کبھی پی ٹی وی بھی انقلابی تھا
از، حسین جاوید افروز
اکثر ہم پاکستان ٹیلی وژن پر یہ الزام سنتے آئے ہیں کہ اس میں ہمیشہ راوی چین ہی چین لکھتا ہے؛ چاہے خبریں ہوں ڈاکیومنٹری ہو یا پھر کوئی ڈرامہ۔ غرض یہ کہ ہر طرف سب اچھا ہے کا ہی شانت نامہ سنائی دیتا رہا ہے۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے میں کرونا کی بَہ وجوہ ملی فرصت نے کچھ ایسے ماضی کے ڈراموں کو دیکھنے کا موقع دیا کہ خاصی حیرانی ہوئی کہ کیا واقعی پاکستان ٹیلی وژن پر ایسا تخلیقی اور انقلابی متن میسر ہوا کرتا تھا؟
دو ایسے ماضی کے ڈراموں پر بات کرنا چاہوں گا جو گویا پچیس سے تیس برس پہلے کے ہیں مگر ان میں چھپا سیاسی طنز، آمریت کے اندھیروں اور نام نہاد جمہوری علَم برداروں کو بے نقاب کرنے کی بے باک جستجو آج بھی روح کو گرما دیا کرتی ہے۔ شاید اس وقت کی سیاسی گھٹن اور آج کے سماج میں پیوستہ فکری افلاس میں کچھ زیادہ فرق موجود نہیں ہے۔
یہ سنہ 1988 کا دور ہے جب ضیائی آمریت کے انہدام کے بعد سٹوڈنٹ سیاست اور جمہور کی آزادی کے نعروں نے گویا ایک سماں باندھ دیا تھا۔ ہر طرف مساوات، جمہوری اقدار اور اظہارِ رائے کی آزادی کا جم کر پرچار کیا جا رہا تھا۔ ایسے میں نور الہدیٰ شاہ کی جان دار تحریر اور سائرہ کاظمی کی دل کو موہ لینے والی ہدایت کاری کے بینر تلے کراچی سینٹر سے تپش ڈرامہ ہمارے سامنے آیا۔
تپش میں نو جوان طلباء کی مساوات اور آزادی کے لیے جد و جہد کو بہت زور شور سے بیان کیا گیا کہ کیسے چند جوشیلے طلباء کا گروپ ایک روشن خیال سماج اور ایک نظریاتی و مثالی سیاست کے خوابوں سے لبریز ہوکر نام نہاد لبرل اور روشن خیال سیاست دان کے سیاسی ہتھکنڈوں کا شکار بن جاتا ہے اور ان طلباء کو نہ صرف تعلیمی اداروں سے نکال دیا جاتا ہے بل کہ ان کو زندان میں دھکیل کر لا پتا افراد بھی قرار دیا جاتا ہے۔ جس روشن خیال سیاست دان کو مسیحا سمجھتے ہوئے یہ طلبہ اپنی زندگی کے تاریک ترین دور میں داخل ہوتے ہیں وہی سیاسی مسیحا چور دروازے سے سمجھوتا کرتے ہوئے اپنے نظریات کو دھتکار کر اقتدار کی اونچی مسند تک پہنچنے کی جدوجہد شروع کر دیتا ہے۔
تپش میں بہت گہرائی سے روشنی ڈالی گئی ہے کہ کیسے مفاد پرست سیاست دانوں کا ٹولہ دستور کی حرمت کا مذاق اڑاتے ہوئے انتخابی نظام اور افسر شاہی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ان بے حس سیاست دانوں کے لیے سیاسی و نظریاتی کارکن محض ایک آلہ ہوتے ہیں جن کے جوش کو وقتی سیاسی فائدے کے لیے صرف بَہ وقتِ ضرورت استعمال کیا جاتا ہے اور پھر مطلب نکلنے پر ٹشو پیپر کی طرح کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔ 80 کی دَھائی میں کس طرح جوشیلے طلباء اور بے لوث سیاسی کارکنوں کو سیاسی غنڈوں کے ذریعے ذلیل کیا جاتا رہا ان کی بَہ خوبی عکاسی تپش میں ہمیں جا بہ جا دیکھنے کو ملتی ہے۔ نظریاتی طلبہ کے کردار میں جمال شاہ، روبینہ اشرف اور خالد انعم کی جان دار ادا کاری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، جب کہ ایک شاطر سیاست دان کے کردار میں شفیع محمد مرحوم بھی اپنے فن کی بلندیوں پر دکھائی دیتے ہیں۔
تپش دیکھ کر شدت سے اندازہ ہوا کہ آج بھی ہمارے سیاسی کلچر میں ترغیب،. دھونس، سام، دام، ڈھنڈ، بھید کی آمیزش کم نہیں ہوئی ہے۔
نظریاتی سیاست کا نعرہ اس لمحۂِ موجود میں محض چسکا فروشی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ فیض کا کلام، ٹینا ثانی کی مدھر آواز اور ارشد محمود کی اَن مِٹ موسیقی سے آراستہ ڈرامہ تپش اپنے آپ میں کسی سوغات سے کم نہیں۔
اسی طرح سنہ 93 میں جب نواز شریف صاحب اپوزیشن میں تھے تو لاہور سینٹر سے زرد دوپہر کے عنوان سے سیاسی تھیم پر مبنی ایک لا زوال ڈرامہ پیش کیا گیا۔ اس بولڈ مگر معیاری ڈرامے کی ہدایت کاری سے تحریر تک کے تمام فرائض پی ٹی وی کے کہنہ مشق ڈائریکٹر شاہد محمود ندیم نے کمال مہارت سے انجام دیے۔ یہ ڈرامہ اندرون لاہور کے معروف صنعت کار ملک مہربان علی کے گرد گھومتا ہے جو دھیرے دھیرے اپنی شاطرانہ فطرت اور خوشامدی خصلت کی بَہ دولت کیسے ہماری سیاست کے پسِ پردہ کرداروں کی مدد سے اپنا سیاسی سفر کونسلر سے وزارت تک جاری رکھتا ہے؟
ڈرامے کا دل چسپ منظر وہ ہے جب کس طرح اپنے اجڈ پن کو ملک مہربان علی ایک عیار اور گھاگ سیاست دان کی چال ڈھال سے بدلتا رہتا ہے؟ ملک مہربان علی اصل میں ہمارے روایتی سیاسی کلچر کا وہ کردار ہے جو اپنے آپ کو شعبدہ باز حرکات اور پیسے کی ریل پیل کی بَہ دولت کم وقت میں لمبی ریس کے گھوڑے میں ڈھالنے کی بھر پُور صلاحیت رکھتا ہے۔
لیکن پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب اپنے ہی گناہوں کے بوجھ تلے وہ کس طرح ایک سیاسی اثاثے سے ایک سیاسی بوجھ کی شکل اختیار کرتا ہے اور کیسے رِنگ ماسٹرز اس سے کنی کترا جاتے ہیں؟
بلا شک و شبہ زرد دوپہر ہر دور کا ایک بولڈ اور بے باک ڈرامہ ہے جو ہماری قومی سیاست میں متحرک پسِ پردہ کرداروں پر بھی سیر حاصل روشنی ڈالتا ہے جس سے کنٹرولڈ جمہوریت کے تصور کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔
معروف ادا کار شجاعت ہاشمی نے ملک مہربان علی کے کردار میں بلا شبہ اپنی معیاری ادا کاری سے چار چاند لگا دیے ہیں اور وہی اس ڈرامے کے مِدار المَہام دکھائے دیتے ہیں، جب کہ ایک متحرک سیاسی ایجنٹ کے طور پر مرحوم ڈاکٹر انور سجاد بھی اپنی موجودگی کا بَہ خوبی احساس دلانے میں کام یاب رہے ہیں۔
بَہ حیثیت مجموعی زرد دوپہر اور تپش لاہور اور کراچی کی سیاست کے معروض میں ہمارے سیاسی نظام کے کھوکھلے پن اور نظریاتی کنگالی کو مہارت سے اجاگر کرنے میں خاصے کام یاب رہے ہیں۔ بد احوالی سے ہماری قومی سیاست کے گلیارے آج بھی انھی سیاسی و غیر سیاسی آلائشوں سے لتھڑے ہوئے ہیں جن کی عکاسی ان ڈراموں میں دھائیوں پہلے کی گئی ہے۔