ہمارے مرسی اور سیسی
از، معصوم رضوی
جمہوریت عدالت میں قتل، بھلا محمد مرسی کا جرم اور کیا تھا۔ تاریخ کے گورغریباں میں جا بہ جا لگے کتبوں پر جانے کتنے مرسیوں کی داستانیں رقم ہیں۔ محمد مرسی جیسے رہنما السیسی جیسوں آمر کے ہاتھوں قتل اور حسنی مبارک جیسے ظالم حکمراں صاف بچ نکلتے ہیں۔ ویسے مرسی کا تعلق اخوان المسلمین کے بجائے کسی کمیونسٹ جماعت سے ہوتا تب بھی انجام تو یہی ہونا تھا۔ سلطنت فراعنہ کا پہلا جمہوری رہنما عدالت کے پنجرے میں جاں سے گزر گیا، صدیوں سے فرعونی آمریت بھلا جمہوری باغی کو کیسے بخش سکتی ہے۔
مصر بھی عجیب ملک ہے، قدیم، جدید، پُر اسرار اور پیچیدہ، 1922 میں برطانیہ سے آزادی ملی تو 30 سال کنگ فاروق کی بادشاہت، 1954 میں فوجی انقلاب کے بعد جمال عبدالناصر کی حکومت، جو ان کی موت پر 1970 میں ختم ہوئی۔ جمال عبدالناصر کا شمار عالمی رہنماؤں میں ہوتا تھا، عرب قومیت کے نظریے کے باعث مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ان کا مقام رہا۔ جمال عبدالناصر کی موت کے بعد ان کے نائب فیلڈ مارشل انورالسادات نے اقتدار پر قبضہ کیا جو بالآخر 1981 میں فوجی پریڈ کے دوران قتل پرانجام کو پہنچا۔
انورالسادات کے موت کے بعد ان کے نائب فضائیہ کے سربراہ حسنی مبارک جانشین بنے۔ حسنی مبارک بلا شرکت غیرے 30 سال مطلق العنان حکمراں رہے، 2007 میں دنیا میں عرب بہار کی ہوا چلی تو حکمراں خزاں کے سوکھے پتوں کی مانند گرتے رہے، ایک کے بعد دوسرا بالآخر 2011 میں قاہرہ کے تحریک اسکوائر پر لاکھوں مصری حسنی مبارک حکومت کے خلاف ڈٹ گئے۔ ہوا کا رخ دیکھنے کے باوجود حسنی مبارک نے وہی غلطی کی جو اکثر آمر کیا کرتے ہیں مگر فضا بدل چکی تھی۔
لگ بھگ تیس برس ایمرجنسی نافذ، پولیس اور فوج کا وسیع نیٹ ورک، مخبروں کا جال، مخالفین کا قتال، ملکی دولت کی لوٹ مار جیسے الزامات پر جیل گئے اور پھر سیسی حکومت آتے ہی رہا ہو گئے۔ فروری میں حسنی مبارک سبک دوش ہوئے، نومبر 2012 میں مصر کے اولین آزاد انتخابات، اخوان المسلمین کے محمد مرسی پہلے سویلین صدر، صدر مرسی مصر کو اسلامی ریاست بنانے کا عزم رکھتے تھے جب کہ لبرل طبقہ اس کا مخالف تھا۔
سخت گیر موقف کے باعث صرف سات ماہ بعد عوام ایکبار پھر تحریک اسکوائر پرجمع ہوئے، کچھ فوج کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔ صدر محمد مرسی شاید اگر طیب اردوان جیسی آہستہ روی، نرمی اور استقامت دکھاتے تو یہ نوبت نہ آتی، مگر سخت گیر موقف اور عجلت کے باعث مخالفین کیلئے یہ کام آسان ہو گیا۔
بَہ ہر حال عوامی احتجاج کے بعد 2013 میں جنرل السیسی نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر مصر کی پہلی جمہوری حکومت کا خاتمہ کر ڈالا۔ ایسا نہیں کہ 60 سالوں میں مصر میں انتخابات نہیں ہوئے، ہر آمر با قاعدگی سے انتخابات منعقد کرواتا رہا فرق صرف اتنا تھا کہ امید وار ایک ہی ہوتا تھا۔
جنرل السیسی نے بھی چار سال بعد انتخابات کروائے، عوام کو پولنگ بوتھ نہ آنے کی صورت میں تقریباً 28 ڈالر جرمانہ عائد کرنے کا اعلان بھی متاثر نہ کر سکا تو خود انہی کے ایک دست راست نے سیسی کا مقابلہ کیا۔ 2014 کے انتخابات میں 47 فیصد عوام نے حصہ لیا اور جنرل سیسی کو 6۔96 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ جمہوریت پسند عالمی اسٹیبلشمنٹ کو غیرممالک میں آمریت خوب راس آتی ہے چوں کہ پارلیمان کے بہ جائے ایک انسان سے سودا کرنا نہایت آسان ہوا کرتا ہے۔
اخوان المسلمین مصر کی قدیم اور با اثر اسلامی جماعت رہی ہے، 1928 میں حسن البناء شہید کی قائم کردہ یہ تنظیم برطانیہ سمیت مغربی تسلط اور اثرات کے خلاف متحرک ہوئی۔ 1948 میں اخوان پر وزیر اعظم پاشا کے قتل کا الزام لگا اور پابندی عائد کی گئی، کچھ عرصے بعد حسن البنا کو سر عام فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا، اس وقت مصر میں شاہ فاروق کی حکومت تھی۔ جمال عبد الناصر سے لے کر حسنی مبارک کے دور تک یہ تنظیم معتوب رہی، ہزاروں کارکنان قید، سیکڑوں قتل کیے گئے۔ اخوان المسلمین دینی خدمات، فکر و دانش کے حوالے سے بھی خصوصی مقام رکھتی ہے، حسن البنا اور سید قطب شہید کی دینی و ادبی خدمات آج بھی توجہ کا مرکز ہیں۔
جدید تاریخ میں اخوان المسلمین اسلامی ممالک میں فکری انقلاب کی بنیاد بنی، عرب ممالک میں خاصا کا اثر و رسوخ پایا جاتا ہے۔ سعودی عرب پہلے پہل تنظیم کی خدمات کو سراہتا رہا مگر بعد میں حسن البنا اور قطب شہید، دونوں کی کتب پر پابندی لگا دی گئی۔ سید قطب کو جمال عبد الناصر کی حکومت میں پھانسی دی گئی، پاکستان میں جماعت اسلامی، اخوان سے خاصی متاثر ہے۔ حسن البنا اور قطب شہید کی علمیت کا معترف ہوں مگر ذاتی طور پر اخوان کے نظریات سے اتفاق نہیں۔ حقیقت بہ ہرحال یہ ہے کہ صدر محمد مرسی مصر کے قانونی صدر تھے اور ان کی موت صرف اور صرف قتل ہے۔
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا کسی کو پسند ہو یا نا پسند، صرف عوام ہی ہٹانے کے مجاز ہیں۔
تاریخِ عالم گواہ ہے بادشاہت اور آمریت میں ایک بعد دوسرا سیسی جنم لیتا ہے، سیسی اور مرسی کے کردار آج بھی دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں۔ مغرب تو جانے کب کا سیسی سے جان چھڑا کر خود کو مستحکم کر چکا ہے پر غریب ممالک اور اسلامی دنیا آج بھی سیسی اور مرسی کے درمیان پھنسی ہوئی ہے، بیش تر اسلامی ممالک میں بادشاہ اور ترقی پذیر ممالک میں فوج یہ کردار ادا کرتی ہے، بسا اوقات جمہوریت کے نام پر بھی آمریت کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ پدرم سلطان بود کی مانند ہم آج بھی ماضی کے اسیر ہیں۔ عباسی و عثمانی سلطنت کی ترقی اور خوش حالی سے جدائی کو صدی بعد بھی ذہنی طور پر تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔ مرسی کی موت پر اسلامی دنیا کا رد عمل وجہ طلب ہے، طیب اردوان کے سوا کسی نے زحمت بھی نہ کی۔ سوچ رہا تھا کہ پاکستان کی نمائندہ اسلامی جماعتیں، واعظ اور خطیب طوفان اٹھا دیں گے مگر وہی بے حس سکوت چھایا رہا۔
قاہرہ میں مرسی کی نماز جنازہ میں دو بیٹے اور وکیل کے سوا کوئی شریک نہیں، اہلیہ اور بیٹیوں کو آخری دیدار کی اجازت نہیں دی گئی۔ تمام مصری میڈیا میں مختصر سی ایک کالم کی یکساں خبر، حروف کا ردوبدل بھی نہیں، یقین جانیں آنکھیں کھل گئیں، میں تو دل سے مثبت رپورٹنگ کا قائل ہو گیا۔ کیوں بتاؤں کہ ہماری اور مصری تاریخ میں خاصی مماثلث ہے، مرسی اور سیسی جیسے کرداروں کی بہتات ہے۔
مصر میں تو گزشتہ 90 سالوں کے دوران صرف چار ماہ جمہوری حکومت رہی، ہمارے یہاں 70 سالوں میں آمریت اور جمہوریت کی با ضابطہ آنکھ مچولی جاری ہے۔ جب میں مثبت رپورٹنگ کا قائل نہیں تھا شاید کہہ سکتا تھا کہ منتخب وزراء، اعظم، سیاسی رہنما قتل بھی ہوئے، پھانسی بھی چڑھے، ریفرنڈم میں فوجی آمر 7۔97 فیصد ووٹ لے کر اسلام کے نام پر 11 سال خود کو نافذ کرتا رہا مگر اب ہر گز نہیں بتاؤں گا۔ اب میں کیوں بتاؤں کہ کسی نے دین کے نام پرلوٹا تو کسی نے ماڈرن ازم، کسی نے قومی عصبیت کو ابھارا تو کسی نے قومی سلامتی کا نعرہ قلندرانہ بلند کیا۔ جب جب مرسیوں کو حکومت ملی تو کرپشن، سیاسی عداوتوں اور ذاتی مفادات کی نذر ہو گئی۔
مثبت رپورٹنگ کا تقاضا ہے کہ میں قطعی نہ کہوں کہ مقامی سیسیوں اور مرسیوں نے اقتدار کے مزے تو خوب اڑائے مگر دونوں نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا، سو آج ستر سال بعد، نصف عرصہ آمریت اور نصف جمہوریت کے با وجود عوام بنیادی سہولیات سے محروم، ملکی معیشت زبوں حال اور ریاست بے حال ہے۔
مثبت رپورٹنگ کی قسم کھا لی ہے تو میں قطعی طور پر نہ کہوں گا کہ کرپٹ سہی مگر مرسی عدالت میں پیش اور آئین شکن سیسی قانون سے ما ورا رہتے ہیں۔ میں بھلا کیوں کہوں کہ پہلے قوم بد نیتی کے نام پر لٹی اب یہی کام نیک نیتی سے ہو رہا ہے۔ پہلے کی بات اور تھی مگر اب میں ہر گز یہ اعتراف بھی نہیں کروں گا کہ مجھے تو کبھی کبھی سیسی میں مرسی اور مرسی میں سیسی نظر آتا ہے۔