پروپیگینڈا، نوم چومسکی اور ہمارے نیوز چینلز کی مُکدر فضا
از، اسد لاشاری
پروپیگنڈا ہوتا کیا ہے اور کیوں کیا جاتا ہے، اس کی جدید تاریخ کیا ہے۔ ان سب کو اور پاکستان کے حالات کو سمجھنے کے لیے امریکی ماہرِ لسانیات نوم چومسکی کے مضمون پروپیگنڈا اور دانشوروں کی ذمہ داری کو پہلے پڑھنا اور بعد میں سمجھنا بہت ضروری ہے۔ نوم چومسکی صاحب لکھتے ہیں کہ پروپیگنڈا کی شروعات ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی صدر ووڈرو ولسن کے دور سے ہوئی۔
ووڈرو وولسن 1913 سے لے کر 1921 تک امریکا کے صدر رہے۔ ووڈرو ولسن کی الیکشن مہم کا بنیادی نعرہ امن کے بغیر فتح،جنگ عظیم کی وجہ سے کافی پُر کشش تھا۔ حالانکہ اس وقت امریکی عوام مطمئن اور پر سکون تھے ان کو اس بات کا کوئی سبب نظر نہیں آرہا تھا کہ امریکا یورپی جنگ میں شریک ہو۔ البتہ ولسن انتظامیہ جنگ میں شامل ہونے کی خواہش مند تھی۔ ولسن انتظامیہ کو اس حوالے کچھ کرنا تھا، اس لیے ووڈرو ولسن نے پروپیگنڈا کمیشن قائم کیا۔
جس کا نام Creel Commission رکھا گیا تھا۔ جس نے چھ ماہ کے مختصر عرصے میں امریکی قوم کو جنگ عظیم میں حصہ لینے کے لیے مائل کر کے جنگ کی خواہشمند قوم میں تبدیل کر دیا۔جو جرمنی اور اس متعقلہ ہر چیز کو تباہ کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئی۔یہ اس کمیشن کی کی تمام بڑی کامیابی تھی۔اس کے بعد اس کمیشن کی ذمہ داریوں کو مزید بڑھایا گیا اور جنگ کے بعد اس کمیشن نے مختلف حربوں کے ذریعے ایسا ماحول تیار کیا کہ پہلے وہاں موجود تمام تنظیموں کو ختم کیا اور پھر بڑی چالاکی سے صحافت اور سیاسی نظریوں کی آزادی کو تباہ کیا۔ اس تمام عمل میں میڈیا سمیت دیگر اداروں نے اس منظم پروپیگنڈا کو کامیابی سے آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ووڈرو ولسن کے پروپیگنڈا مشن میں جن لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اس میں کاروباری شخصیتوں کے علاوہ، صحافی و ترقی پسند اور دانشور بھی شامل تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھ میں پورا نظام ہوتا ہے۔
آئیے اب ذرا وطن عزیز میں موجود صحافی و انشوروں کے کردار کا جائزہ لیں اور پھر خود سوچیں کہ وہ کہیں کسی کمیشن کا حصہ تو نہیں؟
پاکستان میں صحافیوں کی کئی قسمیں ہیں، کچھ جمہوریت کے داعی تو کچھ آمریت کے پیروکار ہوتے ہیں، کچھ آزاد خیال لبرل تو کچھ مذہب کے حامی ہوتے ہیں، سب اپنے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے پروپیگنڈا کا سہارا لیتے ہیں۔ پروپیگنڈا اور سازش یہ وہ چیزیں ہیں جو ہمیں وطن عزیز کی آزادی کے ساتھ ورثے میں ملیں۔ عوام کے ذہنوں میں اپنے مطلب کی بات بٹھانے کے لیے ٹی وی ٹاک شوز میں ایک ہی موضوع پرکئی کئی ماہ پروگرامز کیے جاتے ہیں۔ پھٹے ہوئے ڈھول کو بجانا جیسے عادت سی بن گئی ہے۔ عوام کے سامنے جو حقائق پیش کیے جا تے ہیں ان کا دور دور تک حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔ آزاد میڈیا عوامی مسائل کو منوں مٹی تلے دفن کرنے کی ذمہ داری بخوبی نبھا رہا ہے، ان کی کاوشوں کی بدولت اصل حقائق جھوٹ کے ملبے تلے دب جاتے ہیں اورنامور صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری کے ساتھ اس ملبے میں مسلسل اضافہ کرتے رہتے ہیں۔
نامور صحافیوں کا ساتھ دینے کے لیے سینئر تجزیہ کار شام ہوتے ہی ٹی وی پر آشکار ہوناشروع ہو جاتے ہیں، اور کمال مہارت کے ساتھ حقائق کے بر عکس کہانیاں سنانے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ کہانیاں مسلسل سنائی جا رہی ہیں یہ الگ بات ہے کہ سننے والوں کو سن کر شرم آتی ہے مجال ہے کہ سنانے والوں کو بھی کبھی کوئی چیز محسوس ہوئی ہو! یہ حضرات گزشتہ کئی سال سے اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے قوم کو نظر نہ آنے والے دور اندیش خطرات، سازشوں اور پروپیگنڈوں سے آگاہ کرتے ہیں۔
انہی کی بدولت ہمیں پتا چلا کہ ملک میں سیاسی و معاشی عدم استحکام دشمن کی سازشوں کا نتیجہ ہے۔ صد شکر کے نامور صحافیوں نے ملک کے خلاف ہونی والی سازشوں کو بے نقاب کیااور قوم کے مجموعی شعور کو جھنجوڑ کر ہمارے اندر قومی شعور اور غفلت کی گہری نیند میں سوئی ہوئی حمیت صاحبہ کو بیدار کیا۔ ورنہ ہم تو صرف چار دیواری کی چوکیداری کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے۔
سوچیں اور بعد میں فیصلہ کریں کہیں صحافت کے نام پر ایک مخصوص تیار شدہ طبقہ تو نہیں؟ جن کا مقصد عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اور عوام کو ہر وقت گھروں تک محدود رکھنا ہوتا ہے جہاں وہ پورا دن ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں اور ان کے ذہنوں میں ہر قسم کے پیغامات کی برسات ہوتی رہتی ہے۔ان پیغامات میں بتایا جاتا ہے کہ فلاں فلاں مصنوعات کی ضرورت کیوں ہے؟ فلاں لیڈر غدارِ وطن ہے، فلاں سازشی ہے، فلاں جمہوری، فلاں غیر جمہوری، یہ ادارا اچھا ہے وہ برا ہے۔
عوام کے چاروں طرف سے کریل کمیشن کے لوگوں نے گھیرے رکھاہے بڑے بڑے لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے زور زور سے جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہے ہیں۔ ہم سب پر روزانہ Creel Commission کے میزائل فائر کیے جا رہے ہیں مگر ہمارے صحافی وی دانشور حضرات اور موجودہ حکمران اس کڑوے سچ کو بھول گئے ہیں کہ اجرت پر ملنے والے افراد اپنے الفاظ میں سچائی کا رنگ نہیں بھر سکتے۔ اجرت پر بکنے والے لوگ کبھی بھی عام افراد سے زیادہ عقل مند اور ذہین نہیں ہوتے۔ اس لیے ایک نہیں بلکہ سینکڑوں Creel Commissions بنا لومگر جھوٹی کہانیوں کو کبھی سچی کہانیاں نہیں بنا سکو گے۔ لوگ بازاروں، راستوں، اورگھروں میں بیٹھ کر اجرت پر ملنے والے ضمیر فروشوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ عوام کی نظر میں ایسی کہانیوں کی حیثیت اور اہمیت لطیفوں سے زیادہ نہیں رہی۔
اس لیے خدارا! عوام کو بیوقوف سمجھنا چھوڑ دیں۔ لوگ آپ سے اور اجرت پر ملنے والوں سے زیادہ سمجھدار ہیں۔