معروضی سچائی کو ذاتی ترجیح بنانا
از، نصیر احمد
چون زن هندو کسی در عاشقی مردانه نیست
سوختن بر شمع مردہ کار هر پروانه نیست
خسرو
کہ ہندو ناری جیسی مردانگی کسی میں نہیں ہوتی کہ کم ہی پروانے ہوتے ہیں جو بجھی ہوئی شمع پر اپنی جان نچھاور کر دیتے ہیں۔
خسرو یہاں ستی کی رسم کی عظمت سازی کر رہے ہیں جس میں بیوائیں شوہروں کی ارتھی پہ جل مرتی تھیں۔ انیسویں صدی کے وسط میں کچھ پڑھے لکھے ہندوؤں کے کہنے پر انگریز وائسرائے نے اس رسم پر پابندی لگا تھی جس کے نتیجے میں قدامت پسندوں میں شدید رد عمل ہوا تھا۔ اور جرائم کی اخلاقی عظمت سازی سلسلہ پسندی یا ریلیٹوزم کا ایک پہلو ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ثقافتی سیاق و سباق اور ثقافتی رسومات کے احترام کے احساسات کے زیر اثر انسانیت بھی برقرار نہ رہ سکے۔
خسرو تیرھویں چودھویں صدی میں یہ بات کہہ رہے تھے۔ ان دنوں مذہب کے فروغ کے لیے صوفیا میں غیر اسلامی ثقافتوں کے ساتھ سمجھوتے کا ایک رجحان تھا، جس کی علما مخالفت کر رہے تھے کہ غیر مسلم اس شاید اس رجحان کے ذریعے مسلمان ہو جائیں لیکن اگر یہ رجحان اگر بڑھ گیا تو اسلام بالکل ہی مختلف چیز بن جائے گا۔ اس طرح اسلام کی اصل روح کی بقا کے لیے شریعت کے احیا کی ایک عالم گیر تحریک بھی دنیائے اسلام میں موجود تھی جس کے بانی ابن تیمیہ تھے جو غیر اسلامی ثقافتوں کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتے کے انتہائی مخالف تھے اور اپنی تشریح کے مطابق اسلام کے احیا کے لیے جد وجہد کر رہے تھے۔ بعد میں ابن تیمیہ شریعت کے احیا کی اسلامی دنیا میں بہت ساری تحریکوں کے روحانی رہنما سمجھے جاتے رہے جن میں اٹھارویں صدی کی وہابی تحریک بھی شامل ہے۔
ایک طرح کی انتہا پسندی کا درماں دوسری طرح کی انتہا پسندی سے کرنے کا قدیم انسانی مسئلہ جو انسانی حیات میں آغاز تاریخ سے ہی موجود ہے۔
خسرو کی وجہ سے بات کا رخ ذرا اسلامی ہو گیا جس کے لیے کچھ معذرت خواہ اور خوف زدہ بھی ہیں کہ ملک میں اسلام کے بارے میں کسی علمی، ادبی، تحقیقی، سائنسی یا فلسفیانہ گفتگو ممکن ہی نہیں رہی مگر اس بات کا کیا کریں کہ اسلامی دنیا میں علمی، ادبی، تحقیقی، سائنسی اور فلسفیانہ رجحانات موجود رہے ہیں جن سے صرف نظر کرنا ان موضوعات میں کسی بھی دلچسپی رکھنے والے کے لیے اتنا آسان نہیں ہے۔ بہر حال ہمارے ذہن میں ایک مماثلت موجود تھی جس کو نظر انداز نہیں کر سکے۔
خیر یہ سلسلہ پسندی بھی اسی قسم کی انتہا پسندی کی نذرہو گئی اور اکیسویں صدی میں بھی آپ کو ایسے سلسلہ پسند مل جاتے ہیں جو ستی کی رسم کو ایک ایسا احساس حیرت کہتے ہیں جو ستی کی رسم ادا کرنی والی خاتون کا احساس تقدس دو چند کر دیتا ہے۔ اسی طرح کے سلسلہ پسند افریقہ میں بچیوں کے ختنے کو اعضا کی خوش کن تبدیلی کہتے ہیں۔ یہ سیاق و سباق کی ایسی انتہا پسندی ہے جس کے خلاف رد عمل بھی اسی قدر انتہا پسندانہ ہے جس کے نتیجے میں غیر ملکیوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو ایک ثقافتی سرطان کہنے والوں کی تعداد میں یورپ کی جمہوریتوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
پر دو قسم کی انتہا پسندی کے نتیجے میں دنیا میں نفرت بڑھتی جا رہی ہے کہ اخلاقی سلسلہ پسندی اپنی انتہا پر حقیقت کو محض ایک ذاتی ترجیح بنا دیتی ہے اور دوسری طرٖف پر پاکیزگی کی پرستش اختلاف کا وجود ہی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کا ایک حل تو عمومی ذہانت یا کامن سینس بھی ہے جس کے نتیجے میں آگ میں جلنے والے کی تکلیف سمجھنا کچھ اتنا مشکل نہیں ہے بس کچھ تعصبات کو شکست دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دنیا میں بہت سارے غیر ملکی اور مسلمان بھی موجود ہیں جس انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں اور ادھر ادھر آتے جاتے آسانی سے مل بھی جاتے ہیں لیکن سلسلہ پسندی کی انتہا اور ثقافت پرستی کی انتہا دونوں ہی صداقت کو آسانی سے شور و غوغا کے ذریعے دبا لیتے ہیں۔ اور یہ شوروغوغا بنیادی طور پر ناٹزی پارٹی کے کسی اجلاس کی ہی مانند ہوتا ہے جس میں گلا پھاڑ کر چلاتے ہوئے اور مائکروفون سے سر ٹکراتے ہوئے انسانیت اور صداقت کے خاتمے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہر قسم کی انتہا پسندی شوروغوغا کے ذریعے لاشوں تک پہنچ جاتی ہے۔
دوسرا حل اخلاقیات کو سائنسی صداقتوں کے قریب لانے میں بھی ہے۔ اگرچہ سائنس ہر اخلاقی مسئلے کا حل ابھی تک نہیں کر سکی اور سائنسی صداقتیں حتمی نہیں ہیں لیکن سائنس نے تعلیم، صحت، آمدورفت اور مجموعی طور پر ایک بہتر معیار زندگی کے حوالے ایک بہتر کردار ادا کیا ہے۔ اور اگر اخلاقیات بھی اگر سائنس کے قریب ہو جائیں تو اخلاقیات کا معیار بہتر ہو سکتا ہے۔
ماہرین کی رائے میں وہ فرانسیسی فلسفی فوکو بھی فطری سائنس جیسی ادویات پر اپنی سیاق و سباق والی طاقت کا فلسفہ کچھ اچھے طریقے سے نہیں منطبق کر سکے تھے کہ معروضی سچائی کو ذاتی ترجیح بنانا اتنا آسان نہیں ہے کہ سائنس کے ذریعے چیزیں بنانے کا ایک طریقہ کار ہے جس پر دنیا کوی ساری جگہوں پر ہی عمل کرنا پڑتا ہے اگر چیزیں بنانا ہی مقصد ہو۔ اب سیاق و سباق کے شور وغوغا کے ذریعے پانی سے کار ایک آدھ ہفتہ ہی چلا سکتے ہیں پھر کوئی سائنسدان پول کھول ہی دیتا ہے۔
تیسرا حل جمہوریت ہے۔ اگر جمہوریت ایک بہتر نظام سیاست اور معاشرت ہے تو اس کی وجہ اس کے قوانین اور اخلاقیات بھی ہیں اور اس کی اخلاقیات میں انسانی حقوق کی اہمیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے سیاق سباق اور سلسلہ پسندی کے ذریعے جمہوری قوانین کی تردید نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی ثقافتی پاکیزگی کو جمہوری قوانین سے آزاد کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ سب کیا جائے گا تو اس کا نتیجہ ناٹزی پارٹی کا شوروغوغا اور قتل گاہوں کی صورت میں ہی نمودار ہو گا۔
اور جمہوری قوانین حق و باطل کا ایک پیمانہ بھی ہیں۔ اب خسرو یا سلسلہ پسند ستی کی رسم کی کتنی ہی عظمت سازی کریں، ستی کی دوبارہ ترویج انسانیت کے معیار کی پستی کا ہی ثبوت بن جائے گی۔ اور پاکیزگی پسند جتھے روح کی بالیدگی کے ارد گرد جتنا مرضی شوروغوغا کریں، اگر روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کرتے ہیں تو وہ انسانیت کے دشمن ہی کہلائیں گے کہ وہ جمہوری قوانین اور انسانی حقوق کی اخلاقیات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
سلسلہ پسندی (شاید یہ ریلیٹوزم کا اچھا ترجمہ نہیں ہے مگر ہم سیدھے سادے ترجموں کو ترجیح دیتے ہیں) حق و باطل کے فیصلوں کے حوالے سے ایک محتاط رویے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن سلسلہ پسندی کو صداقت کشی کے لیے استعمال کرنا انسانیت کے لیے خطرناک ہے۔ اسی طرح ثقافتی پاکیزگی کا ماضی سے ایک خوشگوار تعلق کے لیے شاید استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسی ثقافتی رسومات کا احیا کیا جائے جو جمہوری اصولوں، جمہوری قوانین اور جمہوری اخلاقیات کی ایسی خلاف ورزی کریں کہ اختلاف کی گنجائش نہ رہے اور اقلیتوں کے لیے جینے کی جگہ بھی نہ بچے۔