی صاحب کی گلاس پر گرفت توانا ہوتی جاتی۔ میدانِ کار زار میں مُکوں، گُھونسوں اور لاتوں کا اضافہ ہوتا گیا اور تھوڑی دیر میں قاضی صاحب نے ہاتھ میں جو گلاس تھاما تھا وہ ٹوٹ گیا۔
یہ کیا کیا، ہاتھ لہولہان کر دیے۔
جنگ و جدل کے نظریاتی قصائد پڑھ کر جانے کیا کچھ ٹوٹتا ہوگا اور جانے کون کون لہولہان ہوتا ہو گا؟