مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف
ملک تنویر احمد
لاہور میں دو ادبی حلقے بہت معروف تھے۔ ایک حلقہ ارباب ذوق اور دوسراحلقہ ارباب علم۔ لاہور کے ان دو ادبی حلقوں کے بارے میں ایک بار مولاناعبدالمجید سالک نے کہا تھا،’’لاہور کے دو ادبی حلقے ہیں۔ ایک حلقہ ارباب ذوق جس میں علم کی کمی ہے اور دوسرا حلقہ ارباب علم جس میں ذوق کی کمی ہے‘‘۔ آج پاکستان میں دو سیاسی جماعتیں پوری شد و مد سے سیاست کے اسٹیج پر جلوہ گر ہیں۔ اپنے اپنے سیاسی مفادات کی آبیاری کے لیے جو تم پیزار ہیں۔
ایک پاکستان مسلم لیگ نواز کے نام سے سیاست کے میدان میں موجود ہے تو دوسری پاکستان تحریک انصاف کے نام سے سیاست میں تبدیلی کی علمبردار ہے۔ دونوں جماعتیں جس منشور اور تبدیلی کے لیے سرگرم عمل ہیں وہ سب سے پہلے ان جماعتوں کی صفوں میں ہی عنقا ہے تو یہ کس طرح اپنے سیاسی پروگرام کو ملکی سطح پرنافذ کرنے میں کامیاب ٹھہریں گی؟
پاکستان مسلم لیگ نواز میں انصاف کی کمی ہے اور پاکستان تحریک انصاف میں اسلامی، اخلاقی و مشرقی کی کمی ہے۔ تاہم ان دونوں جماعتوں میں جو ایک مشترکہ کمی ہے وہ ان کی صفوں میں جمہوریت کا مکمل عنقا ہونا ہے۔ دونوں جماعتیں نواز شریف اور عمران خان کی ذات کے گرد کولہو کے اس بیل کی طرح ہیں جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے اور اس وقت کام فقط ایک دائرے میں گھومنا ہوتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز عائشہ گلالئی والے معاملے پر جس طرح عمران خان کے لتے لینے پر تلی ہوئی ہے وہ یقینی طور پر پانامہ کیس میں میاں نواز شریف کی نا اہلی کی صورت میں سامنے آنے والا عدالتی فیصلہ ہے جس کے پس پردہ عمران خان کی متحرک ذات تھی۔ عائشہ گلالئی کے معاملے پر قومی اسمبلی میں نواز لیگ کے وزیر اعظم نے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز دی اور نوازلیگی اسپیکر نے جھٹ سے اس تجویز کو سند قبولیت بخشتے ہوئے اس کے قیام کی منظوری دے دی۔
پاکستان مسلم لیگ نواز، عائشہ گلالئی کو انصاف فراہم کرنے کیلیے تو بے کل ہوئے جا رہی ہے لیکن عائشہ احد کو وہ انصاف دینے سے محروم ہے جس کا معاملہ ان کے ممبر قومی اسمبلی اور خانوادہ شریفیہ کے رکن حمزہ شہباز سے جڑا ہوا ہے۔ انصاف کا یہ دہرا معیار انصاف نہیں حد درجہ کی نا انصافی ہے۔
اول تو پاکستان مسلم لیگ نواز کو عائشہ گلالئی کے معاملے میں کودنا نہیں چاہیے تھے اگر وہ انصاف کی فراہمی کے لیے اتنے ہی بے قرار ہورہے ہیں تو انہیں عائشہ احد کو بھی اس کسوٹی پر پرکھنا چاہیے۔ نواز لیگی قیادت اور رہنماؤں کو یہ بات ابھی تک سمجھ نہیں آسکی کہ کسی بے انصافی کا ارتکاب کرکے وہ قانون قدرت کے اس بے رحم ہتھوڑے سے نہیں بچ سکتے جو کسی وقت بھی آپ کے سر پر برس سکتا ہے۔
نوے کی دہائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور محترمہ نصرت بھٹو کی جعلی اخلاق باختہ تصاویر اور ان کی ذات پر رکیک حملے کر کے انہوں نے جس گھٹیا روش کو فروغ دیا تھا اس نے آنے والے ایام میں ان کی گھر کی خواتین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تحریک انصاف میں موجود کچھ بد تہذیب اور بد تمیز عناصر نے محترمہ مریم نواز کی ذات پر جو کیچڑ اچھالا وہ لائق مذمت ہے لیکن شاید اس میں نواز لیگی قیادت کو قدرت کی جانب سے آئینہ دکھانا بھی مقصود تھے کہ کس طرح ماضی میں ان کی قیادت نے پی پی پی کی خواتین رہنماؤں کی ذات پر گھٹیا حملے کئے تھے۔
پاکستان تحریک انصاف اس ملک میں تبدیلی کی داعی بن کر ابھری۔ اسٹیٹس کو کی قوتوں کو پامال کر کے ملک میں ایک نئے سیاسی کلچر کے فروغ کے لیے اس نے ملک کی رائے عامہ کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ گزشتہ چھ برسوں میں تحریک انصا ف کوجیسے جیسے عروج ملتا گیا اس کی صفوں میں سے اسلامی، اخلاقی اور مشرقی اقدار کا جنازہ بھی نکلتا گیا۔
تحریک انصاف نے اس ملک میں جس نوع کے سیاسی کلچر کو فروغ دینے کی کوشش کی وہ بد قسمتی سے تہذیب، اخلاق اور شائستگی کے کسی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ اسلامی اقدار کی بات کی جائے تو اختلاف کا حق ہر ذی شعور اور صاحب عقل و خرد ہے لیکن تحریک انصاف سے ہمدردی رکھنے والوں نے مخالف آراء رکھنے والوں کو جس طرح تضحیک کا نشانہ بنایا اس کی ایک طویل فہرست ہے۔
تازہ ترین جاوید ہاشمی کے ساتھ بد سلوکی کا وہ مظاہرہ ہے جو تحریک انصاف کے ہمدردوں اور کارکنان نے اس پیرانہ سالی میں ان کے ساتھ روا رکھا۔ جاوید ہاشمی نے کھلم کھلا عمران خان سے اختلاف کیا اور پارٹی چھوڑ گیا۔ عمران خان کی طرز سیاست سے اختلاف کا بنانگ دہل اعلان کرتا ہے اور اپنے تئیں عمران خان کو وہ کچھ پس پردہ قوتوں کا آلہ کار سمجھتا ہے۔
یہ جاوید ہاشمی کی ذاتی سوچ ہے۔ اس سے اتفاق کرنے والے بھی ملک میں موجود ہیں اور اس سے اختلاف کرنا بھی ہر ایک جمہوری و آئینی حق ہے لیکن تحریک انصاف کے کارکنا ن کو کسی معاشرتی، اسلامی اور اخلاقی روایات نے حق دیا ہے کہ وہ بزرگ سیاستدان سے بد سلوکی اور بد تمیزی کریں۔ کوئی آپ سے اختلاف کریں تو اس پر الزامات کی بوچھاڑ اور اس پر گالیوں کا طومار باندھنے کا حق آپ کو کون سی اقدار بخشتی ہیں۔
تحریک انصاف کا قائد ہر تقریر کا آغاز آیات ربانی سے کرتا ہے اور اس کے کارکنان اختلاف رائے رکھنے والوں پر گالیوں کو بو چھاڑ کر دیں یہ کس شریعت میں لکھا ہے۔ ایک جانب عمران خان صاحب پاکستان کو مدینہ کی اسلامی ریاست کے قالب میں ڈھالنا چاہتے ہیں اور دوسری جانب وہ اور ان کے کارکنان تمیز، اخلاق اور شائستگی کے اوصاف سے قطعی طور پر عاری ہیں۔
اب جمہوریت کا ذکر بھی ہو جائے۔ دونوں جماعتیں جمہوریت کا راگ تو الاپتی ہیں لیکن اپنی صفوں میں جمہوریت کے نفاذ سے یکسر طور پر ناکام ہیں۔عائشہ گلالئی کے الزامات کے بعد اس کے خاندان کو تضحیک کا نشانہ بنانے کی بجائے پارٹی رہنماء عمران خان سے ہی باز پرس کر لیتے کہ آپ کی ذات کی وجہ سے جماعت اخلاقی طو ر پر مجروح ہو رہی ہے لیکن خان صاحب کی آمرانہ بالادستی کے سامنے کس کو مجال کہ کوئی ایسا حرف اپنی زبان پر لا سکے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز میں جمہوریت پر بات کرنا تو وقت کے ضیاع کے مترادف ہے کہ خاندانی با دشاہت کی تحفظ کے لیے ایک سیاسی جماعت دن رات اپنی توانائیاں صرف کر رہی ہے۔نواز لیگ کے بعد اگر تحریک انصاف نے اس ملک پر حکمرانی کرنی ہے تو بقول شاعر ع
قفس سے نکلے تو محسن چمن میں بند ہوئے
رہائی نہ مل سکی اس غریب قیدی کو