ٹرمپ کی جیت اور ورلڈ کپ کا کپ
از، نعیم بیگ
ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن ٢٠١۴ میں اپنے تئیں دو بڑے ٹارگٹ لے کر آئے تھے: پہلا نیشنل ازم اور وائٹ سُپرَیمِسی(ایک طرح کی ریسسٹ سوچ) جس میں امیگرنٹس کی کمی اور ملکی کارپوریشنز کا منافع بڑھاتے ہوئے امریکی معیشت کو اپنے پاوُں پر کھڑا کرنا۔ ان کا بنیادی ایجنڈا اس بار بھی یہی تھا، تاہم اس بار مڈل ایسٹ اور یوکرین جنگ ختم کرنا بھی شامل ہو گیا۔
اُس وقت دوسرا نان پبلک ٹارگٹ ذرا مختلف تھا کہ چائنہ کی بڑھتی ہوئی معاشی برتری جو امریکا کے عالمی پروگرام کو تہِ تیغ کرتی تھی کو ختم کرنا۔
علاوہ ازیں دنیا بھر میں بہ ظاہر تمام ریپبلیکنز کی چھیڑی ہوئی پرانی جنگوں کا خاتمہ جس میں امریکی مالی نقصانات کا ازالہ ہو سکے اور پھر اگلے ٹرم میں نیو لبرل ازم پالیسی کے تحت ایک ایسی معاشی جنگ کا طبل بجانا جس سے امریکا کا گرتا ہوا معاشی وقار بحال ہو۔
اس پروگرام میں حالات/ بائیڈن انتظامیہ نے اپنے دور میں ایک بگاڑ پیدا کر دیا تھا۔
پہلا یہ کہ چائنہ کے ساتھ معاشی اور ٹیرف کے معاملات طے کرتے ہوئے اس حد تک دشمنی ہو گئی کہ بائیولوجیکل وار چھڑ گئی اور ٹرمپ پر نئی قیامت گر گئی ۔
ٹرمپ ذہنی طور پر اور طبعاً ایک انٹرپرینیور ٹائپ شخص ہیں۔ سیاست دان نہیں۔ سو وہ اس قدر گہری سوچ والا لیڈر نہیں تھے کہ عالمی گہری چالیں سمجھ سکتے، لہٰذا اس جنگ میں مار کھا گئے۔
کرونا وائرس (کووڈ) کے دنوں میں وہ امریکنز کو صرف امداد دینے کے علاوہ کوئی ہیلتھ پالیسی نہ دے سکے۔ یہی وجہ رہی کہ الیکشن ٢٠٢٠ میں با وجود تمام تر کوشش کے وہ الیکشن ہار بیٹھے لیکن ہارنے کے با وجود ہار مان نہیں رہے تھے۔ انھیں اپنے اگلے ٹرمز کے خواب چکنا چور ہوتے نظر آ رہے تھے۔
دوسری طرف بد احوالی سے ڈیموکریٹس اس صورت حال کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ نہیں لے سکے۔ انھیں حالات کی سنگینی کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ ایسے میں امریکی اسٹیبلشمنٹ اس لمحے کسی قسم کی غیر سنجیدہ حرکت کرنے والے نہیں تھے جس سے عدالتی/ عوامی ملبہ خود ان پر گر جائے، کیوں کہ انصاف کا بول بالا ہونے کے با وُجود عدالتِ عظمیٰ کے نو ججز میں سے پانچ ریپبلیکنز کے حامی ہیں۔
عملاً ڈیموکریٹس ٹھنڈے ذہن کےمالک ہونے کے با وُجود عالمی سطح پَر سکون کے ساتھ بہ ذریعہ سیاست امریکی وقار کو بلند نہ رکھ سکے، جب کہ ٹرمپ، میڈیا اور پوسٹ ماڈرینٹی حرکیات سے امریکی عوام میں اور پہلے سے ہی اسرائیل/ فلسطین کانفلکٹ میں عالمی ہم دردیاں حاصل چکے تھے۔ اس کے با وجود آنے والے چند مہینوں میں ٹرمپ کی صدارت سنبھالنے کے ساتھ ہی امریکی مسائل اور بڑھ جائیں گے، کہ اس بار دونوں جنگوں میں سٹیک ہولڈرز کا معاشی پلّہ اور عالمی سٹیکس بھاری ہیں۔
ٹرمپ اپنے وعدوں کو کیسے نبھاتے ہیں؟ جنگوں کو کیسے بند کرواتے ہیں؟
یہ بڑے مسائل ہیں۔
تاہم امیگرینٹس کا داخلہ، بالخصوص لَیٹِن امریکنز کا اب بند ہی سمجھئے، تا وقت یہ کہ کوئی نئی پالیسی سامنے نہیں آتی۔
امریکی الائیڈ ملکوں میں ڈیموکریٹس کے وقت میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ اپنی پوزیشن کو کسی نہ کسی طرح برقرار رکھ پائی ہے لیکن ٹرمپ کے پچھلے دور میں بہ راہِ راست ٹرمپ کے پاکستان پر امریکا کو بے وقوف بنانے کے الزامات بہ ذریعہ ٹویٹ سامنے آنے پر دشواری ہو گئی تھی۔ گو تحریک انصاف کی حکومت میں پاکستانی لیڈروں کے دورۂِ امریکا سے واپسی پر ایک اور ورلڈ کپ جیتنے کا سندیسہ بھی ملا لیکن بِنا نتائج؟
اب دوسری طرف پاکستان میں سنجیدہ اور سفارتی سطح پر ایک سوچ یہ بھی ہے کہ ٹرمپ کی آمد سے آنے والے وقت میں پاکستان کے موجودہ سیٹ اپ پر ٹرمپ انتظامیہ کیا رد عمل دیتی ہے۔ یہ بہت بڑا سوال ہے۔