(یاسر چٹھہ)
ان دنوں ربیع الاول کا مہینہ ہے۔ جونہی اس مہینے کا چاند آسمان پر نمودار ہوتا ہے، وطن عزیز پاکستان میں بالخصوص ایک خاص فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکروں سے میلاد مصطفٰے (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جلسے، جلوسوں اور محافل کے اعلانات شروع ہو جاتے ہیں۔ گلی محلوں میں گھر گھر میلاد کی دعوتیں دی جا رہی ہوتی ہیں اور ذکر اذکار میں وقت برتا جاتا ہے۔ موبائل فون پر اور زبانی دوستوں کے گھر محافل میلاد میں شرکت کرنے کو بلایا جا تا ہے۔
ان ساری مصروفیات و عبادات کی بہت سی سماجی جہتیں ہیں۔ کئی زاویوں سے اس کا تجزیہ ہوسکتا ہے۔ لیکن سردست آج ایک خیال کے ٹکڑے پر کچھ کہنا چاہیں گے۔ آج ایسے ہی جب کہ ہمارے احباب ایک جگہ اکٹھے بیٹھے تھے تو نعتوں کے متعلق بات چل نکلی۔ دوستوں کو پچھلے دنوں “ایک روزن” پر نعت کے متعلق کچھ مضامین کا بتا رہا تھا؛ ان مضامین میں سے بطور خاص ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے صنف نعت پر مضمون کا حوالہ دیا(تفصیل اس لنک پر ہے)؛ احباب کی توجہ دلائی کہ حسب عادت ڈاکٹر ناصر عباس نے بہت عمدہ مضمون رقم کیا ہے۔ اسے پڑھنے کی پر زور تجویز دی۔ ہم نفس اکٹھے ہوں تو باتوں سے باتیں چلتی نکلتی جاتی ہیں۔ انہیں باتوں کے دوران قاسم یعقوب صاحب نے نعت پر پروفیسر عبدالعزیز ساحر سے ہونے والے حالیہ ایک مکالمے کا حوالہ دیا۔ اس مکالمہ کو انہوں نے کل اپنے “ایک روزن” پر مضمون میں (تفصیل اس لنک پر) بھی رقم کیا ہے۔ سہولت کی خاطر اسے زیریں سطور میں نقل کر دیتے ہیں۔
“کچھ دن پہلے میں نے ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر صاحب (جو چشتی صوفیا کے پیروکار اور خود ایک صوفی فکر کے نمائندے ہیں) کوایک گفتگو میں اُردو نعت میں ہونے والے نئے تجربات کا بتایا اور کہا کہ ہمارے ہاں اب نعت کا روایتی لہجہ تقریباً بدل چکا ہے۔ نعت میں عقیدت کے نئے اور آج کے تازہ تجربات کی روشنی میں اظہار کیا جا رہا ہے۔ جیسے:
ساتھ ہوتا میں ترے شعبِ ابی طالب میں
گٹھلیاں پیستا اشجار کے پتے کھاتا
“جب میں نے اپنے عزیز دوست شاہد اشرف صاحب کی یہ نعت سنائی تو ساحر صاحب کا جوابی اظہار پسندیدگی کے باجود کچھ مختلف سا تھا۔ وہ کہنے لگے کہ اگر میں عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا اُن کے بعد کے قریبی زمانوں میں ہوتا تو شاید مجھ پر کفر حاوی ہوتا اور میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر دیر سے ایمان لاتا۔ میں نے کہا کہ مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ کو یہ کیسے معلوم کہ آپ دعوتِ حق کے بعد دیر سے اس طرف راغب ہوتے۔ آپ نے ’’شاید‘‘ کا لفظ کیوں کہا۔ ساحر صاحب نے جواب دی،ا ’’کیوں کہ میں اب جس عہد میں ہوں، وہاں سے حق و باطل، ہر چیز نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے اور میں پھر بھی حق کی طرف کم ہوں، میرے اندر آج بھی گناہ زیادہ ہیں تو اُس دور میں تو کچھ بھی واضح نہیں تھا تب کیسے میں فوراً ایمان کی دعوت پر بھاگا آتا، میں حسین ؑ کے ساتھ ہونے کی بجائے یزید کے ساتھ بھی ہو سکتا تھا، کیوں کہ اُس وقت کچھ واضح معلوم ہی نہیں ہو رہا تھا، آج تو سب کو حسینیتؑ اور یزیدیت کا واضح علم ہے۔”
اس بات کو سن کر کئی خیالات نے ذہن میں انگڑائی لی۔ پروفیسر ساحر صاحب کے اپنے آپ سے ڈر جانے میں کئی معنوی جہتیں دکھائی دیں۔ جناب شاہد اشرف کے شعر میں بیان مضمون ہمارے ہاں عام ملتا ہے۔ اس خیال کا مدعا اس نبی رحمت(صلی اللہ علیہ وسلم) کے “سنہری دور” میں نا ہونے کی حسرت اور یاسیت کا اظہار ہوتا ہے۔ تخیل میں وہ سب کچھ کرنے کے لئے آہیں بھری جاتی ہیں، جن کا آج کے دعوٰیداران الفت کی جانب سے عشق میں کر جانے کو جی چاہتا ہے۔ بہت خوب، بہت عمدہ! محبت بہت قیمتی احساس ہے؛ یہ کسی بھی زمانہ اور عہد میں واحد با معنی جذبہ رہا ہے۔
لیکن محبت و عشق اگر شعوری بنیادوں پر ہی استوار ہو تو وہ راہوں کی روشنی بنتا ہے۔ محبت حق اور سچ سے ہونا ہی کسی کام کا ہوتا ہے۔ جناب شاہد اشرف کے نعتیہ شعر میں جس خواہش کا اظہار ہے، اس کے ساتھ کیا خوف کے امکانات منسلک ہیں، ان کا بہت عمدگی سے پروفیسر ساحر صاحب نے احاطہ کردیا ہے۔ یہ احاطہ شاید انہوں نے مسلمانوں کی موجودہ علمی و فکری حالت دیکھ کر ہی کیا ہوگا۔ ایسے علمی، فکری اور عقائد کے حالات کہ جن کی قید سے وہ خود کو بھی آزاد نہیں سمجھ رہے۔ یہ نکتے مجموعی طور پر مسلمانوں کے اندر ہر نئی چیز، نئے خیال، نئے علوم، نئی حقیقتوں پر کھلے ذہن سے غور و فکر نا کرسکنے کا ذہنی رویہ ہے۔
ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ آج مسلمانوں کا جو طرز فکر ہے، اس سے وہ پناہ مانگیں اور خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کریں کہ وہ عہد نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں پیدا نہیں ہوئے۔ ورنہ ان کے اندر صحابہ کرام (رضوان اللہ اجمعین) جیسا کھلا، شفاف اور حق کو پہچاننے والا دل کہاں ہوتا۔ وہ بہت عظیم لوگ تھے اور آج بھی عظیم ہیں۔ ان کی عظمت کا ایک بہت بڑا حصہ اس نکتے میں سمیٹا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے وقت کے اور اپنی تاریخ کے زنگ آلود حقائق کے برخلاف تازہ افکار پر لبیک کہا؛ اس لبیک کہنے کے فیصلے کے پیچھے ان پر کوئی خوف طاری نہیں تھا۔ انہوں نے نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بات اور پیغام کو کھلے ذہن کے ساتھ سنا ان کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ان کا رسالت پر ایمان آزادانہ تھا۔ ان کی نظریں کسی قسم کے فوری مالی مفادات، یا کوئی اور زنجیر یا طمع نہیں تھا۔
ان آزاد فیصلہ لینے والے، اور جو بھی انہیں حق لگا اس حق کو دل میں بٹھا لینے والے عالی ظرف و نظر انسانوں کے آس پاس وہی حالات تھے، جیسے کہ آج کل بھی ہیں؛ وہ جو اپنی صدیوں کی عادات ذہنی اور فکری کے کنویں سے باہر جھانکنے کو باپ دادا کی یادوں سے اور وراثتوں سے بدعت و بے وفائی قرار دیتے تھے۔ ان دوسرے اس وقت کے نام نہاد “اعتدال پسندوں” اور روایات کے امانت داروں میں اتنی جرات پیدا نا ہو سکی کہ اپنے پاس کے صدیوں کے گھڑے ہوئے سچ کو چیلنج کر سکتے؛ یہ وہی تھے جن کے لئے طرز کہن پر اڑے رہنا ہی بامعنی اور موزوں عمل تھا۔ یہ وہی تھے جن کے لئے سوچ کے پرانے پنجروں میں قید رہنا، اور “تیار شدہ معنی” کے کھونٹے سے بندھے رہنے میں ہی ان کی شخصیت کا استقلال وابستہ تھا۔ واللہ، کیسے جوہڑ ہوتے ہیں ایسے لوگ، اور کیسے دریا جیسے تھے صحابہ کرام (رضوان اللہ اجمعین) کہ جن کے نصیب اور جن کے تعمیر شخصیت کے تصورات میں تازہ ہوا کے جھونکے جیسی بنیادی قدریں تھیں۔
یہ لوگ انسانی تاریخ کے ان چند ستارہ جیسے لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے وقت کے مروجہ اصولوں اور ضوابط کی زنجیروں کا ادراک کیا، ان سے باغی ہوئے اور آزادی پائی۔ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بالکل نئے اور انقلابی آدرشوں کو دل میں اتارا۔ کیا آج کے عشاق، آج کے عشق کے دعوٰیداری کے گردان خواہ اپنی ناک اور اپنے فرقے کی کھینچی لکیر سے باہر دیکھنے کے روادار ہیں؟ آج کے مسلمان یہ سوچیں کہ آیا یہ صحابہ کرام (رضوان اللہ اجمعین) کی حق اور سچ کو پہچاننے کی سنت پوری کرنے کی ذہنی و فکری اور اعتقادی تیاری رکھتے ہیں؟ کیا ان میں اس قدر بیدارمغزی ہے کہ یہ اپنے گرد پھیلے جھوٹ اور سچ کو کسی طور ممیز کرنے کی راہ چل سکیں؟ کیا یہ اپنی ناک کی سیدھ سے آگے پیچھے موجود دنیاؤں کو کھلی آنکھ سے مشاہدہ کرنے کی اخلاقی جرات رکھتے ہیں۔
بات سمیٹنے اور اختتام کی جانب بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج ہمیں احساس ہے کہ ہم خدا سے تو شاید بات کر سکتے ہیں، لیکن خدا کے بنے ہوئے بندوں کے سامنے دل نہیں کھول سکتے؛ وجہ یہ کہ انہوں نے، نعوذ باللہ، خدا کے اختیارات میں تجاوز کرنے کی خو اپنائی ہوئی ہے۔ قلم کرنے، بھسم کرنے اور پھٹ جانے کو عبادت کا درجہ دے ڈالا ہے۔ جبھی تو ہر طرف پھوٹ پڑی ہے۔ بہرکیف ہمیں پروفیسر عبدالعزیز ساحر صاحب کے اس حفظ ماتقدم کے بیان سے اتفاق ہے؛ شکر ہے کہ ہم اس عہد میں ہیں۔ ہم بنے بنائے مسلمان ہیں، ورنہ کیا پتا تھا کہ ہم اب جو وقت کی پو پھٹنے سے آنکھین موندے رکھنے کے عادی ہیں، اس “سنہری زمانے” میں ایمان کی سرحد کے جانے کس طرف کھڑے ہوتے؟ شاہد اشرف صاحب اپنے بارے بہتر جانتے ہونگے۔ خدا ان کے قیاس اور جرات خواہش کو مقبول کرے۔ ان کے بھرم کی لاج رکھے۔ بہرحال ہم ان کے حوصلے کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ البتہ پروفیسر ساحر صاحب کی بات کے اس پہلو سے ہمیں اتفاق نہیں کہ آج کے عہد میں ہمیں سچ تک زیادہ بہتر رسائی میسر ہے۔ سچ کے رستے میں بہت سی کھائیاں ہیں؛ کچھ تو ہماری موضوعیت کی قیدیں ہیں، کچھ ہمارے معروضات کے تجار کی جانب سے کھائیاں نقشہ در نقشہ بنائی بھی گئی ہیں! اب بھی ہم کئی رنگ کے سچ کی دکانوں کی منڈی میں لرزاں ہیں!