’’پی ایس ایل 3 ‘‘ کتنی کامیاب کتنی ناکام
از، حسین جاوید افروز
25 مارچ کا دن پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ میں ہمیشہ سے ایک یادگار حیثیت کا حامل رہا ہے۔ آج سے 26 برس قبل میلبورن میں عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت کے نتیجے میں پاکستان نے انگلینڈ کی ٹیم کو شکست دے کر پہلی بار ورلڈ کپ اپنے نام کیا۔ اور اب 26 برس بعد 25 مارچ کو ہی نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پاکستان سپر لیگ کے تیسرے ایڈیشن کے فائنل میں اسلام آباد یونائیٹڈنے پشاور زلمی کو شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔ 22 فروری سے شروع ہونے والا تیسرا ایڈیشن شائقین میں خاصا مقبول ہوا جس سے اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پی ایس ایل بلاشبہ ایک برانڈ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
سب سے اہم بات یہ کہ اس سے گرین شرٹس کے لیے نئے ٹیلنٹ کی آمد بھی گلشن جانفزا ثابت ہوئی ہے۔ لیکن کہیں کہیں کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جو اس امر کی دلالت کرتے ہیں کہ پی ایس ایل کا تنقیدی جائزہ بھی لیا جائے تاکہ مستقبل میں یہ زیادہ بہتر لیگ کی شکل میں ڈھل جائے۔ اس بار کی سب سے خاص بات ایونٹ میں چھٹی ٹیم ملتان سلطان کی شمولیت ہے۔ جس نے پہلی ہی بار سب کو اپنے کھیل سے متاثر کیا۔
شعیب ملک کی قیادت میں اس ٹیم نے ایک یونٹ کی طرح ایونٹ میں فائٹ کی۔ مگر ابتدائی فتوحات کے بعد اچانک سے ہی دھڑام سے گر پڑی اور چار میچز جیتنے کے بعد پانچ میچ ہارکر مقابلے سے خارج ہوگئی۔ اس کے بعد بات ہوجائے ایونٹ کی اس ٹیم کی جس نے سال پہلے سے ہی دھوم دھام سے ٹائٹل جیتنے کی کوششیں شروع کیں۔ جی ہاں آپ درست سمجھے میں لاہور قلندر کی بات کر رہا ہوں جس کے کھلاڑیوں سے زیادہ مقبولیت ٹیم کے مالک رانا فواد نے حاصل کی جو کبھی خوشی اور کبھی غم کی روشنی میں شائقین کو بھرپور تفریح فراہم کرتے رہے۔ اگرچہ انہوں نے اپنی ٹیم کا تھیم سانگ بھی خود گایا اور کشمیر کے دور دراز علاقوں میں بھی ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام شروع کیا۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ قلندرز کو آسٹریلیا کے دورے پر بھی بھیجا۔ لیکن قسمت کی خرابی کہ گزشتہ دو سیزن کی طرح اس بار بھی قلندر ایونٹ سے باہر ہونے میں بازی لے گئی اور دس میں سے محض تین میچز ہی جیت سکی۔
کپتان برینڈن میکلم بطور کپتان اور بلے باز مکمل طور پر پھیکے پن کا شکار رہے۔ جبکہ سرفراز کی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز جو دوبار فائنل تک پہنچی اس بار پہلے ہی ہمت ہار گئی۔ جہاں ہمیشہ کی مانند کوچ ویوین رچرڈکا جوشیلا پن اپنے عروج پر رہا وہاں ٹیم کے غیر ملکی کھلاڑیوں کیون پیٹرسن اور شین واٹسن نے پاکستان آنے سے معذوری کا اظہار کیا جس سے ٹیم کی مجموعی پرفارمنس پر خاصا منفی اثر پڑا۔ اور سرفراز الیون پانچ میچ میں فتح اور پانچ میں شکست کا بوجھ اٹھائے ایونٹ سے باہر ہوگئی۔
کراچی کنگز جو کہ آفریدی کی شمولیت کے ساتھ مضبوط گردانی جا رہی تھی۔ فٹنس مسائل کی بدولت پلے آف مرحلے سے چلتی بنی۔ یہاں تک کہ کپتان عماد وسیم بھی ان فٹ ہونے کے سبب ٹیم کی بھرپور خدمت نہیں کرسکے۔ اور یہ ٹیم بھی محض پانچ فتوحات کے ساتھ کراچی کے شائقین کے دل توڑتے ہوئے رخصت ہوگئی۔ اب بات ہوجائے ہائی وولٹیج فائنل مقابلے کی جس میں تمام تر جوش کے باوجود پشاور زلمی کامران اکمل، سیمی کے جلدی آؤٹ ہونے کی بدولت محض 148 رنز بناسکی۔ جس کو اسلام آباد یونائیٹڈ نے رونکی کی طوفانی 52 رنز کی اننگ کی بدولت حاصل کیا۔
اگرچہ یہ یک طرفہ دکھائی دینے والا میچ اختتامی لمحات میں کافی سنسنی خیز ہوچکا تھا مگر کامران اکمل نے اہم موقع پر کیچ ڈراپ کیا اور رہی سہی کسر حسن علی نے پوری کی جو مسلسل تین گیندوں پر تین چھکے کھا کر زلمی کے جہاز کو ڈبونے کا سبب بن گئے۔ یوں دس میں سے سات میچ میں فتح کا مزہ چکھنے والی اسلام آباد یونائیٹڈ نے دوسری بار ٹرافی اپنے نام کی۔ یہاں کپتان مصباح الحق کی عدم موجودگی میں قیادت کے فرائض انجام دینے والے جے پی ڈومنی کی بھی تعریف کرنا ہوگی جنہوں نے جارحانہ قیادت کرتے ہوئے ٹیم کے وسائل کا بخوبی استعمال کیا اور سارا میلہ لوٹ لیا۔ اگر ایونٹ کے کامیاب بلے بازوں کی بات کی جائے تو کامران اکمل، رونکی، بابر اعظم نے گویا چوکوں چھکوں کی برسات کردی۔
جہاں کامران نے ایونٹ کی واحد سنچری سکور کی وہاں رونکی کی چار طوفانی ہاف سنچریوں نے اسلام آباد یونائیٹڈ کو چیمپئن بنانے میں اہم کردار نبھایا۔ جبکہ سب سے زیادہ 22 چھکے کامران اکمل نے لگائے۔ باؤلنگ کے شعبے کی بات کریں تو اسلام آباد یونائیٹڈ کے فہیم اشرف 18وکٹیں لے کر سرفہرست رہے۔ جبکہ پشاور کے وہاب ریاض اور کراچی کے عثمان خان15,15 وکٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔ جبکہ ملتان کے عمر گل نے 24/6 اور لاہور کے شاہین آفریدی نے 4/5 کی شاندار کارکردگی دکھائی۔
یہاں اس سیزن میں ہم عمران طاہر اور جنید خان کی ہیٹ ٹرکس کو بھی فراموش نہیں کرسکتے جنہوں نے کھیل کو نئی توانائی بخشی۔ بطور وکٹ کیپر ملتان سلطان کے کمارا سنگا کارا ۹ کیچز اور ایک اسٹمپ کے ساتھ اول نمبر پر رہے۔ یہ امر خاصا خوش آئند رہا کہ دس سال کے طویل انتظار کے بعد نیشنل اسٹیدیم کراچی آباد ہوا اور اہل کراچی نے بھرپور انداز سے کھیل کا الطف اٹھایا۔ اس سلسلے میں ایک اور خوشخبری نجم سیٹھی صاحب نے یہ بھی دے دی کہ اپریل کے آغاز میں ویسٹ انڈیز کے ساتھ تین ٹی ٹونٹی میچز کی سیریز بھی کراچی میں ہی کھیلی جائیگی۔ بلاشبہ یہ پاکستان میں کرکٹ کی منجمند سرگرمیوں کو رواں رکھنے کے حوالے سے نہایت ہی خوشگوار بات ہے۔
بہر حال پی ایس ایل تھری کا کا میاب انعقاد اور نئے ٹیلنٹ کو پولش کرنے کے حوالے سے نجم سیٹھی داد تحسین کے مستحق ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فوج، رینجرز اور پولیس کے جوانوں کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہیے جن کی دن رات کی کڑی محنت رنگ لائی۔ پشاور زلمی کے قائد ڈیرن سیمی نے بھی فائنل سے قبل پخیر راغلے، کیسے ہوکراچی؟ اور پاکستان زندہ باد کہہ کر شائقین کے دل جیت لیے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ اگلے سیزن میں کشمیر، گلگت، فاٹااور فیصل آباد کی ٹیمیں بھی پاکستان سپر لیگ کا حصہ بن سکتی ہیں جو کہ یقیناٰ ایک متاثر کن رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ لیکن یہاں کچھ سوالات بھی ابھرتے ہیں کہ پاکستان سپر لیگ کے ٹکٹ بہت ہی مہنگے رکھے گئے ہیں اور ان کے حصول کے لیے عوام کو خاصی خواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس پہلو پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کرکٹ کے ارباب اختیار کو جائزہ لینا ہوگا کہ حالیہ سیزن سے ہمیں کتنا معیاری ٹیلنٹ ملا ہے؟ وسیم اکرم کے مطابق باؤلنگ کے حوالے سے عمید اور شاہین شنواری اچھا اضافہ ہیں لیکن اس بار ہمیں با صلاحیت بلے باز نہیں مل سکے ہیں۔ اگرچہ آصف علی اور حسین طلعت نے اپنی بیٹنگ سے متاثر تو کیا مگر ہمیں فرسٹ کلاس کرکٹ کے ڈھانچے کو عملی طور پر بہتر بنانا ہوگا۔ ایک اور تلخ پہلو یہ رہا کہ ڈرافٹنگ کے وقت تو سب ہی غیر ملکی کھلاڑی پاکستان جانے پر پرعزم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن موقع پر جل دے کربھاگ جاتے ہیں جس کی تازہ مثال شین واٹسن اور کیون پیٹرسن ہیں۔
پی ایس ایل کی انتظامیہ کو انہی کھلاڑیوں کو لیگ میں شامل کرنا چاہیے جو پاکستان آمد کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہوں۔ اگر ڈالروں کی چمک دمک دیکھ کر یہ کھلاڑی امارات کے صحرا میں اتر سکتے ہیں تو پاکستان یاترا میں کیا قباحت ہے ؟سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کی مکمل بحالی کا خواب کب تک شرمندہ تعبیر ہوسکے گا؟ کیونکہ ہم نے دیکھا ماضی میں بھی زمبابوے کی ٹیم کی آمد پر بہت پٹاخے پھوڑے گئے کہ کرکٹ وطن عزیز میں بحال ہوگئی ہے لیکن عملا ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کرکٹ کی بحالی تب تک ممکن نہیں ہوسکے گی جب تک آسٹریلیا یا انگلینڈ کی ٹیمیں پاکستان کا دورہ نہیں کرتی۔ بحیثیت مجموعی اگر ان خطوط پر کام بروقت کر لیا جائے تو وہ دن دور نہیں جب شائقین ماضی کی طرح پشاور تا کراچی انٹر نیشنل کرکٹ کے مزے اٹھاتے نظر آئیں گے۔