گھڑیاں، وقت اور ذہنی وقت
یاسر چٹھہ
کل ملا کر چار گھڑیاں پاس ہیں: دو کلائی گھڑیاں رکھتا ہوں، ایک گاڑی کے ریڈیو (ہاں اسے سی ڈی پلیئر بھی کہہ سکتے ہیں، اس) سی ڈی پلیئر کی ڈسپلے اسکرین پر چلتی ہے۔
ایک موبائل فون پر وقت بتاتی ہے۔ اس کے علاوہ دن کے وقت سورج اور رات کے وقت اندھیرا، چاند اور تارے وقت کا احساس دلانے میں مدد کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ موبائل فون پر موجود فورتھ جینریشن انٹرنیٹ سے گوگل پر بھی وقت دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک کلائی گھڑی چند مہینے پہلے بیٹری کمزور پڑ جانے پر رک گئی تھی؛ دوسری گھڑی سے کام چلانا شروع کر دیا۔ وہ بھی چند دن پہلے صبح چاکری پر جانے کے لیے تیار ہوتے وقت کے دوران کلائی پر لگاتے سمے ہاتھ کی ثریا سے زمین پر آن گری۔ دو چار دن تک دھکا سٹارٹ چلتی رہی؛ پھر اس کی سانسیں بھی اپنی پہلے والی دوست کی طرح تھم گئی ہیں۔
آج ایک بہت ہی عمدہ اجتماع سے واپس آتے وقت دیکھنے کی ضروت محسوس ہوئی۔ گاڑی چلاتے وقت موبائل فون پر سے وقت دیکھنا مناسب اور محفوظ نا جان کر گاڑی کے ریڈیو اور سی ڈی پلیئر کی ڈسپلے اسکرین سے وقت دیکھنے کے لیے نظر ڈالی۔ اس گھڑی سے پتا چلا کہ ابھی تو محض ساڑھے نو ہی بجے تھے۔
گاڑی پورچ میں کھڑی کر کے اندر گھر آیا تو یہاں لگا ٹی وی اور وال کلاک تو چند سیکنڈز اور منٹس کے فرق سے گیارہ بتا رہے تھے۔ “ہیں…؟ گیارہ بج چکے ہیں!”، ذہنی تلاطم میں منھ سے کوئی لفظ ادا کیے بغیر اپنے آپ سے بات کی۔
اس وقت سے کچھ سوال سوجھے کہ وقت کیا ہوتا؟
ہمہ دمی کیا ہوتی ہے؟
جدت کیا ہوتی ہے؟
مابعد جدت کیا ہوتی ہے؟
یا وقت محض ایک دھوکا ہے؟
یا وقت بہت سارے اور ایک سچوں میں سے اپنی حیثیت میں ہر لحظے کا اپنا ایک سچ ہوتا ہے؟
وقت دیکھنے والا کس لمحے کا ہمہ دم بمعنی in sync with ہوتا ہے اور کس لمحے کا ہمہ دمی سے باہر کے منطقہ میں؟
کیا ہمیں بطور معاشرہ اور قوم دیکھنا نہیں بنتا کہ ہم کس لمحے میں موجود ہیں؟کچھ رنج بھی ہے کہ ہماری بہت ساری گھڑیاں خراب ہیں، یا ایسی ہیں جو ہمیں مختلف سچوں (?truth(s کا/ کے تاثر/تاثرات یا سراب دکھاتی ہیں۔
اس تحریر میں سے جن کا کوئی من چاہے، یا ان کا شعور چاہے تفہیم کر سکتا ہے۔ اس تحریر کے لفظوں میں قید ہونے سے اس کے معانی لکھنے والے کے وجود کے وقت سے آر پار میں، اس سے باہر میں، اس کے اندر میں دریافت کرسکتا ہے، تشکیل کر سکتا ہے، بمطابق اپنی اپنی وجودیاتی و علمیاتی مفروضہ گری۔