وہ انصاف والے آؤ دیکھیں نا تاؤ
از، یاسر چٹھہ
جو اگر حکومتِ عصر نے توسیع پسندی کے سنگھاسن شہر کی رعایا کو رات و رات نیا پارک دیا ہے؛ تو تختِ بزدار نے لاہور نہر پر پچھلے چند دنوں کے اندر و اندر دو لَش پَش انڈر پاس تعمیر کر کے عوام کو ایک پنتھ سے دو کاج عنایت کر دیے۔
اس سے کئی ایک امیدیں سَر چڑھ کر بولتی ہیں۔ پہلے جادو ایسے کام کیا کرتے تھے۔ (ہائے رَبّا راقم کو یہ جملہ حروفِ جَلی میں کیوں لکھنا پڑا، لگتا ہے راقم کے اندر بھی شوقین مزاج اردو ناول نگار آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے، نعوذ باللہِ من ذالک)
تو امیدوں کے جلتے چراغوں اور جادو گروں کی چمک دار چھڑیوں سے قطعِ نظر ایک بات بَہ غرضِ شفافیت عرض کرنا وظیفۂِ بندگی جانتا ہوں۔ حکومتِ عصر کسی کرنی پر آئے تو آؤ دیکھتی ہے نا تاؤ؛ بھلے وہ توسیعِ علاقائی سلامتی کی ماحولیات و ما کولیات ہو، بھلے بندوں کو گننے کے معصیت آلود ادارے کے جملہ اراکین کی رات کے اندھیرے میں، دھواں دار دِیے کی ظلم و نور کو پاٹنے والی روشنی میں نام زدگی کے پروانے نکالنا۔
اس لیے جان رکھیے اور گواہ رہیے کہ پشاور میٹرو میں، بَہ ظاہر کی دیری، در اصل پشاور کی رعایا کے اِسی دنیا میں اپنے اعمال کا جس قدر ہو سکے، خمیازہ بھگت کر، اگلے جہان ایک صاف ستھری روح کے ساتھ مراجعت کے اہتمام کے سِوا اور کچھ بھی نہیں۔ اگر ہے تو بتائیے؟ نہیں ناں! اپنا فیصلہ ویب سائٹ پر لگا دیجیے، سیدھے سبھاؤ کیسے جواب دے سکیں گے۔
اس کے علاوہ لیڈر چُوں کہ موجود اور سرِ دست وقت کی پروا کرنا کرپٹ اور معصیت میں لتھڑی حرکت کے بَہ جُز کچھ نہیں سمجھتا، اس لیے وہ یہ بھی نیت باندھے سوتا، نیم ہوش ہوتا، جاگتا، جوشِ خطابت کرتا، جیلیں بھرتا (علیٰ ہٰذا القیاس) ہے کہ اگلے زمانوں میں، یا زمانوں سے باہر کے وجود میں جہنم کا ایندھن جس قدر ہو بچایا جا سکے۔
باقی سو باتوں کی ایک بات: پٹواریوں اور جیالوں میں کون سا دماغ ہوتا ہے کہ جنہیں کسی صاحب رمز و التباس لیڈر کی بات پَلّے پڑے۔ یہ دودھ اور شہد پر پَلے انصافی اور یوتُھ التَّوسیع کا ہی نصیبا ہے کہ جو ایک لمحے کی نا قابلِ تقسیم اکائی میں مراد سعید، عمران خان، فواد چودھری، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، علامہ شہزاد اکبر ایڈووکیٹ آف دی ریکارڈ، گِل پنجاب ترجمان، فیصل واوڈا، کو نا صرف سمجھ لیتا ہے، بَل کہ ان کی راستی اور حقانیت کا گرویدہ بھی رہتا ہے، اور بَہ وقتِ ضرورت، بَل کہ، ہَمہ وقت سند بھی بنتا ہے۔
وما علینا الا الخواص