صحافتی آزادی کے پا بَہ زنجیر قدم: نا قابل اشاعت کالم
از، وارث رضا
میں تازہ ترین تین سو سے زائد بے روز گار کیے جانے والے صحافیوں کا نوحہ لکھوں، یا پچھلے دو سال سے ہزاروں صحافیوں کے فاقہ کرتے ہوئے گھروں کا دل سوز حال بتاؤں۔ٍ میں تو دنیا نیوز سے بے روز گار کیے جانے والے سینئر رپورٹرسجاد کاظمی کی بھی مزاج پُرسی نہیں کر سکتا کہ بے روز گاری کی خبر نے اِسے ذہنی طور سے مفلوج تو کر دیا ہے، مگر پھر بھی وہ ٹکر ٹکر دوستوں سے جد و جہد تیز کرو کے اشارے کرتا رہتاہے، کاظمی اپنی ہمت اور جد و جہد کی استقامت سے اب بھی صحافیوں کے معاشی قاتلوں کے لیے سوہانِ روح اور جد و جہد کا استعارہ بنا ہوا ہے، جو کہ حکومت و مالکان کے مشترکہ صحافتی جبر اور معاشی آزادی سے چھٹکارے کا نشان ہو گا۔
اس غیر جمہوری طاقت کی ریاست میں جمہوریت کے نام پر جب عوام کے سماجی، سیاسی انصاف اور معاشی آزادی کے متحرک اداروں اور تنظیموں کو جب غیر آئینی جبر اور غیر جمہوری طاقت اپنی ریاستی چیرہ دستیوں سے مضمحل اور زخم خوردہ کردے گی تو بھلا عوام کے جمہوری حقوق کی سر بلندی اور عوام کے بنیادی حقِّ روز گار کو کیسے اور کیوں کر بچایا جا سکتا ہے؟ یا آئین میں دیے گئے حقِّ انجمن سازی (ٹریڈ یونین) کو کیسے متحرک کیا جا سکتا ہے؟
جب اخبارات اور میڈیا کے مالکان ہی عوامی حقوق چھیننے والی ریاست کے حاشیہ بردار ہو جائیں تو کس طرح صحافیوں کی انجمن سازی کے حق کو اداروں میں محفوظ کیا جا سکتا ہے؟ صحافی جہاں اپنے حقوق کی جنگ کا پاسبان ہوا ہے، وہیں وہ عوام کے سیاسی، عدالتی، اور شہری آزادیوں کے حصول میں بھی ہَراوُل دستے کا کردار ادا کرتا رہا ہے، جو کہ صحافی کی ٹریڈ یونین کے رہنما اسے فراہم کرتے ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارے ریاستی ڈھانچے میں آزادی سے لے کر تا حال غیر جمہوری طاقت کا غلبہ رہا ہے جو ہنوز جمہوریت کے پردے میں بھی اپنی پوری بربریت کے ساتھ جاری و ساری ہے، جس نے پاکستانی تاریخ میں صحافت کے بد ترین معاشی بحران کو جنم دیا ہے جس سے صحافیوں کا مقدس اور با وقار پیشہ نہ صرف بے روز گاری اور معاشی قتل گاہ بنا ہوا ہے، بَل کہ، اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا کا صحافی خوف اور معاشی عدمِ استحکام کی وجہ سے اپنی صحافتی تخلیق اور غیر جانب دار تجزیے سے محروم ہوتا جا رہا ہے، جس کا منفی اثر زبان و بیان اور صحافتی قدروں پر پڑ رہا ہے اور آج کا صحافی معاشی دباؤ کے ساتھ ذہنی دباؤ کا بھی شکار ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس بحران میں ہم ٹریڈ یونین سازی یا اسے متحرک کرنے میں اس قدر کام یاب کیوں نہ ہو سکے جس کی ضرورت ہماری صحافتی تنظیموں کو تھی یا اب تک ہے؟
مذکورہ سوال کے مختلف پہلو ہیں جن کا احاطہ کرنے اور صحافت سمیت عوام کی شہری اور سیاسی آزادیوں میں صحافت کی سرخیل ٹریڈ یونین پاکستان فیڈرل یونین آف جر نلسٹس کی جد و جہد اور کردار کو سمجھنے کے لیے، ضروری ہے کہ نو جوان، یا نو وارد صحافی صحافتی شعبے کے استاد ڈاکٹر توصیف احمد کی کتاب، آزادیِ صحافت کی جد و جہد میں اخباری تنظیموں کا کردار اور صحافتی جد و جہد کے ہَراوُل رہنما و صحافی احفاظ الرحمن کی کتاب سب سے بڑی جنگ کا مُطالَعَہ کریں، تا کِہ اندازہ ہو سکے کہ کس طرح صحافتی ٹریڈ یونین، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے صحافتی حقوق کے حصول کے لیے سخت سے سخت جبر میں بھی ٹریڈ یونین سر گرمی کو جاری و ساری رکھا، اور اہلِ صحافت کو ہر ذہنی اور معاشی دباؤ سے بچائے رکھا۔
اِسی کے ساتھ صحافتی تحریک کے سرخیل منہاج برنا کی کتاب مرثیہ چوتھے ستون کا کو پڑھنا اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے صحافیوں میں مارشلائی آمروں کے جابرانہ ذہن کا ایک ایسا گروہ جنرل ضیاء نے اپنی طاقت ور حکومت میں صحافت میں پیدا کیا، جس کا کام صحافیوں میں جد و جہد کے بَہ جائے آمرانہ ذہن سازی اور ٹریڈ یونین کے تصور کو ختم کرنا تھا۔
دستور کے نام پر 80 کی دھائی میں اختلاف کرنے والے اس مارشلائی گروپ کی آج بھی یہی کوشش ہے کہ صحافیوں میں حقوق کی جد و جہد کے استعارے ٹریڈ یونین کے تاریخ ساز کردار کو ختم کیا جائے، اور صحافیوں میں ٹریڈ یونین کی افادیت اور جد و جہد کے مقابل پریس کلب کی ممبر سازی، اور سیاست کو فروغ دیا جائے؛ اور صحافیوں کے حقوق کی جنگ کو مارشلائی سوچ کے تحت روکا جائے۔ حالاں کہ صحافیوں کے حقوق اور ان کی معاشی آزادی کی جنگ ہمیشہ ٹریڈ یونین، یعنی فیڈرل یونین آف جرنلسٹس یا مقامی سطح کی، کے یو جے، ایچ یو جے، پی یو جے، بی یو جے، پختون یو جے، آر آئی یو جے و دیگر ٹریڈ یونین نے ہی لڑی ہے، جب کہ پریس کلب صحافیوں کے سستانے، یا تبادلۂِ خیال اور شہری آزادی کے خواہاں عوام کے لیے ایک بہتر ماحول فراہم کرنے والا ادارہ رہا ہے، جس کو ٹریڈ یونین نے ہی اپنی جد و جہد سے حاصل کیا، اور بنایاہے۔
ایک طویل عرصے سے نئے صحافیوں میں مارشلائی و آمرانہ ذہن سازوں نے پریس کلب کی اہمیت اور ممبر شپ کو جان بوجھ کر بڑھایا تا کِہ عام صحافی اپنے حقوق سے بے خبر رہے، اور صحافتی ٹریڈ یونین کی حیثیت کو کم کیا جائے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ صحافی کے حقوق کا دفاع ہمیشہ ان کی ٹریڈ یونین کیا کرتی ہے جب کہ پریس کلب کا صحافیوں کے روز گار اور معاشی حقوق سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ پریس کلب کی ممبر شپ کے شوق کو آمرانہ ذہن اور ٹریڈ یونین کے مخالف افراد نے نئے صحافیوں میں اس بری طرح داخل کیا کہ آج کا عامل صحافی اپنے روز گار اور معاشی حقوق کی جد و جہد کرنے والی ٹریڈ یونین کی ممبر شپ پر زیادہ توجہ دینے، یا اپنے قانونی حق سمجھنے کے بر عکس پریس کلب کی ممبر شپ کے لیے زور آزمائی کرتا ہے اور مختصر سے فائدے خاطر اپنے حقوق کی جنگ سے محروم ہوکر ٹریڈ یونین کی طاقت بننے کے بَہ جائے بے روز گار، یا معاشی طور پر بد حال ہو جاتا ہے، اور پھر جب وہ پریس کلب کی جانب مدد کے لیے دیکھتا ہے تو سوائے مایوسی کے اس کے ہاتھ کچھ نہیں لگتا۔
کیوں کہ پریس کلب کی باڈی کسی طور بھی اس کے غصب کیے گئے حقوق دلوانے کی ذمہ دار نہیں ہوتی۔ اسی کے ساتھ صحافتی اداروں میں صحافی کو انجمن سازی کے عمل سے روکنے کی کوشش میں بھی یہی آمرانہ مزاج کا گروہ سر گرم ہے جس نے نئے صحافیوں میں نوکری چِھن جانے کا خوف ڈال کر اسے ادارے میں ٹریڈ یونین سے دور رکھا ہوا ہے، تا کِہ یہ گروہ غیر جمہوری اور آمرانہ ریاستی طاقتوں کا آلۂِ کار کا کردار بڑی خاموشی سے ادا کرتا رہے۔
جب کہ دوسری جانب اس آمرانہ مزاج گروہ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ میڈیا مالکان سے صحافیوں کو آئینی و قانونی جد و جہد سے دور رکھنے کی قیمت مراعات اور عہدوں کی شکل میں لیتا رہے۔
موجودہ نام نہاد جمہوری دور میں صحافیوں کے معاشی محرومی اور بے روز گاری سے چھٹکارے کا وہ کون سا طریقہ اختیار کیا جائے کہ صحافتی پا بندیوں کے ساتھ صحافی حقوق کا دفاع کیا جائے، اس سلسلے میں کراچی یونین آف جر نلسٹس کے صدر اشرف خان اور PFUJ کے صدر افضل بٹ کافی متحرک نظر آتے ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ صحافتی تنظیموں کے اختلاف سے زیادہ اہم معاملہ صحافی حقوق کے لیے قانونی اور ٹریڈ یونین جد و جہد ہے جس میں صحافتی آزادی سے لے کر شہری آزادی، عوام کی جمہوری آزادی، عدلیہ کی آزادی اور صحافیوں کی ہر ادارے میں انجمن سازی کا مشترکہ آئینی حق لینا اہم ہے۔
ان زُعماء کا صحافتی آزادی اور صحافتی حقوق کی جد و جہد میں تمام تر اختلافات کو پسِ پُشت ڈال کر ایک پلیٹ فارم تشکیل دینے کا نُکتہ بھی اہم ہے، اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام صحافتی جد و جہد کے دوستوں کو اس پیش کش کا جائزہ لے کر کوئی نہ کوئی ایسا لائحۂِ عمَل ضرور مرتب کرنا چاہیے جس کے نتیجے کے طور پر صحافتی تنظیمیں مضبوط اور زیادہ سے زیادہ متحرک ہو سکیں؛ کہ متحدہ جد و جہد ہی صحافت کی اعلیٰ قدروں کی ضامن، اور مسائل سے نجات کا ذریعہ ہو گی، وگرنہ تب پچھتاوے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ جائیں کھیت۔