ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل اور پاکستانی معاشرہ

(رابی وحید)

عورتوں کے حقوق کی باتوں میں اور عورتوں کی حالتِ زار میں بہت زیادہ فرق ہے۔ میں اکثر دیکھتی ہوں کہ عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والوں کے ہاں عورتوں کی حالتِ زار کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ میں بطور ایک ٹیچر، عورتوں کے مسائل سے کچھ آگاہ ہوں۔ ہمارے معاشرے میں عورت کے ملازمت کرنے کے رجحان کی نفی کی جاتی ہے۔ عورتیں جس طرح گھر سے ملازمت کرنے نکلتی ہیں وہ کوئی اچھا تجربہ نہیں ہوتا۔ میں نے ماسٹرز کرنے کے بعد جب ملازمت کے لیے خواہش کا اظہار کیا تو میری بھی مخالفت کی گئی۔ میری سب سے زیادہ مخالفت بھائیوں اور اپنے کٹر مذہبی رشتہ داروں کی طرف سے ہوئی۔ اگر میں ملازمت کے لیے تدریس کا انتخاب نہ کرتی تو شاید میرے والدین بھی مجھے اجازت نہ دیتے۔ میرے والد کی حمایت شاید اس لیے تھی کہ اُن کی ایک بہن اس وقت گوجرانوالہ کے ایک تعلیمی ادارے کی سربراہ بن چکی ہیں اور انھوں نے بطور ٹیچر اچھا نام کمایا ہے۔

شادی کے بعد سب سے زیادہ خوف خاوند کی طرف سے ہوتا ہے۔ عورتیں اپنی نجی زندگی کا تقریباً تمام حصہ منقطع کر دیتی ہیں۔ سماجی زندگی کے احیا کا سوال کرنا بھی گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ مگر میں خوش قسمت رہی کہ میرے خاوند نے مجھے میری نجی اور سماجی زندگی کا پورا حق دیا۔ سچ پوچھئے تو ہمارے معاشرے میں عورت کی زندگی ایک جوا ہے جو کامیاب ہو گیا تو ہو گیا، ورنہ گھاٹا اُس کا مقدر۔

کیا عورت ملازمت کرنے یا اپنی سماجی سرگرمیاں اپنی مرضی سے ادا کر سکتی ہے؟ میرے خیال میں اس کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے نہیں۔۔۔ میں نے پچھلے کچھ سالوں سے اسلام آباد کے اساتذہ کی ایک انجمن کو لیڈ کیا ہے، مجھے اس حوالے سے بہت سے مشاہدات ملے۔ عورتیں کس کس مجبوری کے تحت ملازمت کر رہی ہیں، اس کا اندازہ بھی کرنا مشکل ہے۔ ڈیلی ویجر اساتذہ کے حقوق کی اس تنظیم کے لیے مجھے لڑتے ہوئے مجبوراََ اساتذہ کے کاز نے اکسائے رکھا کہ میں کچھ کروں۔

یہ ٹیچرز اپنے گھروں میں خوش نہیں تھیں۔ مجھے درجنوں ایسی ٹیچرز ملیں جو اپنے گھر سے بحالت مجبوری ملازمت کرنے نکلی تھیں۔ ایک ٹیچر تو دارلامان میں رہتی تھی اور اُس کے خاوند نے اسے گھر سے نکال رکھا تھا۔ وہ چند ہزار روپے صرف اس لیے کماتی کہ وہ اپنے بچوں کی فیس اور راشن پانی پورا کر سکے۔ اس نے مجھے اپنی مجبوری بتا کہ رلا دیا۔ ہڑتال کے دوران جب اُس نے مجھ سے درخواست کی کہ میرے کالج والے مجھے کالج میں داخل نہیں ہونے دیتے، کہتے ہیں کہ تم ہڑتال پہ ہو تو کالج میں کیوں آتی ہو۔ حالانکہ پورا کالج خواتین کا تھا، وہ عورت کی مجبوری کو سمجھ نہیں سکا۔ میں نے اُسے کہا کہ تم جب ہڑتال کر رہی ہو تو کالج میں پہلے کیوں آ جاتی ہو۔ صرف ہڑتال والی جگہ پر مقررہ وقت پہ پہنچا کرو۔ مگر وہ مجھے رو کے بتانے لگی کہ میں کالج بس پہ جلدی گھر سے نکلتی ہوں، میرے پاس وین کا کرایہ تک نہیں ہوتا، اس لیے جلدی احتجاج کی جگہ پہنچ جاتی ہوں اور وہاں سے کبھی قریبی ہسپتال کے ویٹنگ روم اور کبھی کبھار اپنے کالج کی کینٹین پہ وقت گزارتی ہوں۔

آپ کو ہر ملازمت کرنے والی کے ہاں اس طرح کی کہانیاں ملیں گی، کوئی کہتی ہے کہ میں خاوند کے سامنے مضبوط رہنے کے لیے ملازمت کرتی ہوں۔ کوئی کہتی ہے کہ میں ’’کماؤ پوت‘‘ ہوں اس لیے میری ساس میرے ساتھ نرم رویہ رکھتی ہے۔ کبھی کسی کو پیسوں کی محتاجی ٹیچر بننے پہ مجبور کرتی ہے اور کسی کو کوئی اور مسئلہ۔ عورتوں کے حقوق اور اُن کی حالتِ زار دو مختلف موضوع ہیں۔ جو عورتوں کے مسائل جاننا چاہتے ہیں وہ کبھی عورتیں سے پوچھیں کہ اُن پہ کیا کیا بیتتی ہے۔ وہ کن حالات میں ملازمت کر رہی ہیں۔ صبح دفتر تک پہنچنے تک انہیں کن کن مسائل سے گزرنا پڑتا ہے۔ دفتر کا مرد عملہ انہیں کس کس طرح بلیک میل کرتا ہے۔ عورت خواہ کسی بھی عہدے پہ ہو، وہ جنسی اور سماجی نا انصافی کا شکار کسی نہ کسی حالت میں ہو رہی ہوتی ہے۔ عورتیں ملازمت کر کے بھی معاشرے کی ناکارہ صنف ہی رہتی ہیں۔ وہ بچوں کو پڑھا رہی ہیں مگر مرد انہیں حقیر ہی سمجھتے ہیں اور اُن کے ساتھ وہی سلوک رواں رکھتے ہیں جو ایک کام نہ کرنے والی عورت سے رواں رکھا جاتا ہے۔

میرے خیال میں ملازمت کرنے والی خواتین کے مسائل پر بھی گفتگو ہونی چاہیے اور اُن کے مسائل کے حل کے لئے معاشرے کی تربیت ضروری ہے۔ معاشرے میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں جبکہ مرد اب تک عورت کو اپنے برابر تصور نہیں کرتے۔