مجوزہ پانچ قومی زبانیں : کیا مابعد قوم کے تصور کی طرف پیش قدمی ہے؟
از، ڈاکٹر ناصر عباس نیرّ
پاکستان میں زبانوں کا مسئلہ سیاسی اور نظریاتی بنا دیا گیاہے۔ حالاں کہ انیسویں صدی میں قومی ریاست کے تصور کے بعد سے یہ مسئلہ وجودیاتی اور بڑی حد تک عملی مسئلہ ہے۔جب ایک وجودیاتی مسئلے کو سیاسی مسئلہ بنا دیا جاتا ہے تو در اصل اسے ایک ایسے منطقے میں کھینچ کے لایا جاتا ہے جہاں علم پر جذبہ حاوی ہوتا ہے۔ مسئلے کی اس کے اساسی سیاق میں تفہیم کی بجائے، اس سے متعلق ایک مقبول عام رائے قائم کر لی جاتی ہے، اور اس کے حق یا مخالفت میں عوامی جذبات ابھارے جانے لگتے ہیں۔ عوامی جذبات کے ساتھ پہلی مشکل یہ ہے کہ ایک مرتبہ کسی مسئلے کے سلسلے میں پیدا ہوجائیں تو انھیں ختم کرنا محال ہوجاتا ہے، اور دوسری مشکل یہ ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر ان کے مشتعل ہونے کا خدشہ رہتا ہے، اور کون ہوگا جو عوامی جذبات کے قہر سے ڈرے گا نہیں ۔ستم بالائے ستم یہ کہ اس مسئلے کی تفہیم بھی انھی جذبات کی بنیاد پر کی جانے لگتی ہے۔ یوں اس مسئلے کے حل ہونے کے امکانا ت تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں، البتہ اس کے سبب خوں ریز جھگڑوں کا خاصا امکان رہتا ہے۔ پاکستان میں قومی زبان کے مسئلے کے سلسلے میں یہی ہوا ہے۔
یہ بات سیاست کا معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ قومی ریاست کے وجود کا تصور (جو ہم نے نو آبادیاتی عہد میں یورپ سے لیا)مشترک زبان کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ ‘ایک زبان، ایک قوم ‘ کا پیراڈائم ، مذہبی اور سیکولر دونوں طرح کی قومی ریاستوں کی وجودیات کا حصہ رہا ہے۔یہ کہنا غلط نہیں کہ قوم کا تصور پیدا، قائم اور برقرار رہتا ہے ،زبان کی وجہ سے، زبان کے اندر اور زبان کے طفیل۔قوم کی اساس ،مذہب کو مانا جائے ، نسل کو تسلیم کیا جائے یا جغرافیے کو ،یا سیکولرازم کو، اسے باور کرانے ، اس کے لیے مشترک اور فخریہ جذبات پیدا کرنے ضروری ہوتے ہیں،؛ ان جذبات کے بغیر ایک قوم کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ،اور یہ جذبات پیدا کرنے اور انھیں لوگوں تک پہنچانے کے لیے ایک زبان ناگزیر ہوتی ہے۔
ہر قوم میں ایک چیز ہوتی ہے جسے آج کی اصطلاح میں عوامی منطقہ یعنی پبلک سپیس کہا جاتا ہے ،اور یہ محیط ہوتا ہے تعلیمی اداروں، اخبارات ، ٹی وی، سوشل میڈیا، سیاست، پارلیمنٹ، سیمینار ،کانفرنسوں وغیرہ کو۔اس عوامی منطقے میں جو زبان استعمال ہوتی ہے، اسی سے مشترک قوم ہونے کا احساس رونما ہوتا ہے۔ اس تناظر میں اگر پاکستان کے عوامی منطقے پر نظر ڈالیں تو دل چسپ صورت حال سامنے آتی ہے ۔ یہاں کے عوامی منطقے میں ایک سے زیادہ زبانیں استعمال ہوتی ہیں۔ اگر یہ سمجھنا ہو کہ پاکستان میں طاقت کی کش مکش کا مفہوم اور نہج کیا ہے، تویہاں کے عوامی منطقے میں استعمال ہونے والی زبانوں پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ جہاں اشرافیہ اپنی طاقت اور موجودگی باور کرانا چاہتی ہے ، وہاں امریکی یا برٹش لہجے میں انگریزی استعمال ہوگی ، اس سے فرق نہیں پڑتا کہ سامعین کون ہیں؛ مقامی ہیں،غیر ملکی ہیں ،عالم فاضل ہیں یا سرے سے ان پڑھ ۔
جہاں خطاب کرنے والا عوام تک اپنے خیالات پہنچانا چاہتا ہے،اور عوام کی طاقت میں کسی نہ کسی سطح پر یقین رکھتا ہے، وہاں اردو سے کام لیا جائے گا، اور جہاں مقامی نیشنلزم کا اظہا مقصودہوگا، وہاں پنجابی ،سندھی ،بلوچی ،پشتو، سرائیکی اور دوسری زبانیں استعمال ہوں گی ۔اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں طاقت کی کشمکش انھی تین طبقات کے درمیان ہے، اور اہم تر بات یہ ہے کہ ان کی طاقت، ان کی منتخب کردہ زبان کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔گویا پاکستان کے عوامی منطقے میں استعمال ہونے والی زبانیں ،طاقت کی سیاسی وسماجی حرکیات کی بری طرح اسیر ہیں۔ کون کس زبان کو اختیار کرتا ہے، اس کے فیصلے کا محرک خود زبان کم اور اس کا مذکورہ سیاسی و سماجی حرکیات میں مقام و مرتبہ زیادہ ہے۔ خالص لسانیاتی زاویے سے دنیا کی ہر زبان یکساں ہے، اس لیے کہ وہ اپنے بولنے والوں کی جملہ ابلاغی ضرورتوں کو پوراکرتی ہے ،یا پورا کرنے کی خلقی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن ہمارے یہاں ایک زبان کو جب بلند سماجی مرتبے کی علامت قرار دیا جاتا ہے تو اس میں تمام مثالی خوبیاں بھی فرض کر لی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں زبانوں کے سلسلے میں علم سے زیادہ جذبات کو اہمیت دی جاتی ہے۔
بہ ہر کیف پاکستان میں لسانی کشمکش ایک حقیقت ہے،اس لیے ہم اس تلخ سچائی سے آنکھیں بند نہیں کرسکتے کہ یہاں قومی وحدت کا احساس کم سے کم ہے ،اور منقسم قومیتی اور طبقاتی احساس زیادہ سے زیادہ ہے۔تاہم اس تلخ سچائی کے باقاعدہ اسباب موجود ہیں۔
‘ایک زبان، ایک قوم ‘ کا پیراڈائم ان ملکوں میں گھمبیر صورت اختیار کر نے کا اچھا خاصا امکان رکھتا ہے جو کثیر اللسانی ہوتے ہیں،اور وہاں مزید پیچیدگیوں کا شکار ہونے کے اندیشے کی زد پر ہوتاہے جو نو آبادیات کی راہ سے قومی ریاست کے تصور سے آشنا ہوئے ہیں۔ پاکستان میں یہ دونوں صورتیں ہیں۔ پاکستان میں چوہتر (پہلے سنا کہ بہتر ہیں ،اب کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ چوہتر اور بعض کا خیال ہے کہ چھہتر ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سب باتیں ہمیں ‘کافر’ یورپیوں کے ذریعے معلوم ہوتی ہیں، جو یہاں کی زبانوں پر تحقیق کرنے آتے ہیں) کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں،اور پاکستان نو آبادیات کے خلاف جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا۔
نو آبادیاتی عہد میں زبانوں کی پالیسی اپنی نوعیت میں استعماری تھی۔ انگریزی زبان کو برصغیر کی تمام زبانوں اور ان کے بولنے والوں ،اور ان کے ادب پر طاقت حاصل تھی؛ حقیقی سیاسی طاقت ، سرکاری زبان ہونے کی طاقت ، سماج میں عزت ومنصب کی طاقت ۔نیز انگریزی بہ یک وقت جدیدیت، ترقی ، نئی اشرافیہ جماعت (جوانگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان کالے انگریزوں پر مشتمل تھی) اور استعماری طاقت کی نمائندہ اور مظہر تھی۔باقی سب زبانوں کا مرتبہ وہی تھا جو انگریزوں کے مقابلے میں کالے ہندوستانیوں کا تھا۔ تاہم ان زبانوں نے نو آبادیاتی عہد میں ان تحریکوں کے نتیجے میں اچھی خاصی اہمیت حاصل کرلی تھی جو برطانوی استعمار کے خلاف شروع ہوئیں۔ ہمیں اس تاریخی حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ انیسویں صدی میں قوم کا یورپی تصور، اس اشرافیہ نے اوّل اوّل قبول کیا تھا ،جو مغل اشرافیہ کی جگہ لے رہی تھی،اور اسی اشرافیہ نے اردو زبان میں انگریزی زبان کی حمایت میں نہایت غلو کے ساتھ لکھا۔
ایک پیراڈاکس یہ بھی ہے کہ برطانوی استعمار کے خلاف تحریک بھی اسی اشرافیہ نے چلائی ، بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں ،خصوصاً تقسیم بنگال کے بعد، عوام کو سیاسی جدوجہد میں شامل کرنے کے لیے اردو سمیت دیگر ہندوستانی زبانوں کو ذریعہ بنایا گیا۔ اردو نو آبادیاتی عہد میں بلاشبہ مشترک قومی احساس پیدا کرنے میں کامیاب رہی، لیکن قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی، یعنی بنگالی کے قومی زبان کے مطالبے کے بعد’ایک زبان، ایک قوم ‘کا پیراڈائم معرض سوال میں آنے لگا ۔ اگرچہ چھپن اور باسٹھ کے آئین میں بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا ،مگر ایک ‘قوم ،ایک زبان ‘ کا پیراڈائم گزشتہ ستر سالوں سے تنازعات کی زد میں ہے۔ ہمیں اپنی غلطیوں کے اعتراف کی عادت ڈالنی چاہیے۔ ہمیں اس ضمن میں غیروں کی سازشوں کا ہاتھ تلاش کرنے سے زیادہ یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ پاکستان میں کثیر اللسانیت کے مسئلے کے حل کے لیے ایک باقاعدہ کل وقتی لسانیاتی وزارت کی ضرورت تھی جسے قائم کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا تک نہیں گیا، اسی طرح انگریز دور کی لسانی استعماری پالیسی کو تبدیل کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ باقی شعبوں کی مانند نوآبادیاتی لسانی وراثت کو بھی ڈی کولونائز کرنا ضروری تھا۔ جب تک یہ دونوں کام نہیں ہوتے ،تب تک زبانوں کا مسئل حل نہیں ہوگا۔
‘ایک زبان، ایک قوم ‘ کے پیراڈائم سے انحراف کی تازہ مثال گزشتہ ہفتے سامنے آئی ، جب ایوان بالا کی قانون اور انصاف کی مجلس قائمہ نے اردو کے ساتھ، پنجابی، سندھی ،بلوچی اور پشتو کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کا بل منظور کیا ۔(2014 میں یہی بل اسی مجلس قائمہ نے مسترد کردیا تھا) جیسا کہ ابتدا میں ذکر ہوا،قومی زبان کا مسئلہ ہمارے یہاں ابتدا ہی سے سیاسی اور نظریاتی رہا ہے۔ اس بل میں بھی اچھی خاصی سیاست کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ قوم پرست سیاست دانوں اور دانش وروں کو خوش کرنے کی سیاست! ویسے یہ حقیقی مفہوم میں ایک بڑی خبر (اسکوپ) تھی، مگر اسے ہمارے میڈیا، اور دانشوروں نے لائق توجہ نہیں سمجھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اہم قومی مسئلے پر سنسنی خیز سیاسی خبرکو اہمیت دینے کے عادی ہوگئے ہیں۔
کیا ہمارے ایوان بالا کی مذکورہ مجلس قائمہ نے یہ ترمیمی بل منظور کرتے ہوئے اس کے مضمرات کو سامنے رکھا ہے؟ میں یہاں صرف چند بنیادی مضمرات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ اوّل اس بل سے یہ گمان گزرتا ہے کہ جیسے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا گیا ہے کہ ہم قومی ریاست کے تصور کو ترک کرکے مابعد قوم یعنی پوسٹ نیشن ریاست بن گئے ہیں؟ مابعد قوم کے تصور میں لسانی ، مذہبی، نسلی یا نظریاتی یکسانیت کو قوم کی اساس سمجھنے کا انکار موجود ہوتا ہے۔ مابعد قوم کا تصور پیدا ہی ، قوم پرستی کے اس نظریے پر سخت تنقید سے ہوا ہے،جس میں قوم کی اساس ‘ایک ‘ہو۔ مابعد قوم کے تصور میں مشترک جذبات و تخیلات اور انھیں پیدا کرنے والی ‘واحد زبان’ کی گنجائش نہیں ہے۔ اشتراک اور وحدت کی جگہ، تنوع اور کثرت ہوتے ہیں۔
ایک سے زیادہ زبانوں، ثقافتوں ، مذاہب اور نظریات کو یکساں درجہ دینا، مخصوص قومیت کے احساس کے بغیراور گلوبل شہریت کا احساس پیدا کرنا پوسٹ نیشن کا بنیادی نکتہ ہوتا ہے۔ پوسٹ نیشن کا تصور قائم کرنے میں عالمگیریت کا بھی ہاتھ ہے۔ عالمگیریت افراد، اشیا، نظریات ،ثقافتوں ، زبانوں کو قومی سرحدوں میں قید رکھنے کے حق میں نہیں۔ لیکن مذکورہ بل سے جس مابعد قوم کے تصور کا شائبہ ہوتا ہے، وہ عالمگیریت کے بجائے مقامیت کے دباؤ کا نتیجہ نظر آتا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ عالمگیریت کے اثر سے پیدا ہونے والا پوسٹ نیشن کا تصور اپنے اندر خیر کے کچھ پہلو رکھتا ہے، اور کسی ایک زبان، ایک نظریے، ایک مذہب ، ایک نظام ،ایک ثقافت کے عالمی اجارے کو کم ازکم نظری سطح پر چیلنج کرتا ہے۔ لیکن مقامیت کی کوکھ سے پیدا ہونے والا پوسٹ نیشنلزم، جس نیشنلزم پر جرح کرتا ہے، بعد میں خود اسی کی جگہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔
ایک ریاست کا نیشنلزم جس طرح کسی دوسری ریاست کے نیشنلزم سے دشمنی کے جذبات پیدا کرتا ہے، اور جسے وہ حب وطن کا نام دیتا ہے، وہ دراصل کسی دوسری قوم کو ملیا میٹ کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ یہی کچھ مقامیت سے نمو کرنے والا پوسٹ نیشنلزم ہے۔ ان گزارشات کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ایک سے زیادہ زبانوں کو قومی زبانیں قرار دینا، بادی النظر میں ایک پوسٹ نیشن تصور کی قبولیت کا عمل ہے، مگر اس کا عملی نتیجہ ایک قومی زبان کے چار حریف پیدا کرنا ہے۔ واضح رہے کہ کوئی زبان بجائے خود کسی زبان کی حریف نہیں ہوتی، ریاست کی غیر مساوی پالیسیاں زبانوں کو ایک دوسرے کا حریف بناتی ہیں۔ اگر یہ پوسٹ نیشن تصور نہیں ہے تو پھر نیشن کی نئی تعریف پیش کرنا لازم ہے۔
اب تک ہم نے قوم کا تصور ‘ایک زبان، ایک قوم ‘ کےپیراڈائم کے تحت کیا ہے۔ ہمارے آئین سازوں کو جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ انھوں نے یہ پیراڈائم بدل دیا ہے ۔ہمیں یہ کہنے میں عار نہیں کہ ایک قوم کا تصور ،ایک سےزیادہ قومی زبانوں کے ساتھ کرنے کی مثالیں موجود ہیں۔ سب سے بڑی مثال سوئٹرزلینڈ کی ہے، جہاں چار قومی زبانیں ہیں: جرمن، فرانسیسی، اطالوی اور رومانش۔ حالاں کہ آخری زبان کو بولنے والوں کی تعداد دو فیصد بھی نہیں۔تاہم وہ فیڈریشن نہیں ، کنفیڈریشن ہے۔ دوسرے لفظوں میں لسانی اور ثقافتی تکثیریت کے ہوتے ہوئے بھی ،ایک قوم کا تصور کیا جاسکتا ہے،اور ہم نے قوم کے لیے جن مشترک جذبات و تخیلات کا ذکر کیا ہے، وہ زبانوں اور ثقافتوں کی کثرت کے احترام اور ان کی ترقی کے یکساں مواقع پیدا کرنے کے ضمن میں بھی ہوسکتے ہیں۔
بلاشبہ ان زبانوں کو قومی زبانیں قرار دے کر انھیں عزت و مقام دینے کی کوشش کی گئی ہے، مگر ایک بنیادی بات فراموش کر دی گئی ہے کہ ان زبانوں کو محض آئین میں قومی زبان جیسا عزت کا مقام دینے سے کہیں زیادہ ضروری ،ان کی ترقی کے لیے عملی اقدامات کرنا ہے۔ تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ انھیں قومی زبان کا مرتبہ دینے کے بعد بھی،ان کی حالت وہی رہے گی جو اردو کی بہ طور قومی زبان کی اب تک چلی آتی ہے۔قومی زبان کے نام پر سیاست ہوتی رہے گی۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ان چار زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کے بعد باقی پاکستانی زبانوں کو ایک نئی جدوجہد پر مجبور کیا گیا ہے کہ وہ بھی قومی زبان شمار کی جائیں۔ سرائیکی، براہوی، بلتی ،شینا، کھوار، ہندکو اور دوسری زبانیں بھی قومی زبانیں بننے کی جدوجہد کریں گی، اور ان کی جدوجہد کو بلا جواز سمجھنے کا کوئی جواز نہ ہوگا۔ پہلے اردو کے مقابل پنجابی، سندھی، بلوچی ،پشتو کو لایا گیا، اب ان سب “قومی” زبانوں کے مقابل باقی پاکستانی زبانوں کو لایا جائے گا۔ زبانیں ایک دوسرے کے مقابل آکر ترقی نہیں کرتیں، صرف سیاست کا آلہ کار بنتی ہیں۔
تیسر ا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اس ساری صورت حال کا فائدہ پہلے کی طرح انگریزی اٹھائے گی۔ اب تک کی تاریخ سے ظاہر ہے کہ اردو اور پاکستانی زبانوں کی لڑائی میں صرف اور صرف انگریزی ہی کا مرتبہ مزید مستحکم ہوتا ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ گزشتہ ستر برسوں میں انگریزی واحد زبان ہے، جس کی اقتداری حیثیت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے یہاں بھی اور پوری دنیا میں بھی۔ یہ الگ بات ہے کہ دونوں جگہ اسباب الگ الگ ہیں۔ دنیا میں عالمگیریت کے سبب انگریزی واحد عالمی لنگوافرانکا بنی ہے، یہاں تک کہ یورپی یونین میں دی اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق 98فیصد انگریزی مشترک زبان کے طور پر استعما ل ہوتی ہے،اور اسے بریگزٹ کے بعد بھی یورپ سے بے دخلی کا کوئی خطرہ نہیں، جس کی طرف اشارہ یورپی یونین کے صدر نے کیاہے۔
لیکن واضح رہے کہ یورپی یونین سمیت پوری دنیا میں انگریزی کو ثانوی زبان کے طور پر پڑھا ،اور بولا جاتا ہے، مگر ہمارے یہاں اسے اقتدار کی زبان کے طور پر، اور اسے پہلی زبان بنانے کی کوشش کے طور پر۔ ایک زبان کو ضرورتاً سیکھنا اور بات ہے، مگر اسے اپنے ثقافتی احساس محرومی کے مداوے کے طور پر سیکھنا اور اس کے ذریعے حقیر متکبرانہ جذبات کا اظہار کرنا دوسری بات ہے۔ ہمارے یہاں یہی دوسر ی بات ہی درست ہے۔ اس کے باوجودپاکستانی زبانوں کی لڑائی میں انگریزی کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا، کیوں کہ وہ قومی زبان بننے کی دوڑ ہی سے باہر ہے!