وزیراعظم کی جے آئی ٹی میں پیشی : داخلی سفر معروضیت کی جانب یا اِتمامِ حجت
(نعیم بیگ)
پانامہ لیکس پرسپریم کورٹ کے فیصلے اور بعد ازاں جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد جس تیزی سے تفتیش کا دائرہ کار اور سرگرمیاں اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی ہیں، اتنی ہی تیزی سے یہ احساس جاگ اٹھاہے کہ بالآخر ’اسٹیٹس کو ‘ پر ’احتساب ‘ کا عمل کسی حد تک حاوی ہو رہا ہے۔ انصاف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیئے ، کیونکہ جرم عائد ہوجانے پر ہماری اشرافیہ اپنے پرانے ہتھکنڈے آزماتی ہے۔ انصاف یا احتساب کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے وہ تمام غیر اخلاقی اور غیر قانونی حربے استعمال کرتی ہے جو اس کے بس میں ہوتے ہیں۔
حتیٰ کہ انصاف کے اداروں پر حملہ کرنے کے لئے مذہبی، سماجی اور تمدنی موریلیٹی، جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، سے بھی رو گردانی کر دی جاتی ہے۔تاہم یہ بھی امر واقعہ ہے کہ الزامات کی یکطرفہ روایت ہمارے ہاں گذشتہ کئی ایک برسوں سے جڑ پکڑ چکی ہے ۔ ایسے میں انصاف کی فراہمی مشکل ترین کام بن گیا ہے۔
ہماری جیسی انتہائی پیچیدہ اور تہذیبی طور پر ارتقاٗ پذیر سوسائٹی میں لازم تصورات کا اہتمام کرنا تو دور کی بات، ہم اس فقدان کو اپنے سیاسی اور مالی مفادات کے حوالوں سے ایکسپلائٹ ہی کرتے رہے ہیں۔ ایک طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم تین نسلوں کا حساب دے رہے ہیں، تودوسری طرف تفتیشی ٹیم سپریم کورٹ میں یہ کہہ رہی ہے کہ انہیں انصاف کے حصول کے لئے تفتیش کرنے میں دشواریاں آ رہی ہیں اور اداروں میں تیزی سے ریکارڈ بدلا جا رہا ہے۔
تفتیش کے لئے ساٹھ دنوں کی فراہمی، دراصل سپریم کورٹ کے تین ججز کا اس حساس معاملے میں باقی دو ججز کی حتمی رائے پر، ایک منصفانہ عمل تھا جس کے تحت وہ براہِ راست تائید کرنے کے بجائے پانامہ کیس کے متصور ملزمان اور استغاثہ کے چارہ گروں کو واضح اور شفاف انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرانا چاہتے تھے۔ بلاشبہ یہ فیصلہ تاریخ میں لکھا جائے گا۔
تاہم جے آئی ٹی کے پہلے تیس دنوں میں جو کچھ سامنے آیا ہے اس سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ احتساب و انصاف کا شدت سے قومی مطلوبیت کی طرف سفر بہرحال جاری ہے۔ قومی منظر پر عدلیہ کے مزاج میں جو نمایاں فکری تبدیلی نظر آ رہی ہے وہ اس بات کی غماضی کرتی ہے کہ انکی جانب سے سفر اپنی درست سمت میں جاری ہے۔
دیکھنا صرف یہ ہے کہ کیا دوسرا فریق جو اتفاق سے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہے اس پورے عمل میں قومی سطح پر موریلیٹی اور انصاف کی اس کسوٹی پر پورا اترتا ہے جس کی انکے ہاں دن رات تشہیر کی جاتی ہے ۔کیا یہ فریق قومی اداروں کے قانونی وجود کو تقویت دیتا ہے یاانتقاضی عمل سے قانون و آئین کی اہانت کا سبب بنتا ہے؟
بریگزٹ کیس میں برطانوی وزیر آعظم صرف اس بات پر مستعفی ہو گئے تھے کہ وہ بنیادی طور پر بریگزٹ کے مخالف تھے اور برطانیہ میں ہونے والے بریگزٹ ریفرینڈم میں اکثریت کے فیصلے سے وہ سمجھتے تھے کہ عوامی رائے کھو بیٹھے ہیں ۔
۱۵۔جون ۲۰۱۷.ء کو وزیراعظم کی جے آئی ٹی میں پیشی درحقیقت ہمارے سماجی اور قانونی سٹریکچر اور موریلیٹی کا امتحان ہے۔ اس پیشی پر دنیا بھر کے سفارت کاروں اور ملکوں کی نظریں پاکستان اور وزیراعظم پاکستان پر جمی ہیں۔
قطع نظر اس سے کہ جے آئی ٹی دوران تفتیش کیا رویہ اپناتی ہے؟ کیا فیصلہ ہوتا ہے؟ کیا نتائج نکلتے ہیں؟ عوام ملکی سربراہ اور انکے رفقاٗ کار سے سنجیدگی اور بردباری کی توقع کرتے ہے۔ عدالتی فریقین کو سمجھ جانا چاہیئے کہ تفتیشی ٹیم عدالتی اور قانونی احکامات کے تحت اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہے۔ قانون کی بالادستی اور احتساب کے بارے میں شفاف نظریات ہی اب حکومتی بنچوں پر بیٹھے مقننہ کے اراکین کا مطمع نظر ہونے چاہییں۔
تفتیشی ٹیم اُسی قانون کے تحت وجود میں میں آئی ہے جس قانون کے تحت وزیراعظم نے حلف اٹھایا ہے۔ عدالت سے باہر مجمع لگانے والے حکومتی اراکین کو میڈیا سمیت اب اس سطح پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔یہ ایسا وقت ہے کہ مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ بیک وقت اپنی شناخت اور وجود کے بحران سے نبرد آزما ہیں۔ حکومتی سطح پر کوئی معمولی سی لرزش ملک اور قوم کے لئے نہ صرف شرمندگی کا باعث ہوگی بلکہ اعتبار کے اٹھ جانے سے یہ ادارے ہمیشہ کے لئے اپنی جمہوری اقدار ، تہذیبی روایات اور قانونی جواز کھو دیں گے۔
فیصلے کا انتظار کیجیئے ۔ میڈیا کو بھی اس ضمن میں اپنی ذمہ داری کو سنجیدگی سے نبھانا ہے۔ فطرت بے گناہوں کے لئے اپنے رستے خود کھول دیتی ہے۔ اس میں شرط استواری صرف قانون اورموریلیٹی سے رجوع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ بلا جواز سیاسی و عوامی دباؤ اکثر پلٹ کر طاقت کے مرکز کو اکھاڑ پھینکتا ہے۔ جن کے نقصانات ماضی میں ملک اور عوام ہی نے سہے ہیں۔