ارض خدا کا امن اور دعوی عاشق رسولﷺ
(محمد صفی سرحدی)
چند روز قبل ہنگلاج مندر میں میلہ چل رہا تھا، ہنگلاج مندر ہندوؤں کی باونویں پیٹھ ہے، یہاں تیرتھ یاترا ہوتی ہے۔ حب کے ایک ہندو رہائشی پرکاش کمار نامی جوان نے مندر کی تصاویر واٹس ایپ پر پر شیئر کیں، جس پر انور لاسی قادری نے کمنٹس میں ”کالی ” کو گالیاں دیں، جواب میں پرکاش نے بھی توہین کی۔ اس کے بعد انور قادری نے حب سٹی تھانہ میں توہین رسالت ﷺ کے کیس کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی۔ اس کے ہمراہ جمعیت علمائے پاکستان کے مقامی رہنما بھی تھے۔ پولیس نے تفتیش کیلئے پرکاش کمار ولد پریم چند کو اٹھا لیا۔ پاکستانی آئین کے مطابق کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں کی توہین جرم ہے۔
اور قران مجید سورہ الانعام آیت نمبر 108 میں فرمایا گیا ہے:
(اے ایمان لانے والو!)
یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں ہم نے اسی طرح ہر گروہ کے لیے اس کے عمل کو خوشنما بنا دیا ہے پھر انہیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت وہ اُنہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔
انور لاسی قادری نے جو اسکرین شارٹ دیئے تھے پولیس کو اس میں ”کالی” کو گالیاں واضح طور پر تھیں، صبح ایس ایچ او حب عطاء اللہ نمانی نے انور قادری کو بلا کر کہا کہ کیس تم پر بھی درج ہوگا، اور اسے تھانے میں بٹھا لیا، اس واقع کیخلاف مساجد سے اعلانات ہوئے کہ ایک ہندو نے توہین رسالت کی اور مسلمان کو بھی ساتھ گرفتار کرلیا، پھر ایک ہجوم نے تھانے پر دھاوا بول کر انور قادری کو چھڑوا لیا۔ پرکاش کو پولیس نے صبح ہی گڈانی جیل بھجوا دیا تھا، اس کے بعد کراچی ٹو کوئٹہ اور کراچی ٹو گوادر مین قومی شاہراہ پر ”مشتعل افراد” نے دھرنا دے دیا۔ اور مارکیٹ میں توڑ پھوڑ بھی کی جس کی وجہ سے پورے شہر کی دکانیں بند ہوگئیں۔
یہاں پر چیئرمین بلدیہ حب رجب علی رند، انجمن تاجران حب خورشید رند، DSP سی آئی اے ملک عبدالستار رونجھو اور SHO حب سٹی عطاء اللہ نمانی سے مذاکرات کے بعد مظاہرین نے سڑک کھول دی اور ریلی کی صورت میں نعرے بازی کرتے ہوئے حب سٹی تھانہ کے سامنے پہنچ کر احتجاج کرنے لگے اور مطالبہ کیا کہ تھانہ میں موجود ملزم کو ان کے حوالے کیا جائے اور سرعام پھانسی دی جائے جس پر DPO ضیاء مندوخیل اور دیگر افسران سمیت کمانڈنٹ F/C کرنل اظہر محمود نے مظاہرین کو یقین دہانی کرائی کہ ملزم کو گرفتار کرلیا گیا اور مقدمہ درج کر کے اسے سینٹرل جیل گڈانی منتقل کردیا گیا ہے لیکن مظاہرین اصرار کرتے رہے کہ ملزم کو عوام کے سامنے لاکر سرعام پھانسی دی جائے اس دوران سرکاری حکام مظاہرین کو بار بار یقین دہانیاں اور مذاکرات کی کوشش کرتے رہے لیکن کئی گھنٹے گزر نے باوجود مظاہرین اپنے مطالبے پت ڈٹے رہے اس دوران حب شہر کے درمیان سے گزرنے والی کراچی کوئٹہ قومی شاہراہ سمیت شہر کی دیگر ذیلی سڑکوں پر گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں اور بدترین ٹریفک جام ہو گیا جس کے باعث گاڑیوں میں سوار مسافر جن میں خواتین ومرد بچے اور بوڑھے افراد گاڑیوں میں ہی کئی گھنٹے محصور ہو کر رہ گئے اور گرمی کی شدت کے باعث انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا پولیس و فورسز کے حکام کی حالات کو پُر امن سطح پر لانے کی طویل کوشش وں کے بعد ڈپٹی کمشنر لسبیلہ مجیب الرحمن قمبرانی اور ADC طارق مینگل بھی پہنچ گئے اور مظاہرین سے مذاکرات کی کوشش کے دوران جھڑپ ہو گئی جس میں ADC طارق مینگل معمولہ زخمی بھی ہوئے جبکہ قبل ازیں مظاہرین کو تھانے کے سامنے سے منتشر کرنے کیلئے پولیس اور ایف سی اہلکاروں نے ہوائی فائرنگ کی اور آنسو گیش کے شیل بھی فائر کئے جبکہ مظاہرین نے اہلکاروں پر شدید پتھراؤ کیا جس کے نتیجے میں DSP حب سرکل جان محمد کھوسہ سر پر پتھر لگنے سے شدید زخمی ہو کر لہو لہان ہو گئے اور ایک اندھی گولی لگنے سے ایک کمسن بچہ بھی زخمی ہو گیا۔
واقعہ میں زخمی DSP اور دو پولیس اہلکاروں و بچے کو فوری طور پر اسپتال بعدازاں کراچی منتقل کردیا گیا، ڈپٹی کمشنر کی جانب سے مذاکرات کی کوشش کے دوران جھڑپ کے بعد پولیس و فورسز کے اہلکار مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے ایکشن میں آگئے ہوائی فائرنگ و آنسو گیش کی شیلنگ کا اندھا دھند سلسلہ شروع کردیا جو کہ کافی دیر تک چلتا رہا جس پر مظاہرین تھانہ کے سامنے سے تو منتشر ہو گئے لیکن شہر کی سڑکوں پر آکر پھر سے احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا اس دوران مظاہرین نے درجنوں گاڑیوں پر پتھرائو کر کے ان کے شیشے بھی توڑ دئیے اور پھر لگنے کی وجہ سے کئی مسافر زخمی بھی ہوئے جسکے بعد پولیس اور ایف سی اہلکار ایک مرتبہ پھر شہر میں بھی پہنچ گئے اور مظاہرین سے جھڑپیں شروع ہو گئیں اس دوران گولی لگنے کے نتیجے میں ایک موٹر گیراج پر کام کرنے والا 12سالہ قدرت اللہ ولد بسم اللہ خان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی دم توڑ گیا۔
شہر میں مشتعل مظاہرین کے احتجاج جلائو وگھیرائو ہوائی فائرنگ و شیلنگ و پتھرائو کے بعد پورے شہر کے حالات کشیدہ ہو گئے اور خوف وہراس پھیل گیا اور اقلیتی برادری اپنے کاروباری مراکز بند کر کے گھروں میں محصور ہو گئے جبکہ اکثریت کراچی اور حب کے قریبی شہروں میں اپنے عزیز واقارب کے پاس چلے گئے دوسری طرف ضلعی انتظامیہ نے شہر میں حالات پر کنٹرول اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے پولیس لیویز B/C اور ایف سی کے بھاری دستے حب طلب کر لیئے اور حب شہر میں ہندو اقلیتی برادری کے رہائشی علاقوں اور انکی مذہبی عبادت گاہوں کی سیکورٹی سخت کردی گئی جبکہ شہر میں پولیس و فورسز کے اہلکار گشت بھی کر رہے ہیں اور سڑکوں پر چیکنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
بی بی سی کے مطابق مذہبی جماعتوں کی اپیل پر جمعرات کو اس معاملے پر شہر میں جلوس نکالا گیا اور بازار بند کروانے کے بعد جلوس کے شرکا نے تھانے کا گھیراؤ کر لیا۔ اس جلوس میں مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کے علاوہ عام شہری بھی شامل تھے اور انھوں نے تھانے کے باہر جمع ہو کر مطالبہ کیا کہ توہینِ مذہب کے مبینہ ملزم کو ان کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ اسے خود سزا دے سکیں۔
ایس پی ضیا مندوخیل کے مطابق پولیس اور ایف سی کے حکام نے مظاہرین سے ابتدا میں مذاکرات کیے اور کچھ لوگوں کو لاک اپ بھی دکھایا تاکہ انھیں یقین ہو جائے کہ ملزم تھانے میں موجود نہیں بلکہ جیل میں ہے لیکن مشتعل افراد منتشر نہیں ہوئے۔
ان کے مطابق بات چیت میں ناکامی کے بعد پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس پھینکی جس سے وہ مزید مشتعل ہو گئے اور دو بار تھانے پر حملے اور اسے آگ لگانے کی کوشش کی۔
پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ہجوم میںں شامل بعض مظاہرین کے پاس اسلحہ بھی تھا جن کی فائرنگ سے ایک 13 سالہ بچہ قدرت اللہ ہلاک ہو گیا ہے ہجوم کی جانب سے ملزم کو ان کے حوالے کیے جانے کے مطالبے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لسبیلہ کے ڈپٹی کمشنر مجیب قمبرانی کا کہنا تھا کہ ‘مشتعل افراد ایسے مطالبات تو کرتے ہیں لیکن کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت تو نہیں دی جا سکتی۔بقول ان کے ‘یہ ایک غیر منظم ہجوم ہے جس میں مقامی تاجر اور شہری شامل ہیں۔’
مقامی صحافیوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ مشتعل افراد کا مطالبہ ہے کہ علاقے میں ہندو برادری کا کاروبار بھی بند کیا جائے۔
یاد رہے کہ ضلع لسبیلہ میں ہندو برادری ایک بڑی تعداد میں آباد ہے اور ہندوؤں کا مقدس مقام ہنگلاج بھی یہاں ہی واقع ہے جہاں ہر سال منعقد ہونے والے میلے میں شرکت کے لیے ہزاروں عقیدت مند آتے ہیں