ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی، ممبر قومی اسمبلی (مسلم لیگ ن)، سرپرستِ اعلیٰ پاکستان ہندو کونسل
میاں محمد نواز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں پاکستان نے ایشین ٹائیگر بننے کا خواب دیکھا، تمام تر عالمی دباؤ کے باوجود پاکستان جوہری طاقت بن کر عالمی برادری میں فخر سے سر اٹھانے کے قابل ہوا، ہمسایہ ملک کا وزیراعظم دوستی بس میں سوار ہوکر مینارِ پاکستان آیا، وژن 2010کے تحت اقتصادی اصلاحات کا سلسلہ شروع ہوا، دیگر ممالک کے طلباء و طالبات اعلیٰ تعلیم کیلئے پاکستانی یونیورسٹیوں کا رخ کرنے لگے لیکن بدقسمتی سے جمہوریت پر شب خون مار کر ترقی کا سفر روک دیا گیا، پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین میثاقِ جمہوریت کو تمام جمہوری حلقوں نے سراہا لیکن قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان جس نے اپنی سیاسی جماعت تحریکِ انصاف کی بنیادیں میاں صاحب کے گزشتہ دور حکومت میں رکھیں تھی ،نے ہوسِ اقتدار میں تمام اخلاقی اور جمہوری اقدار پامال کرنے کا سلسلہ روزِ اول سے جاری رکھا ہوا ہے، چاہے وہ ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا غیرجمہوری ریفرنڈم ہو ، 35پنکچروں کے جھوٹے بیان سے قومی انتخابات کو مشکوک بنانا ہو ،چار حلقے کھولنے کا غیرآئینی مطالبہ ہو، آزادی مارچ اور دھرنے کے دوران امپائر کی انگلی اٹھنے کی افواہیں پھیلانا ہو،پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے کنٹینر پر کھڑے ہوکرگالم گلوچ کرناہو،سیاسی مخالفین یا قومی اداروں کی کردارکشی کیلئے سوشل میڈیا کا غلط استعمال ہو،عظیم دوست ملک چین کے صدر کا دورہ ملتوی کرواناہو، ملکی ترقی کیلئے ناگزیر پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو متنازعہ بناکر روڑے اٹکانا ہو یا پھردارالحکومت اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کی کال دینا ہو، انصاف کے نام پر قائم نام نہاد جماعت کی جمہوریت سے ناانصافیوں کی لمبی داستان ہے۔مشرف کے دورِ حکومت نے سیاسی جماعتوں کو یہ سبق سکھایا کہ کسی بھی جمہوری معاشرے میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہے اور پارلیمنٹ سپریم ہواکرتی ہے اورقومی اداروں کی فعالیت و مضبوطی عوام کا یہ بنیادی حق یقینی بناتی ہے کہ وہ بذریعہ ووٹ اپنے منتخب نمائندیں پارلیمنٹ میں بھیجیں اورکارکردگی کی بناء پر اگلے انتخابات میں پھر سے سلیکٹ یا ریجکٹ کرنے کیلئے اپنا حقِ رائے دہی بلاخوف وخطر استعمال کریں،لیکن یہ سب تبھی ممکن ہے جب عوام کو یہ اعتماد حاصل ہو کہ نوے کی دہائی کا دور بیت گیا جب عوام کے ووٹ کی پامالی کرتے ہوئے یا تو اسمبلیاں توڑ دی جاتی تھیں یاپھر مارشل لاء لگ جاتا تھا۔مشرف کی آمریت کے دوران دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین شریف برادران اور بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی نے ایک ولولہ تازہ پیدا کیا، آمریت کے خلاف مشترکہ جمہوری جدوجہد کی بدولت قومی انتخابات کا اعلان ہوا لیکن اس موقع پرعمران خان جو مشرف کے غیرجمہوری ریفرنڈم کی تو پرزور حمایت کیا کرتے تھے لیکن قومی انتخابات سے راہِ فرار حاصل کرکے جمہوریت پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کردیتے ہیں، بے نظیر بھٹو کی المناک شہادت نے پیپلز پارٹی کے ہمدردی ووٹ بینک میں اضافہ کیا اور پیپلز پارٹی قومی انتخابات جیت گئی، میاں نواز شریف کی زیرقیادت پاکستان مسلم لیگ ن نے عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا ، جمہوری اقدار کی مضبوطی اوردورِ آمریت کو قصہ ماضی بنانے کیلئے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا لیکن ججز بحالی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے لانگ مارچ کا عملی اقدام بھی اٹھایا، عوام نے اپنے ہردلعزیز قائد کی پکار پر لبیک کہا اور ابھی عوام کا ٹھاٹھے مارتا سمندر بمشکل گوجرانوالہ ہی پہنچا تھا کہ حکومتِ وقت نے ججز بحالی کا اعلان کردیا، اس تاریخی موقع پر بھی عمران خان عوام کی نظروں سے اوجھل روپوش رہے۔بعد کے عرصے کے دوران اپنی ہی قائم کردہ تحریک کے اغراض و مقاصد کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے الیکٹیبلز کے نام پر کرپشن کے میدان کے گھاگ کھلاڑیوں کیلئے پارٹی کے دروازے کھول دیئے ، کچی عمر کے نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنا آسان ہوتا ہے جسکو مدنظر رکھتے ہوئے عمران خان نے اپنی قومی کرکٹ ٹیم کی بدولت حاصل کی گئی شہرت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی ٹھانی اورسوشل میڈیا کے ذریعے طوفانِ بدتمیزی برپا کردیا، عمران خان کے پرجوش حامیوں نے ہر اس شخصیت اور ادارے کو نشانہ بنانا شروع کیا جو انکے موقف سے ذرہ برابر اختلاف کرنے کی جرات کی جسارت کربیٹھے،پاکستانی معاشرے میں خواتین کے احترام کی روایات سے روگردانی کرتے ہوئے خواتین ٹی وی اینکرز کے موبائیل فونز ، فیس بک اور ٹوئیٹر پرغیراخلاقی پیغامات کی بھرمار کردی گئی، تحریکِ انصاف کے جلسوں کی رونق بڑھانے کیلئے ناچ گانے کا سہارہ لیا گیا، جلسوں میں شریک اپنی ہی خواتین کارکنوں سے بدتمیزی معمول بن گئی، مخصوص ٹی وی چینلز سے وابستہ خواتین رپورٹرز کو ہراساں کیا جانے لگا۔پی ٹی آئی کے ان تمام فسطائی ہتھکنڈوں کا مقصد صرف ایک ہی تھا کہ کِسی بھی طرح عمران خان کو وزیراعظم بنادیا جائے، سوشل میڈیا کی خیالی دنیا میں رہنے کے عادی عمران خان بھی بزم خویش اپنے آپ کو مستقبل کا وزیراعظم سمجھ بیٹھے لیکن عوام نے قومی انتخابات میں جمہوریت کی علمبردار مسلم لیگ ن کو اکثریت سے نواز دیا، مسلم لیگ ن کی قیادت چاہتی تو صوبہ خیبرپختونخواہ اور دیگر صوبوں میں سیاسی جوڑ توڑ کرکے اپنے لئے حکومت سازی کیلئے راہ ہموار کرلیتی لیکن عوام کے اکثریتی ووٹ کا احترام کرتے ہوئے صوبہ خیبرپختونخواہ میں تحریکِ انصاف اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی حوصلہ افزائی کرکے ملکی ترقی کا سفر پھر سے جاری و ساری کرنے کیلئے تعاون کا ہاتھ تھامنے کی استدعا کی گئی ۔جمہوری اصولوں کا تو تقاضہ ہے کہ عمران خان عوام کے فیصلے پر سرتسلیم خم کرتے ہوئے خیبر پختونخواہ کی ترقی و خوشحالی اور آئیندہ کے انتخابات کی تیاری کرنے میں مصروفِ عمل ہوجائیں لیکن ملکی سیاست پربذریعہ فسطائیت حاوی ہونے کیلئے سرگرم عمران خان کی جانب سے ان تمام حلقوں کا نتیجہ تو شفاف کہلاتا ہے جہاں انکی جماعت جیتی ہو لیکن مسلم لیگ ن کی ہرانتخابی جیت دھاندلی کا نتیجہ قرار پاتی ہے ، باوجود اس حقیقت کے کہ انتخابات مسلم لیگ ن کے نہیں بلکہ نگران حکومت کے تحت منعقد ہوئے تھے، چار حلقوں اور 35پنکچروں جیسے بیانات سے قوم کو گمراہ کرکے انتخابات سے بدظن کرنے کی کوشش کی جاتی رہی جسے بعد میں کمالِ ڈھٹائی سے سیاسی بیان قرار دے دیا گیا ۔ملکی آئین کے مطابق الیکشن رزلٹ کو صرف الیکشن ٹریبونلز کے توسط سے ہی چیلنج کیا جاسکتا ہے جسکی بناء پر تحریکِ انصاف کا حکومت سے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ ہی غیرآئینی تھا لیکن کون عمران خان کو عقل دلائے جو یہ بہانگِ دہل یہ بچگانہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اپوزیشن کا کام الزام تراشی کرنا ہے جبکہ حقائق کو مدنظر رکھنا تحقیقات کرنا حکومت اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔تحریکِ انصاف کی جانب سے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ فراہم کرتے وقت بھی وسیع پیمانے پر ناانصافیوں کا شرمناک مظاہرہ کیا گیا،آمریت پسند عمران خان نے ٹکٹس اناؤنس کرتے وقت متعدد مرتبہ تنظیمی فیصلوں کو روندتے ہوئے اپنے مرضی کا فیصلہ کیا جسکی کچھ مثالیں حلقہ این اے 132، پی پی 164، حلقہ پی پی165میں پائی جاتی ہیں جہاں تحریکِ انصاف کے اپنے مقامی عہدے داران شکایت کرتے پائے جاتے ہیں کہ وہاں کی یونین کونسل ،تحصیل اور ضلع کی باڈی نے امیدواروں کیلئے جو پروپوزل دی، وہ عمران خان نے بغیر پڑھے ردی کی ٹوکری میں ڈال دی۔عمران خان اگرواقعی معاشرے سے ناانصافی کا خاتمہ اپنا اولین مقصد سمجھتے ہیں توبجائے مرکز میں جمہوری حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانے کے اپنے صوبہ خیبرپختونخواہ میں اپنی حکومت اور اپنی پارٹی میں انصاف کا حصول کیوں نہیں یقینی بناتے ؟ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جو انہیں مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں سب ستیاناس اور بیڑاغرق، ہر طرف کرپشن اور دھاندلی کا شوروغل کرنے پر اکساتی ہیں لیکن جب خیبرپختونخواہ احتساب کمیشن کا سربراہ انسدادِ کرپشن کیلئے اپنی ذمہ داریاں آزادانہ پوری نہ کرنے دیئے جانے کی بناء پر احتجاجاََ استعفیٰ دیتا ہے تو عمران خان خاموشی اختیار کرلیتے ہیں ،ایسی ہی ناانصافی جسٹس (ر)وجہیہ الدین کے ساتھ کی جاتی ہے جب وہ انٹراپارٹی الیکشن میں بے ضابطگیوں اور کرپٹ عناصر کی دھاندلیوں کی نشاندہی کرتے ہیں توکرپٹ عناصر کے ایماء پر انہیں ہی پارٹی سے نکال باہر کردیاجاتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کے اپنے ایم پی ایز اور ایم این ایز وزیر اعلیٰ کی سنگین کرپشن کی شکایت کرتے ہیں تو تحقیقات کی بجائے شکایت کنندگان کو خاموش کرا دیا جاتاہے، صوبے میں حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ بینک آف خیبر کی انتظامیہ صوبائی وزراء کی کرپشن کے خلاف میڈیا میں اشتہار چھپواتی ہے مگر عمران خان کی توجہ صرف عوام کے منتخب وزیراعظم نواز شریف اور انکی فیملی پر ہی مرکوز رہتی ہے۔ دہشت گردی کے عفریت کو شکست فاش دینے کیلئے شروع کیے جانے والے آپریشنِ ضرب عضب کے دوران یومِ جشنِ آزادی کے موقع پر دارالحکومت اسلام آباد میں قانون شکنی کرتے ہوئے دھرناسیاست کا آغاز کیا جاتا ہے جسکا مقصد سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنا،عالمی برادری کے سامنے پاکستان کو ایک کمزور بنانا اسٹیٹ ثابت کرنا اوردہشت گردی کے خلاف آپریشن کو متاثر کرنا ہی لگتا ہے۔ تمام تر فسطائی ہتھکنڈوں کو عوام کی جانب سے مسترد کیے جانے پر پاناما لیکس کی آڑ میں ایک بار پھردارالحکومت اسلام آباد کے لاک ڈاؤن کی غیرجمہوری کال دیکر ملکی اور بیرونی سرمایہ کاروں کو ہراساں کرتے وقت عمران خان بھول جاتے ہیں کہ پانامالیکس میں علیم خان، زلفی بخاری سمیت دیگر پی ٹی آئی قائدین کا بھی نام شامل ہے، جہانگیر ترین کی بھی آف شور کمپنی ہے،ایک طرف عمران خان یہ موقف رکھتے ہیں کہ آف شور کمپنیاں ناجائز ذرائع سے حاصل کی جانے والی دولت چھپانے یا ٹیکس بچانے کے لئے یا دونوں مقاصد کے لئے بنائی جاتی ہیں جبکہ دوسری طرف عمران خان کی اپنی آف شور کمپنی 1983 ء میں آئی لینڈ جزیرے میں رجسٹرڈ ہوئی جو ٹیکس بچانے والی کمپنیوں کا بڑا مرکز سمجھاجاتا ہے۔ پاناما لیکس میں متعدد سیاستدانوں سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا نام شامل ہے لیکن پی ٹی آئی کے ٹی او آرز سمیت حکومت مخالف تحریک کا واحدمقصد صرف منتخب وزیراعظم کو ہی نشانہ بنانا ہے، قیاس آرائیوں پر مبنی الزامات کی بناء پر وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کی باتوں سے عالمی برادری کے سامنے پاکستان کے جمہوری نظام کو کمزور ثابت کرنا ہے، بھلا ہو وزیراعظم نواز شریف صاحب کا جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاناما لیکس میں وزیراعظم کا نام ہی موجود نہیں اورنہ ہی کوئی ملکی و عالمی قانون موجود ہے جس کے تحت جوان و عاقل و بالغ اولاد کے کاروباری معاملات کا جواب والدین سے طلب کیا جائے،وہ ملکی ترقی کو اولین مقصد گردانتے ہوئے انا کا مسئلہ بنائے بغیرنہ صرف عوام کے سامنے اپنا موقف پیش کرتے ہیں بلکہ اعلیٰ عدالت کے سامنے قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کا عملی مظاہرہ پیش کرتے ہیں۔ دنیا کی کسی بھی عدالت کے سامنے ٹھوس ثبوت پیش کرنے ہوتے ہیں ، دستاویزی ثبوت دکھانے ہوتے ہیں جس سے تحریکِ انصاف قاصر ہے، پرویز مشرف کی ڈکٹیٹر حکومت اور بعدازاں پیپلز پارٹی بھی تمام تر الزامات کے باوجود مسلم لیگ ن کے خلاف کوئی کرپشن ثابت نہ کرسکی،عوام نے حالیہ ضمنی انتخانات، لوکل باڈیز الیکشن، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات سمیت دیگر مواقعوں پرمسلم لیگ ن کی قیادت پر اظہارِ اعتماد کیا ہے جو وژن 2025 ء کے تحت ملکی معیشت کو دنیا کی 25ویں بڑی معیشتوں میں شامل کرانے کیلئے اپنی انتھک جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے جس میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ سرفہرست ہے۔ عمران خان نے اب اِس حقیقت کا اِدراک کرتے ہوئے کہ ماضی کے تمام بحرانوں کی طرح پاناما کیس سے بھی وزیراعظم صاحب سرخرو ہونگے اور ماضی کے دھرنے، 35پنکچر، اسلام آباد لاک ڈاؤن کی طرح پاناما ایشو کے غبارے سے بھی جلد ہوا نکل جائے گی ،تحریکِ انصاف نے عدالتی کاروائی کو مسخ کرنے کیلئے عدالت کے باہریک طرفہ پریس کانفرنس کرنے کا وطیرہ اپنالیا ہے تومسلم لیگ ن بھی یہ حق محفوظ رکھتی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے جمہوریت دشمن پروپیگنڈے کو زائل کرنے کیلئے میڈیا میں اپنااصولی موقف پیش کرکے انصاف کا بول بالا کرے۔