برطانوی لبرل سیاسی و سماجی اقدار، نوجوان نسل اور تحریک انصاف
از، پروفیسر محمد حسین چوہان
برطانیہ میں پاکستان کی ساری سیاسی جماعتیں جلسے کرتی آئی ہیں اور کرتی رہیں گی مگر تاریخ میں سب سے زیادہ کامیاب جلسے یا تو پیپلز پارٹی کے ہوئے ہیں اور اس کے بعد تحریکِ انصاف کے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ برطانوی سوشل ڈیموکریسی فکری اعتبار سے ترقی پسند اور لبرل ڈیمو کریسی سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی کے نظریات سے غداری کا یہ نتیجہ بر آمد ہوا کہ اس کی جگہ آزاد خیال جمہوریت نے لے لی۔
تحریک انصاف جدید ملکی اور بین الاقوامی رجحانات اور نظریات سے زیادہ ہم آہنگ ہے جب کہ مقامی سطح پر پیپلز پارٹی اپنے نظریات کو سماجی حقائق کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں نا کام رہی اور اس کی جگہ نئی ابھرتی ہوئی مڈل کلاس کے لیے تحریک انصاف کا عقلیت پسندانہ بیانیہ زیادہ قابل قبول ہوگیا۔
خاندانی و موروثی اور اجارہ دار روایتی سیاست سے نئی پِیڑی کے لوگ متنفر ہو گئے، اسی بِناء پر برطانیہ میں آباد پندرہ لاکھ پاکستانیوں کی اکثریت ذہنی و فکری لحاظ سے وطنِ عزیز میں تبدیلی چاہتی ہے۔ نئی روشنی کے لوگ اپنے آباء کے بر عکس خاندانی اور علاقائی سیاست سے متنفر نظر آتے ہیں۔
برطانیہ میں کشمیریوں کی اکثریت ہے، جن کا زیادہ تر تعلق میرپور آزاد کشمیر سے ہے۔ دوسری بڑی وجہ چیئرمین تحریک انصاف کے قومی کردار پر یہ سب اندھا دھند اعتبار بھی کرتے ہیں۔ لبرل سیاسی و سماجی اقدار میں پروان چڑھنے والی نوجوان نسل کو تحریکِ انصاف میں ملک کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔
تحریک انصاف کی سیاسی فکر میں جکڑ بندی اور اجارہ داری کی آمیزش موجود نہیں ہے۔ ایک موجوں کی روانی ہے۔ بے باکی اور کھرا پن موجود ہے۔ سچائی اور عمل کی صداقت پر یقین رکھتی ہے۔ سائنسی و انقلابی بیانیہ کے بر عکس اصلاحات و عقلیت پسندی کو اپنے فکری حصار میں جگہ دیتی ہے، جہاں ٹکراؤ کے بر عکس افہام و تفہیم سے مسائل حل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں، وہ سب کا احتساب چاہتی ہے۔
سیاست کے اس عملیت پسندانہ طریقہ کار کی وجہ سے گذشتہ بائیس سالوں سے یہ روایتی سیاسی اقدار سے بر سر پیکار رہے، کہیں بھی سمجھوتے کی فضا نظر نہیں آئی۔ نئی ابھرتی ہوئی تعلیم یافتہ مڈل کلاس نے اشرافیہ سے ٹکر لی اور نچلے طبقات کو حوصلہ دیا۔ مذہبی سیاسی منافقت ہاتھ ملتی رہ گئی۔ یہی وہ بیانیہ ہے جس نے پاکستان کی روایتی سیاست کی بساط الٹ دی۔
ستر سال سے قائم کرپشن کے مینار زمین بوس ہوگئے۔ مافیائی سیاست کی اجارہ داریاں رُوئی کے گالوں کی طرح فضا میں اڑنے لگیں، ادارے ملکی تاریخ میں پہلی بار سیاسی مداخلت سے آزاد ہوئے۔ قانون کی حکمرانی کا خواب شرمندۂِ تعبیر ہونے لگا۔ لبرل و سوشل ڈیموکریسی کا یہ وہ بیانیہ تھا جس نے دیار غیر میں بسنے والے پاکستانیوں کو بھی متاثر کیا۔
تین جولائی کو لندن ویلزڈن میں بیرسٹر سلطان محمود کی قیادت میں ہونے والے جلسے میں تحریک انصاف کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاتا ہے کہ جس شہر میں کسی بڑی شخصیت کے جنازے میں بھی درجن سے زائد لوگ جمع نہیں ہوتے وہاں برطانیہ کے تمام شہروں سے لوگ اس تقریب میں شرکت کے لیے آئے۔ دو سو سے زاید آدمیوں کی شرکت جس میں اکثریت پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہونے والوں کی تھی۔
یہ بھی پڑھیے: بلاول بھٹو یا فریدوں کا انتظار
یاد رہے تحریک ا نصاف میں شامل ہونے والے برطانیہ میں آباد یہ وہ گجر قبائل ہیں جنہوں نے کبھی روایتی سیاست کو قبول نہیں کیا ہمیشہ بدلتی سیاسی اقدار کا انہوں نے ساتھ دیا، ان کی باتوں اور چہروں کے آثار بتا رہے تھے کہ یہ نظریاتی لوگ ہیں۔ ملک میں معیاری تبدیلی چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے مہا بیانیہ کی ناکامی کے بعد یہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں۔
انہوں نے اس خدشہ کا بھی اظہار کیا کہ خدانخواستہ تحریک انصاف معیاری تبدیلی لانے میں ناکام ہوگئی تو اس کا انجام بھی جماعت اسلامی جیسا ہو جائے گا۔ مگر نوجوانوں کی اکثریت چئیرمین تحریک انصاف کے قومی کردار اور کرشمہ ساز شخصیت پر اندھا اعتماد بھی کرتی ہے اس امید کے ساتھ کہ وہ اپنے قوت کردار سے ملک میں اہم تبدیلی لانے میں کامیاب بھی ہوں گے۔
ایک کرپشن سے پاک سوسائٹی کا قیام عمل میں آئے گا۔ ادارے آزاد اور مضبوط ہوں گئے۔ قانون کی حکمرانی کا بول بالا ھوگا۔ معاشی تحرک سے سب کو ترقی کرنے کے مواقع ملیں گے۔ میرٹو کریسی meritocracy کے ذریعے ہر شعبۂِ حیات میں تبدیلی آئے گی جس کی مثالیں ان نوجوانوں کے سامنے مغربی سوشل ڈیمو کریسی کی صورت میں موجود ہیں، بیرسٹر سلطان محمود اور چوھدری رفیق نیئر اس جلسے کے مرکزی قائد تھے۔ جو نو جوانوں کے اصرار پر برطانیہ میں اس جلسے میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ لندن جو پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کا گڑھ سمجھا جاتا تھا تحلیل ہو کر تحریک انصاف کا حصہ بن چکا ہے۔
بیرسڑسلطان محمود چوھدری جن کی تحریک آزادیِ کشمیر میں بڑی خدمات ہیں اور اس مسئلہ کو بین الاقوامی فورم میں اٹھانے میں اہم کردار ہے نے کہا کہ ہم کشمیر کو مکمل آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ کشمیر کی تقسیم ہمیں کسی بھی شکل میں منظور نہیں ہے، کشمیر میں ابھی گورنر راج کا لگنا اس امر کی بین دلیل ہے کہ وہاں نام نہاد بھارتی جمہوریت ناکام ہو چکی ہے۔ مسئلہ کشمیر بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔
آزادی انسان کا فطری اور پیدائشی حق ہے اور یہ آزادی وجود اور شعور کی آزادی ہے ہم کسی مشروط آزادی کو بھی غلامی کی ایک قسم سمجھتے ہیں۔ ہم کشمیریوں کی کُلی اور حقیقی آزادی کے لیے تا دمِ مرگ لڑیں گے جو ان کا فطری حق ہے۔ اس سلسلے میں آٹھ جولائی کو لندن میں بھارتی سفارت خانہ کے باہر حُریت پسند کشمیریوں کا احتجاج بھی ہو گا اور یہ آزادی کی تحریک، تحریک انصاف کے پرچم تلے لڑی جائے گی۔
نوجوان مقررین نے آزاد کشمیر کے موجودہ کرپٹ سیاسی ڈھانچہ میں تبدیلی اور اصلاحات لانے پر زور دیا، جہاں تمام ادارے سیاسی مداخلت برادری ازم، رشوت ستانی اور ہر طرح کی کرپشن کی آماج گاہ بنے ہوئے ہیں، جہاں سیاست کا تانا بانا اداروں کی آزادی و خود مختاری کو تباہ کر کے تیار ہوتا ہے، میرٹ و اہلیت کو نظر انداز کر کے کے برادری ازم، علاقائیت اور ذاتی مفادات کی بنیاد پر سرکاری امور چلائے جاتے ہیں۔
تعلیمی نظام سیاسی مداخلت کی وجہ سے سخت متاثر ہو رہا ہے۔ اساتذہ مقامی متعصب اور جاہل سیاست دانوں کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔ کسی بھی ادارے کو داخلی خود مختاری حاصل نہیں ہے، جس کی بِناء پر شہریوں کو معیاری خدمات کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔ کشمیر کونسل کے ساڑے چار ارب روپے سے خریدا جانے والا عوامی مینڈیٹ مسلم لیگ ن کی کرپٹ فکر کا حقیقی نمائندہ ہے۔
یوتھیوں کا کہنا تھا تحریک انصاف اقتدار میں آکر آزاد کشمیر کو ایک حقیقی فلاحی ریاست اوراصلاحی سیاست سے ہمکنار کرے گی اور کرپشن سے پاک معاشرے کا قیام عمل میں آئے گا۔ سیاسی نظام کو ہر تعصب اور ازم سے پاک کریں گے۔ عملیت پسند سیاست کی داغ بیل ڈالی جائے گی۔ عقلیت پسند اور سائنٹفک مینجمنٹ کے ذریعے اداروں کو چلایا جائے گا، جس میں تمام شہری قانون اور کار کردگی کی بنا پر خدمات فراہم کریں گے اور اسے مستفید ہوں گے۔
کشمیریوں کا لندن میں ملکی اصلاح و احوال کے حوالے سے یہ جلسہ اصلاحی سیاست کے حوالے سے تحریک انصاف کی عمارت میں ایک کونے کے پتھر کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی اہمیت و افادیت آئندہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.