پی ٹی آئی حکومت ، کچھ تنقید، کچھ تجاویز
از، نعیم بیگ
گزشتہ برس ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں تسلسل کے نئے ورژن پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت ایک بڑے طبقے سے ‘ویلکم’ نوٹ حاصل نہ کر سکی تھی۔ تاہم اب ہندوستان سے ٹاکرہ ہونے کے بعد اور چند دیگر وجوہات کی بنیاد پر حکومتی سطح پر اُس کی عوامی و سیاسی تائید کسی حد تک بڑھی ہے، جو ہونی بھی چاہیے، کیونکہ ملک پر جب جنگ کے بادل چھا جائیں تو بہرصورت عارضی ہم آہنگی بڑھ جاتی ہے۔ ہاں ! اس صورت میں یہ بھی ضرور ہوا ہے کہ عوامی رائے کو میڈیا کے قواعد و ضوابط ، پیمرا اور دیگر مالی اقدامات سے اور سیاسی سرگرمیوں کو نیب و عدالتی ایکٹویزم کے ذریعے کسی حد تک کم یا خاموش کر دیا گیا ۔ مقبول قیادت کو یہ پیغام ملا کہ بابو جی ! دھیرے چلنا ، پیار میں ذرا سنبھلنا ۔۔۔ بڑے دھوکے ہیں اس راہ میں ۔۔۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ضیا الحق کے ابتدائی پانچ برسوں میں معمولی جرائم و سیاسی اختلافات اور آزادی اظہار کے معمولی پھریروں، جو عام حالت میں درخور اعتناء ہی نہ سمجھے جاتے ہیں، جس طرح عوام پر کوڑوں کی بارش کی گئی، اس سے ضیا الحق حکومتی طاقت سے خوف کی فضا پورے ملک میں قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے، حتیٰ کہ بھٹو کی پھانسی پر پورا ملک سوگوار تھا، لیکن مزاحمت نہ ہوئی۔
بین ہی جب اکتوبر 1999 میں مشرف نے بحثیت چیف ایگزیکٹو ملک کا کنٹرول سنبھالا ، تو 17 اکتوبر 99 کو انھوں نے اپنے خطاب میں ملکی مفاد کے پیشِ نظر درج ذیل سات پوائنٹ ایجنڈے کو قوم کے سامنے پیش کیا۔
1۔ قوم کے موریل اور اعتماد کی از سر نو تعمیر۔
2۔ وفاق کو مضبوط کرنا، صوبوں کے درمیان کشیدگی کو دور کرنا اور قومی دھارے میں مضبوط کرنا۔
3۔ اکانومی کو بحال کرنا اور بیرونی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو قائم کرنا۔
4۔ تمام قومی اداروں کو سیاسی تسلط سے باہر نکالنا۔
5۔ حکومتی طاقت اور سرگرمیوں کو گراس روٹ سطح تک پہنچانا۔ ( بلدیاتی اداروں کو طاقت ور بنانا۔
6۔ قانون کی بالادستی کو بحال کرنا اور سپیڈی ٹرائل قائم کرنا۔
7۔ احتساب کے نفاذ میں ‘اکراس دی بورڈ’ سرگرم ہونا اور اسے تیز تر کرنا۔
بظاہر یہ سات نکات بے حد اہم ہیں، لیکن ضیا اور مشرف حکومتوں کے مابین جب میں تقابلی جائزہ لیتا ہوں تو یہ معاملہ بھی کھل کر سامنے آ جاتا ہے کہ درحقیقت اپنے حکومتی ایجنڈے ( قطع نظر وہ کچھ بھی ہو ) کے در و بست کے انتظامات کے لئے ان دونوں ادوار میں حکومتی طاقت و جبر کے ذریعہ خوف کی ایسی بھیانک فضا قائم کی گئی جس نے عوامی و سیاسی اظہار کو دبا دیا، نتیجہ یہ نکلا کہ اچھے نتائج بھی اس خوف کی نظر ہو گئے اور قومی سطح پر کوئی مثبت کام ہی نہ ہوا۔
اب جب سے پی ٹی آئی حکومت بر سر اقتدار آئی ہے ، تو مجھے گذشتہ اِن دو ادوار اور موجودہ کے طریق کار میں بے حد مماثلت نظر آتی ہے۔ آج بھی مجھے مشرف کے یہی سات نکاتی ایجنڈے کا نفاذ نظر آ رہا ہے۔ ہر بار ایک جیسا ایجنڈا لیکن نتائج منفی کیوں ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ “سٹیٹس کو” کو نہیں چھیڑا جاتا ۔ اس بار قیادت نئی اور بے لچک ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ دائیں بازو کی فکری سطح اس بات کی اجازت ہی نہ دیتی ہو کہ سوال کیا جائے یا نصاب سے ہٹ کر کوئی نئی بات کی جائے؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دائیں بازو کا طرز حکومت تسلسل صدیوں سے تبدیل ہی نہ ہوا ہو؟
کچھ بھی ہو، لیکن یہ کہا جانا ضروری ہے نظریاتی و جغرافیائی سلامتی کے بیانیوں سے بالاتر ایک شے اور بھی ‘آبجیکٹ’ میں پیش نظر رہنی چاہیے اور وہ انسان ہے، جس کے بنیادی و فطری حقوق کسی قیمت پر کمپرومائز نہیں کئے جا سکتے ہیں۔
میرا مطمع نظر یہی رہا ہے ۔ میں دنیا بھر میں کسی بھی ریاست اور اس کے حکومتی ڈھانچے کو اس وقت تک اپنی ذہنی اپج میں لجیٹیمیٹ جگہ نہیں دے پاتا ہوں جب تک وہ اپنی رعایا ، عوام یا زیر تسلط اکائیوں کو ایک مخصوص سطح پر قرار واقعی انسان نہ سمجھتے ہوں۔ اس کے لئے ان ریاستی اذہان کو اپنے اداروں کے ذریعے یہ ثابت کرنا لازم ہوتا ہے کہ وہ واقعی خلوص نیت سے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ بجائے اس کے ہر وقت رونے دھونے اور کچھ موجود نہ ہونے کا نوحہ کیا جائے۔
اس وقت ملک کی صورت حال یہ ہے کہ معاشی طور پر ہم تقریباً دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ آج ہی میڈیا آئی ایم ایف کے حوالوں سے بجلی کی قیمت کو پندرہ روپیہ مزید تک مہنگا کرنے کی خبر کو سرخیوں میں جگہ دے رہی ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ موجودہ حکومت نے چھے ماہ گزرنے کے باوجود اپنے معاشی و مالی حالات بدلنے کے لئے اندرونی طور پر کونسے انقلابی اقدامات کئے ہیں۔ ٹیکسسز کا بہت رونا رویا جاتا ہے لیکن آپ “سٹیٹس کو” سے باہر کیوں نہیں نکلتے؟ کیونکر داخلی ٹیکسسز کے نظام میں کوئی انقلابی بہتری نہ لائی جا سکی ہے؟ ٹیکس کے نظام کو کیوں نہیں مربوط، کرپشن سے پاک ، سادہ تر اور قابلِ عمل بنایا گیا ہے؟ کیوں ایسے نئے خیالات کو روبہ عمل نہیں لایا گیا ہے جس سے ملکی مالی کلیکشن سینکڑوں گنا بڑھ جائے۔ یہاں وہی مکھی پر مکھی ماری جا رہی ہے، وہی ایف بی آر کا روٹین کا تسلسل جاری ہے، وہی افسر ، وہی نظام کیا آپ سمجھتے ہیں اس سے ملکی اخراجات پورے ہو جائیں گے۔ معافی چاہتا ہوں اِن سے کچھ نہیں ہونے والا۔
کئی برس پہلے جب میں تنزانیہ (زنجبار ) جیسے غریب ملک میں رہائش پذیر تھا تو ایک چھوٹی سی دکان سے سگریٹ مانگنے پر معلوم ہوا کہ اس دوکاندار کے پاس سگریٹ بیچنے کا لائسنس نہیں ہے، وہ صرف گھریلو گروسری ہی فروخت کر سکتا ہے۔ پورے مڈل ایسٹ میں ٹھیلوں اور رھیڑیوں کا رواج نہیں ہے۔ اگر کوئی چھوٹی سے دوکان بھی کھولنا چاہتا ہے تو اسے لائسنس لینا پڑتا ہے۔ بلا لائسنس کاروبار کیا ہی نہیں جا سکتا کچھ بھی ہو۔ ہمارے ہاں کئی دھائیوں پہلے ٹانگوں ، ٹھیلوں کےبلدیہ کے حکام لائسنس دیتے تھے۔
آج یہ قانون دوبارہ کیوں زندہ نہیں کیا جا سکتا؟ اس نظام کو نافذ کیجیئے۔ تمام کمرشل دوکانوں اور دفتروں کا گلی گلی ، محلہ محلہ ڈیتا جمع کیا جائے اور بجائے گنجلک انکم ٹیکس نفاذ کے بنیادی لائسنس فیس تھیوری (فکسڈ ٹیکس) نافذ کر دیا جائے ۔ جس علاقے یہاں لاہور میں راقم رہائش پذیر ہے، وہاں دو تین کلومیڑ کے دائرے میں کوئی دس ہزار کمرشل دوکاندار تو ہوں گے جو مختلف کاروباری سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہر دوکاندار روزانہ کم از کم دو تین ہزار سے پانچ ہزار تک کی سیل کرتا ہے۔ یہ سمجھئے کہ ماہانہ سیل اگر ایک لاکھ سے اوپر کی ہو تو تب بھی وہ بیس پچیس ہزار ماہانہ منافع کماتا ہے ۔ کیا وہ پانچ سو یا ایک ہزار روپیہ فکس ماہانہ ٹیکس نہیں دے سکتا۔ ان سب چھوٹے دوکانداروں کو رجسٹر کیا جائے، اور رجسٹریشن کی مناسب فیس رکھ دی جائے۔ اورسال بہ سال تجدید فیس بھی لاگو کی جائے۔ تاہم کاروبار بند کرنے کے لئے سہل قانون بنایا جائے تاکہ بعد ازاں حکومتی اہلکار اسے تنگ نہ کریں۔ ایک بار پورے ملک میں رجسٹریشن ہو جانے کے بعد کسی کو بلا لاسنس کسی کاروبار کی اجازت نہ دی جائے۔ اس طرح ایک ڈیتا جمع ہو جائے گا اور حکومت کو خاطر خواہ اتنی رقم خزانے میں مل جائے گی کہ کسی آئی ایم ایف کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔
دوسری عرض کی کوئی دوکاندار کیش میمو جاری نہیں کرتا ۔ اگر اصرار کیا جائے تو لیٹر ہیڈ پر “پانچ ہزار وصول پائے” کی رسید جا کر دیتا ہے۔ اس دو نمبری کو حکومت الائشوں سے پاک اداروں اور اہلکاروں کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔ ٹھیلوں کے لائسنس کے نظام کو بحال کیا جائے۔۔۔ ملک میں ہر قسم کی اشیاء کی خرید و فروخت کے دوکانداروں، دفتروں ، شو رومز ، سروسز مہیا کرنے والے اداروں پر پہلی فیس تو لائسنس کی ہو تب ہر سال رینیول کے لئے فیس لی جائے۔ دوسری طرف براہ راست انکم ٹیکس کی شرح کو آسان اور کم کر دیا جائے تاکہ کاروباری لوگ سہولت سے ٹیکس دے سکیں۔ ایف بی آر میں سرکاری اہل کاروں میں افسر زیادہ ہیں ورکرز کم ہیں۔ سترہ اٹھارہ گریڈ تک کے افسروں کو ورکر کے طور پر فیلڈ میں نکالا جائے تا کہ وہ گلی گلی خود ڈیٹا جمع کرنے کےعمل کو موقع پر مانیٹر کریں۔ موقع پر حاضر ہو کر مانیٹرنگ کا نظام ہمارے ہاں ختم ہی ہو چکا ہے ۔۔۔ ہمارے ہاں پبلک یوٹیلیٹی کے دفاتر میں سرکاری افسران ناکارہ ہو چکے ہیں۔ براہ مہربانی ان افسروں کو باہر نکالیں، انھیں ذرا دھوپ لگائیں تاکہ وہ چارج ہو سکیں۔ ٹھنڈے دفتروں میں بیٹھ کر کلرکوں کی طرح کام کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔
ان تجاویز اور ان جیسے بیسیوؤں دیگر مالی تجاویز کو بروئے کار لاتے ہوتے ہوئے پاکستان اپنے دیرینہ مالی مسائل سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔ کام کرنے کا یہ پروفیشنل انداز اپنایا جائے نا کہ سرخ فیتے اور بوسیدہ سسٹم کو فالو کیا جائے۔
ایسے انقلابی اقدامات کے لئے بہرصورت اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر قیمت پر ہر شعبہ میں بحال کیا جائے ۔ لوگوں پر اعتماد کرنا سیکھا جائے اور سرکاری اہل کاروں کو بتایا جائے کہ اعتماد کیسے کیا جاتا ہے اور بلا وجہ کی خوف و ہراس کی فضا (بھلے وہ کسی سطح پر ہی کیوں نہ ہو ختم کی جائے) ۔۔۔ ہاں ایسے مالی اقدامات کے لئے آزادی اظہار پر قدغن نہ لگائی جائے۔ لوگوں کو تنقید کی اجازت ہو ۔ تنقید سے معاملات سنورتے ہیں ، خراب نہیں ہوتے ۔ میں خود یہ مضمون موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اس حسن ظن کے ساتھ رقم کر رہا ہوں کہ کم از کم اعتماد کی فضا کو قائم کرنے میں حکومتی سوچ کو ایک نیا زاویہ دیا جائے، تاکہ قومی مفاد کو کوئی زک نہ پہنچے ورنہ تو نظام چل ہی رہا ہے۔ بھلے نتائج کیسے ہی بر آمد کیوں نہ ہوں۔