پی ٹی ایم، تاریخی پس منظر، پختونوں کی زندگی اور ملکی پالیسیاں

پختونوں کی زندگی

پی ٹی ایم، تاریخی پس منظر، پختونوں کی زندگی اور ملکی پالیسیاں

از، احمد جمیل یوسف زئی

امریکی سیاست دان اور ریاست اوہایو سے سینئر سینیٹر شیروڈ کیمبل براؤن نے ایک دفعہ کہا تھا کہ “نوجوان لوگ ہمارے ملک کی تاریخ میں ہر عظیم سماجی تحریک کے ہر اوّل دستے میں رہے ہیں۔” اُن کی یہ بات جب بھی یاد آتی ہے تو بے ساختہ پاکستان میں دہشت گردی سے متاثرہ پختون علاقوں سے اُٹھنے والی پختون نوجوانوں کی پرامن پختون تحفظ تحریک کا خیال ذہین میں اُبھرتا ہے۔

سابقہ فاٹا میں دہشت گردی اور اس کے سدباب کے لیے شروع کیے گئے مختلف فوجی آپریشنز کے نتیجے میں نہ صرف علاقہ مکینوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کے ملک کے دیگر شہروں میں آئی ڈی پیز کی حیثیت سے مشکل وقت گزارنا پڑا بَل کِہ ان کو اپنے گھروں کے ساتھ کار و بار کو بھی نا قابل تلافی نقصان اُٹھانا پڑا۔

اس پر بس نہیں ہوئی۔ ہزاروں پختونوں کو اس نام نہاد جنگ کی آگ میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے اور ہزاروں ہی کی تعداد میں پختون نوجوان اور کئی سو خواتین لا پتا کیے گئے، جن کا آج تک پتا نہیں چلا کہ وہ کہاں اور کن حالات میں ہیں، زندہ بھی ہیں، یا مر گئے۔

اِن حالات میں شمالی و جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے درجن بھر سے بھی کم نوجوانوں نے سال ۲۰۱۰ میں وزیرستان سمیت ڈیرہ اسماعیل خان میں فاٹا خصوصاً میرعلی اور وانا میں کسی بھی نا خوشگوار واقعے کے بعد فوج کی جانب سے پورے علاقے کے لوگوں کے ساتھ نا جائز برتاؤ اور وہاں چیک پوسٹوں پر اُن کے ساتھ نا مناسب اور غیر انسانی رویے کے خلاف احتجاج کیا۔ ان نوجوانوں نے بعد ازاں اس تحریک کو محسود تحفظ موومنٹ کا نام دیا۔

گو کہ محسود تحفظ موومنٹ وزیرستان میں لوگوں کو در پیش مسائل کو اپنے پُر امن احتجاج سے اُجاگر کرتی رہی، مگر تب پاکستان اور پاکستان سے باہر کم ہی لوگ اس تحریک اور اس کے احتجاج سے آگاہ تھے۔ اس تحریک کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر پذیرائی تب ملی جب بہت بڑی تعداد میں قبائلی علاقوں اور پختونخواہ کے لوگوں نے اس تحریک کے جھنڈے تلے اسلام آباد میں کراچی میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے حکم پر ایک جعلی پولیس مقابلے میں محسود قبیلے کے ایک نوجوان نقیب اللّہ کے قتل کے خلاف دس روز تک پُر امن احتجاج کیا۔ احتجاج میں پانچ اہم مطالبات کیے گئے۔

۱۔ راؤ انوار کی گرفتاری اور عدالتی ٹرائل کے بعد سزا دی جائے

۲۔ فاٹا (تب) اور دیگر پختون علاقوں میں چیک پوسٹوں پر لوگوں کے ساتھ نا مناسب اور غیر انسانی رویے کو ختم کیا جائے۔

۳۔ وزیرستان میں فوج کی طرف سے بچھائی گئی بارودی سرنگیں صاف کی جائیں۔

۴۔ وزیرستان میں کسی بھی نا خوش گوار واقعے کے بعد پوری آبادی کو زد و کوب کرنا بند کیا جائے… اور

۵۔ فوج اور خفیہ اداروں کی جانب سے لا پتا کیے گئے افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ اگر ان میں سے کسی پر کوئی جرم ثابت ہو تو سزا دی جائے اور نہ ہو تو باعزت بری کیا جائے۔

اس احتجاج میں اسلام آباد میں موجود دیگر پختون علاقوں کے پختونوں نے بھی بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالا۔ جس کے بعد تحریک کا نام بدل کر پختون تحفظ موومنٹ PTM رکھ دیا گیا۔


مزید دیکھیے: 1۔ پشتون قوم کی ترقی پسندی اور مذہبی جماعتیں

نقیب اللہ محسود کے اہلِ دل دوستو، منطقی ہو جاؤ نا

پشتون ہوں، سٹریٹجک ڈیپتھ کا ایندھن ہوں

میڈیا اینکرز یا نشریاتی راؤ انوار؟


حکومت کے ساتھ مذاکرات میں تحریک کے پانچ مطالبات کو ایک مہینے کی مدت میں پورا کرنے کی یقین دہانی کے بعد دھرنا ختم کرنے کا اعلان ہوا۔ تب تک تحریک کے بانی منظور احمد پشتین اور ان کے ساتھیوں کو جنگ سے بُری طرح متاثر پختون اپنے حقیقی غم خوار اور لیڈرز کی صورت میں دیکھنے لگے تھے۔

ان مطالبات کو ماننے اور پختونوں کے رِستے زخموں پہ مرہم رکھنے کی بجائے وہی روش اپنائی گئی جو اس مملکت خدا داد میں حقیقی عوامی مسائل اُجاگر کرنے اور ۷۰  سال سے جاری عوام کُش ریاستی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے لیے چلائی گئی ہر عوامی تحریک کے ساتھ کیا گیا۔

پی ٹی ایم کے خلاف قومی میڈیا اور اور سوشل میڈیا پہ پروپیگنڈہ کا آغاز کیا گیا۔ پی ٹی ایم  پر افغانستان اور ہندوستان کے لیے کام کرنے اور منظور اور اُن کے ساتھیوں پر ان ممالک کے ایجنٹ ہونے کے الزامات لگائے گئے۔

یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی گئی کہ اس طرح کے الزامات ریاست اور عوام  کے بیچ کے تعلق کو متاثر کریں گے اور ریاست کا کردار بحیثیت ماں داغ دار ہوگا تو یہ لوگوں کا ریاست پر سے اعتماد متزلزل کرنے کا سبب بنے گا۔ ملک کے سبھی چھوٹی بڑی، مذہبی و غیر مذہبی سیاسی جماعتوں حتٰی کہ فوج کے شعبۂِ تعلقاتِ عامہ کے ترجمان کو بھی یہ کہتے ہوئے پایا گیا کہ پی ٹی ایم کے مطالبات قانون اور آئین کے عین مطابق ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ایجنٹ ایجنٹ کی گردان بھی تواتر سے دُہرائی جاتی رہی۔

ایسے حالات سے مجبور ہوکر پی ٹی ایم نے مہینہ بعد اپنی احتجاجی ریلیوں کا آغاز جنوبی پختونخواہ (بلوچستان کے پختون اضلاع) سے کیا۔ ژوب، خانو زئی، قلعہ سیف اللّہ اور صوبے کے دارالخلافہ کوئٹہ میں خفیہ اہل کاروں کی دھمکیوں اور مقامی انتظامیہ کے ایف آئی آر کٹوانے کے با وجود ہزاروں کی تعداد میں لوگ منظور پشتین اور اُن کے رُفَقاء کے استقبال اور ان کی درد کی داستانیں سننے کے لیے اکٹھے ہوئے۔

کوئٹہ کے ۱۱ مارچ کے جلسے میں جب میں نے لوگوں کو زبان، رنگ، نسل اور سیاسی اختلافات سے بالا تر ہوکہ اتنی بڑی تعداد میں صادق شہید گراؤنڈ میں اپنے لا پتا پیاروں کی تصویریں اُٹھائے دیکھا تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ اِس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ نے نہ صرف قبائلی علاقوں کے لوگوں اور پختونوں کو بری طرح متاثر کیا ہے بَل کِہ کوئٹہ کی ہزارہ برادری، بلوچ، اور سندھی بھی اس آگ کا ایندھن بنے ہیں۔

ان احتجاجی جلسوں کے بعد پی ٹی ایم نے اداروں اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے روایتی طریقے اپنا کے مشکلات کھڑی کرنے کے با وجود پشاور، سوات، لاہور اور کراچی میں بڑے بڑے جلسے منعقد کیے۔ جن سے اس حقیقت کو مزید تقویت ملی کہ حقیقی عوامی تحریکوں پر باہر سے فنڈنگ، ان کے رہنماؤں کو ایجنٹ اور غدار کے القابات سے نواز کر اور قومی میڈیا پر ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے سے ایسی تحریکوں کو کُچلا نہیں جا سکتا۔

عالمی میڈیا کی کوریج اور پی ٹی ایم کے پُر امن رہنے سے مجبوراً حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کرنا پڑی، مگر اس دوران تحریک کے کار کنوں کی پکڑ دھکڑ بھی جاری رہی۔

پی ٹی ایم نے حال ہی میں حکومتی جرگے کے ساتھ ناکامی کے بعد مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کیا۔ تحریک کے ایک رہ نما فضل ایڈووکیٹ کے مطابق حکومتی جرگے کے پاس اختیارات نہیں ہیں اور اُن کے وعدے کے با وجود پی ٹی ایم کے کار کنوں کو رہا نہیں کیا گیا۔ ایسے میں مذاکرات کا کوئی مفید حل نہیں نکل سکتا۔

اس  لیے تحریک نے پھر سے اپنے احتجاجی جلسوں کا آغاز ڈی آئی خان میں اس مہینے کی ۱۵ تاریخ کو اپنے ڈی آئی خان سے پہلے لا پتا اور پھر گرفتار کار کن حیات پریغال اور تونسہ سے پہلے گرفتار اور پھر لا پتا کار کن مولانا روئد اللہ کو آزاد کرانے، راؤ انوار کی نقیب اللہ قتل کیس میں ضمانت منظوری کے خلاف احتجاج اور اپنے پہلے پانچ مطالبات کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت نے یہ واضح پیغام دیا کہ یہ تحریک اپنے مطالبات کے پورا ہونے تک پیچھے نہیں ہٹے گی۔ منظور نےاعلان کیا ہے کہ اگلا جلسہ اگست کے پہلے ہفتے میں صوابی میں منعقد ہو گا۔ ‏پی ٹی ایم کے اب تک پختونوں کی زندگیوں اور ملکی پالیسوں پہ اثرات دور رس رہے ہیں۔

۱۔ اس تحریک نے اپنے ۵ مہینے کے پر زور لیکن پُر امن احتجاج سے یہ ثابت کر دیا کہ پختون ریاستی پروپیگنڈہ کے برعکس پُر امن لوگ ہیں۔

۲۔ اس تحریک سے ہی پہلی بار پختونوں کو اصلی ظالم کا پتا چلا۔

۳۔ دنیا نے دیکھا کہ پختون دہشت گرد نہیں بَل کِہ اصل میں دہشت گردی کا شکار ہیں۔

۴۔ دنیا با لعموم اور پختون با لخصوص سابقہ فاٹا اور سوات میں ہونے والے دہشت گردی اور اس کے خلاف فوجی آپریشنز کے نتیجے میں ہونے والے نقصان سے آگاہ ہوئے۔

۵۔ پہلی بار مسنگ پرسنز کے اہلِ خانہ کو اپنی بات پبلک میں کرنے کا موقع ملا۔

۶۔ اس تحریک نےپہلی دفعہ پختونوں کودر پیش اُن مسائل کا ذکر کیا جن کو کسی بھی سیاسی جماعت نے پچھلے ۲۵، ۳۰ سالوں میں کوئی اہمیت نہیں دی۔

۷۔ اس تحریک نے پہلی دفعہ پختونوں میں موجود خوف کے حصار کو توڑا اور وہ کھل کر اصل دشمن کا نام لینےلگے۔

۸۔ اس تحریک کے بے خوف احتجاج اور با ہمت لیڈر شپ نے باقی مظلوم قومیتوں کو یہ واضح پیغام دیا کہ اگر اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور ظالم کا راستہ روکنا ہے تو لگی لپٹی رکھے بغیر اصل ظالم اور غاصب کا برملا نام لے کر اس کے بے گناہ اور مظلوم لوگوں پر کیے گئے مظالم عوام کے سامنے لانا ہوں گے۔

۹۔ اس تحریک نے یہ ثابت کیا کہ اگر آپ کو قومی میڈیا کوریج نہیں دیتا تو آپ سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کر کے اپنی بات عام آدمی تک پہنچا سکتے ہو۔

۱۰۔ اس تحریک نے پہلی دفعہ پختونوں کو سیاسی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور قومیتی تقسیم کو بُھلا کر ایک پختون بن کر سوچنے اور اپنی پختون شناخت کے زیرِ اثر ایک منظم انداز میں پُر امن رہ کر احتجاج کرنے کا راستہ بتایا۔

۱۱۔ پی ٹی ایم کی ایک بڑی کامیابی یہ بھی رہی ہے کہ اس کے احتجاج کی وجہ سے اب تک تحریک کے رہنما منظور پشتین کے مطابق ڈھائی سو سے تین سو کے لگ بگ لا پتا افراد اپنے گھروں کو لوٹ کے آئے ہیں۔

۱۲۔ اس تحریک نے پختونوں کو اپنے حقوق کے  لیے پر امن احتجاج کرنے کا ایک بہترین پلیٹ فارم فراہم کیا۔

۱۳۔ مختلف سیاسی جماعتوں جیسا کہ مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے فوج اور خفیہ اداروں پر سویلین افیئرز میں مداخلت کے الزامات، بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں ‘ڈان’ کے سی ای او کی جانب ایسے ہی الزامات، اور اب سے دو دن پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کی جانب سے راولپنڈی بار کے سامنے آئی ایس آئی کے اہل کاروں کی جانب سے عدالتی فیصلوں پر اثر انداز  ہونے کے الزامات پی ٹی ایم کے بیانیے کی توثیق کرتے ہیں۔

ملک و قوم کے مفاد میں یہی ہے کہ اب پورے خلوص دل سے عوام کی شکایتوں کا ازالہ کرنے کے  لیے پی ٹی ایم کے “ٹروتھ اینڈ ری کنسیلیشن” کے مطالبے کو مان کر اس ملک کو کسی بڑے بحران میں جانے سے بچایا جائے۔ گرفتار پر امن کار کنان کو رہا کیا جائے کیوں کہ اب ملک مزید کسی بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا۔