پی ٹی وی ڈراما : ایک تہذیب جو دم توڑ گئی
از، ضیاء الدین بابا
داستان ، ناول، افسانہ اور ڈراما کہانی کی مختلف اقسام ہیں لیکن ڈراما بنیادی طور پر کہانی کی جدید شکل ہے جو واقعات اور کرداروں کے باہمی ربط سے تشکیل پاتی ہے۔ جس طرح ایک کہانی دوسری کہانی سے فنی اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کا زندگی کے ساتھ رشتہ بھی جداگانہ ہوتا ہے۔ ڈراما نگار کو اپنی تخلیق میں ہر مزاج کے ناظر کے ذوق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے موضوعات کی طرف مائل ہونا پڑتا ہے جو اپنے تاثر کے اعتبار سے نہ صرف ہمہ گیر بلکہ اجتماعی مذاق ، روایت اور جذبے کی ترجمانی اور عکاسی بھی کرتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرامے کو جمہوری فن کہا جاتا ہے۔
ادب کی دیگر اصناف کے مقابلے میں ڈراما ایک ایسی فنی صنف اور تخلیقی عمل ہے جس کا عوام کے ساتھ براہِ راست اور فوری نوعیت کا تعلق ہے۔ شاعری اور دیگر اصنافِ ادب ابلاغ اور تفہیم کے لیے انتظار کر سکتی ہیں ، مگر ڈراما انتظار کا محتاج نہیں۔ اسٹیج یا ٹیلی ویژن کے تماشائی جس بھی سطح کی ذہانت اور سماجی شعور کے حامل ہوں فوری طور پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ ناول اور افسانہ میں ردعمل کی حیثیت انفرادی ہوتی ہے جبکہ ڈرامے میں اجتماعی۔ ڈرامے میں ایک کا احتجاج بہت سوں کا احتجاج بن جاتا ہے اور ان کی پسند یا نا پسند کے فوری فیصلے کی وجہ سے کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ بھی جلد ہو جاتا ہے۔ شاعر اور ناول نگار اپنے قارئین سے اغماض برت سکتا ہے لیکن ڈراما نگار اپنے ناظرین سے منہ نہیں موڑ سکتا۔ برنارڈ شا (Bernard Shaw) نے کہا تھا کہ ”تھیٹر ڈرامے کی بدولت زندہ ہے نہ کہ ڈراما تھیٹر کی بدولت۔ وہ اسٹیج کے سہارے سے نہیں بلکہ اس قوت سے زندہ اور قائم ہے جو اس کی فطرت کا جزوِ لازم ہے”۔
ادب تخلیقی تجربے کے اظہار اور ابلاغ کا دوسرا نام ہے۔ جس میں لفظوں کی ایک خاص ترتیب و تنظیم سے کام لیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ڈراما بھی ادب ہے اور وہ الفاظ کی موزوں ترتیب و تنظیم کے ساتھ تخلیقی تجربے کے اظہار کی ایک صورت ہے۔ الفاظ کی اس ترتیب و تنظیم کا مقصد یہ ہے کہ انہیں ایک یا ایک سے زیادہ کردار کیمرے کے سامنے یا اسٹیج پر ادا کرنے پڑیںگے۔ اس طرح کی ادائی سے ایک تخلیقی تجربہ دوسروں تک پہنچے گا۔ اس مقصد کی تکمیل میں الفاظ ابلاغ کا سب سے اہم وسیلہ ہیں۔ اس لیے ان کی حیثیت محض ثانوی یا جزوی ہونے کے بجائے بنیادی ہے۔ یعنی ڈرامے کی طلسماتی تشکیل و تعمیر لفظوں کی ایک مخصوص ترتیب و تنظیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ڈبلیو بی ییٹس (W.B. Yeats) کے نزدیک ” ڈرامے کو عظمت لفظوں کی بدولت ملی ہے اور اب بھی اسے شاہانہ مقام صرف لفظوں ہی کی بدولت مل سکتا ہے ”۔
جہاں تک ٹیلی ویژن کے ڈرامے کا تعلق ہے اگر ایک ادیب لکھے گا اور ایک اچھا ہدایت کار اس کو ڈرامے کی شکل میں پیش کرے گا تو یہ آرٹ کا ایک ایسا حصہ بن جاتا ہے جو وابستہ ادب ہے ۔ ٹیلی پلے وہی ادیب لکھے گا جو ٹیلی ویژن ڈرامے کی فنی ضروریات سے واقف ہو گا اور اس کو ایک تخلیقی کام سمجھے گا۔ ٹی وی ڈراما اپنی ہئیت میں جامعیت کا حامل ہے۔ جب لکھے ہوئے لفط ادا کیے جاتے ہیں توڈرامے کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہ ٹیلی ویژن ڈرامے کی زندگی سے قریب تر صورت ہے۔ ٹیلی ویژن سکرین تھیٹر اور ریڈیو کے مقابلے میں ڈرامے کے ابلاغ کا زیادہ موثر ذریعہ ہے۔ لہٰذا یہ کہنا صحیح ہو گا کہ تھیٹر کے کمزور تر ہونے کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن نے نہ صرف ڈرامے کو زندہ رکھا بلکہ ڈرامے کو پہچان بھی دی ہے۔
ٹیلی ویژن کی مقبولیت نے اگرچہ ریڈیو کے چراغ گو گہنا دیا ہے مگر ریڈیائی ڈرامے کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ آج تک ٹیلی ویژن کے لیے ڈراما لکھ رہے ہیں یا ڈرامے کی ترقی کے لیے بحیثیت پروڈیوسر یا ہدایت کار کام کر رہے ہیں ان کی تربیت کی پہلی اکیڈمی ریڈیو ہی تھا۔ ٹیلی ویژن کی آمد کے بعد اسے دیگر ذرائع ابلاغ پر فوقیت اس لیے حاصل ہوئی کہ اس ذریعہ ابلاغ نے وہ تمام کام با حسن و خوبی انجام دیے جو آج کی ضرورت ہیں۔ تھیٹر دنیا میں پہلا بصری ذریعہ ابلاغ ضرور تھا مگر اس نے صرف ڈرامے کے ذریعے انسانیت اور انسانی کرداروں کی کامیڈی ، ٹریجڈی اور انسانوں کی شیطانی اور رحمانی کیفیات کی ترجمانی کی۔ تھیٹر نے موسیقی اور دوسرے تفریحی ذرائع سے لوگوں کو محظوظ کیا۔ مگر ٹی وی نے پوری دنیا کو سمیٹ کر سامنے لا کھڑا کر دیا۔ یوں اس میڈیا کے ذریعہ سے زبردست ثقافتی تبدیلی آئی ہے۔بقول حمید کاشمیری :
” ٹیلی ویژن نے دنیا کے جسم سے کلچروں کی چھوٹی چھوٹی اجرکیں اتار کر اسے ایک برادری کی بڑی چادر میں لپیٹ کر فاصلوں کو سمیٹنا شروع کر دیا ہے” (۱ )
پاکستان میں ٹیلی ویژن کا آغاز ۲۶ نومبر ۱۹۶۴ء کو لاہور میں ہوا۔ ٹیلی ویژن کی آمد کے ساتھ ہی ٹی وی ڈراما وجود میں آیا۔ حکومتی کنٹرول کی وجہ سے پی ٹی وی نے خبر اور نظر کے معاملے میں اپنے ناظرین کو ہمیشہ پیچھے رکھا اور ان تک صرف شاہ پسند اطلاعات پہنچائیں۔ مگر ٹیلی ویژن کے فن کاروں نے اس خلاکو ڈراموں کے ذریعے پورا کیا۔ اس لیے پاکستان میں ٹیلی ویژن کا کردار خبر سے زیادہ ڈرامے کی ترویج و ترقی کا ہے۔ حمید کاشمیری اپنے مضمون میں ٹی وی کے آغاز کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ تحریر کرتے ہیں ، لکھتے ہیں :
”پاکستان میں جب ٹیلی ویژن آیا تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بڑی بی نے کہا کہ یہ شیطان تو اب گھر آیا ہے اس کے بعد انہوں نے لاحول پڑھی لیکن یہ شیطان گھر سے نہیں نکلا اور اس کے قیام کی جڑیں پھیلتی اور پھولتی گئیں اور جب یہ شیطان یا ڈیول بکس گھس آیا تو اس کے اندر کباڑی کی دکان یا مداری کے پٹارے کی طرح کئی اور چیزیں بھی گھس آئی تھیں۔ جن میں ایک ڈراما بھی تھا۔ اب اس میں ہر چیز باہر نکال کر پھینک دیجیے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن ڈراما کی جڑ بہت مضبوط ہے اسے کسی صورت نکالا نہیں جا سکتا۔ ٹیلی ویژن کی آبرو ڈراما ہی سے ہے ”۔ (۲)
ٹیلی ویژن پر پیش کیے جانے والے ڈرامے اپنے اسلوب کے اعتبار سے ریڈیائی ڈراموں سے مختلف اور کسی حد تک اسٹیج ڈراموں سے مماثل ہوتے ہیں۔ ریڈیو میں محض برقی لہروں کے ذریعے آواز نشر ہوتی ہے اور یہ عمل براڈ کاسٹ کہلاتا ہے۔ ٹیلی ویژن میں برقی لہروں کے ذریعے آواز اور تصویر دونوں کو نشر کرنا ممکن ہے۔ اس لیے یہ نشری عمل ٹیلی کاسٹ کہلاتا ہے۔ اس لحاظ سے ٹیلی ویژن ڈراما ریڈیو سے زیادہ مکمل اور مؤثر ہے۔
پاکستان میں آج تک ٹیلی ویژن ڈرامے کی تکنیک یا فن پر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔ جب کہ یورپ اور امریکہ میں آج بھی ٹیلی ویژن ڈرامے کو سمجھنے کے لیے بڑی عرق ریزی کے ساتھ تحقیق ہو رہی ہے۔ مغرب میں ڈراما دیکھنے والے فلم اور ٹیلی ویژن ڈرامے کو اس ڈرامائی ادب کے تسلسل میں دیکھتے ہیں جسے یونان میں یور پیڈیز، سوفو کلینر ، جرمنی کے گوئٹے، روس کے چیخوف اور انگلستان کے شیکسپیئر نے تخلیق کیا۔ ہمارے ہاں بھی آج ٹیلی ویژن ڈرامے کی کڑیاں کالی داس کے ”شکنتلا” ، واجد علی شاہ کے ”رہس ”، امانت علی کی ”اندرسبھا” اور امتیاز علی تاج کے ”انار کلی ” سے جوڑی جاتی ہیں۔ پاکستان میں چھپنے والے معدود ے چند ادبی جرائد میں کبھی کبھار ہی کوئی مضمون پڑھنے کو ملے تو ملے اکثر ادیب ٹی وی ڈرامے کو ادب کا حصہ ہی نہیں سمجھتے۔ حالانکہ ہمارے ٹیلی ویژن ڈرامے ادیبوں نے لکھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اصغر ندیم سیّد یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ ٹی وی ڈراما ادب نہیں ہے۔
”اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ڈراما آرٹ ہے یا نہیں تو اس کے متعلق میں کہوں گا کہ اگر بڑا ادیب لکھے گا تو یہ آرٹ ہی ہو گا اگر غیر ادیب لکھے گا تو وہ آرٹ نہیں ہو گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کون لکھ رہا ہے۔ ایک آدمی افسانہ بھی تو لکھتا ہے سارا افسانہ کون سا ادب ہے؟ بتائیے مجھے کہ تنقید ساری دنیا لکھتی ہے ساری تنقید کون سا ادب ہے؟ بے شمار ہے جو ادب نہیں ہو سکتا، ساری دنیا شاعری کر رہی ہے ہر شاعری کو شاعری تو نہیں کہیں گے اسی طرح ہر ڈرامے کو ادب تو نہیںکہیں گے ۔ اگر ادیب لکھ رہا ہے تو ڈراما ادب ہو گا۔ اگر غیر ادیب لکھے گا تو اسے ڈراما نہیں کہیں گے ”۔ (۳ )
ٹیلی ویژن سکرین پر ناظر کی سماعت اور بصارت کو متوجہ کر کے کہانی بیان کرنے کا عمل تحریر کی نسبت زیادہ مئوثر طریقے سے سر انجام دیا جاتا ہے۔ اس لیے سکرین پر جو ادب تخلیق ہوتا ہے وہ کسی طور پر بھی اس سے کم درجے کا نہیں ہوتا جو صفحہ قرطاس پر تحریر کیا جاتا ہے۔ ٹیلی ویژن ڈراما ریڈیائی ڈرامے کے برعکس صرف سماعت کے لیے نہیں بلکہ بصارت اور سماعت دونوں کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی اس میں آواز اور تصویر دونو ں کو برقی عکاسی کے ذریعے ناظرین تک منتقل کیا جاتا ہے۔ یہاں اسٹیج ڈرامے کی طرح الفاظ کے علاوہ عمل اور حرکات بھی اپنا مقام رکھتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ زندگی جتنے حقیقی اور فطری انداز میں ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں جھلکتی ہے اتنی ریڈیو کے ڈراموں میں سنائی نہیں دیتی۔ اسٹیج اور ٹیلی ویژن ڈراما کی تکنیک اور سہولتوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ اسٹیج ڈرامے پر ادا کار ناظرین کے بالکل سامنے ہوتا ہے۔ اس کے ہر عمل یعنی حرکات و سکنات اور بول چال کے ناظرین عینی شاہد ہوتے ہیں۔ جبکہ ٹیلی ویژن ڈرامے میں اگر اداکار سے غلطی ہو جائے یا مکالمہ غلط ادا ہو جائے تو اس کو کیمرے سے نکالا جا سکتا ہے۔ ٹی وی پر ہر چیز کیمرے کے کنٹرول میں ہے۔ ناظرین تک وہی چیز بہت بعد میں پہنچتی ہے۔ یعنی اسٹیج کی نسبت ٹی وی ڈرامے میں غلطی کا ازالہ ہو جاتا ہے۔
ٹیلی ویژن ڈراما تکنیک کے اعتبار سے فلم کے بے حد قریب ہے۔ اس لیے یہاں فلم کے بہت سے فنی حربوں سے کام لیا جاتا ہے۔ مثلاً کلوز اپ، ایڈیٹنگ، کٹ اور مکس کرنے کے سب طریقے فلم ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ تاہم دونوں کی ترجیحات مختلف ہیں۔ فلم میں عشقیہ گانے اور ڈانس شامل ہوتے ہیں جبکہ ڈرامے کا ماحول فیملی کے لیے خوشگوار ہوتا ہے۔
فلم پورے تین گھنٹے کے دورانیے پر محیط ہوتی ہے جبکہ ٹی وی ڈرامے کا دورانیہ پچیس سے نوے منٹ تک کا ہوتا ہے۔ ڈرامے کی ایک قسم تو ہفتوں مختلف اقساط کی صورت میں چلتی ہے۔ عتیق احمد اپنے مضمون ”ٹی وی ڈراما ایک تخلیقی فن ”میں لکھتے ہیں ۔
” سکرین پر کہانی بیان کرنے والے کو ایک خاص وقت کی پابندی کے اندر رہنا ہوتا ہے۔ یہ ٹائم فریم مختصر یا طویل کیوں نہ ہو اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ مبہم غیر واضح اور غیر معروضی منظر کشی کی سمت نکل جائے اس خصوصیت کی بناء پر اسے Temporal یا زمانی فن گردانا گیا ہے ” (۴ )
ٹیلی ویژن ڈرامے کے فنی لوازمات اور اجزائے ترکیبی وہی ہیں جو ڈرامے کے بنیادی عناصر ہیں۔ یعنی موضوع کا انتخاب، پلاٹ کی ترتیب ، واقعات کا باہمی ربط، کشمکش، تصادم، نقطہ عروج ، سلجھائو اور انجام وغیرہ ۔ تاہم کیمرے کی موجودگی ٹیلی ویژن ڈرامے کی چند علیحدہ فنی ضروریات کو بھی جنم دیتی ہے۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
ڈراما نگار ایسا موضوع چنتا ہے جس کی ڈرامائی تشکیل ، ترتیب اور پیش کش میں عملی دشواریاں نہ ہوں۔ تاہم جدید تر ٹیلی ویژن ڈراما نگاری کا یہ مسئلہ نہیں ہے۔ کیونکہ جدید آلات اور وسائل نے یہ تمام مسائل حل کر دیئے ہیں۔ اب کوئی بھی موضوع ڈراما کا موضوع بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل ٹیلی ویژن ڈراما موضوعات کے اعتبار سے خاص تنوع رکھتاہے۔ تاریخی، معاشرتی، سیاسی، انقلابی، مزاحیہ، سنجیدہ اور رومانی و حزنیہ نوعیت کے ڈرامے اکثر و بیشتر پیش کیے جاتے ہیں۔ موضوع کے علاوہ ٹیلی ویژن ڈراما کے پلاٹ پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے۔ واقعات کی اٹھان منطقی اور فطری انداز میں ہونی چاہیے، اگر کسی منظر میں تبدیلی مقصود ہوتو یہ تبدیلی قرینِ قیاس ہونی چاہیے۔
”ایک جملے سے آغاز کر کے سکرین پلے کو ایک سو بیس صفحات پر پھیلا کر لکھ دینا ایک منطقی اور منظم طریقہ ہے ۔ اس میں ایک واقعہ منطقی طور پر دوسرے کے نتیجے میں سامنے آتا ہے۔ جو ایک بالکل محفوظ طریقہ ہے”۔(۵)
ٹیلی ویژن پر ڈراما نگار کہانی کے واقعات کو اپنے تخیل کی آمیزش سے اس انداز سے پیش کرتا ہے کہ یہ انداز Fictional Representation کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ تجسس ، تذبذب، کشمکش اورتصادم ٹی وی کے لیے بہت اہم عناصر ہیں۔ کیونکہ اسی کشمکش اور تذبذب کے نتیجے میں جنم لینے والا نقطئہ عروج اپنی شدت کی وجہ سے ڈرامے کو فنی بلندیوں پر لے جاتا ہے۔ اس کے علاوہ نقطئہ انجام بھی خصوصی توجہ اور مہارت کا متقاضی ہے۔ تاکہ جس انداز میں واقعات سامنے آئیں انجام ان سب کا منطقی معلوم ہو۔ اکثر ٹی وی ڈرامے نقطہ عروج کے فوراً بعد ختم ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ناظرین کی بڑی تعداد ان ڈراموں کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہے اور بعض اوقات یہ انجام ذو معنی بھی بن جاتا ہے۔
ٹیلی ویژن پر پیش کیے جانے والے ڈرامے تین اقسام میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔ پہلی انفرادی ڈراما، دوسری ڈراما سیریز اور تیسری ڈراما سیریل۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین اور ناقدین ڈراموں کی ان اقسام سے اچھی طرح واقف ہیں۔ معروف براڈ کاسٹر اور ڈراما نگار آغا ناصر نے بھی اپنی یاداشتوں میں ڈرامے کی انہی اقسام کا ذکر کیا ہے۔ جبکہ مرزا ادیب نے مختلف اقساط پر مبنی ڈرامہ سیریلز کو ڈراما سیریز قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”ایک سیریز کے سلسلہ وار کھیلوں کی مجموعی صورت ایک مکمل فلم بن جاتی ہے۔ فلم تو ایک ہی وقت میں دکھائی جاتی ہے لیکن ٹی وی ڈراما سیریز کے سلسلہ وار کھیل مقررہ دن کے مقررہ وقت پر دکھائے جاتے ہیں۔ بعض ڈراما سیریز تین ماہ کے لیے ہوتی ہیں اور بعض اس مدت سے بھی زیادہ ۔۔۔۔۔۔ اس میں ایک کہانی ہوتی ہے جس کے اہم واقعے کو اس کے متصلہ کرداروں کے ساتھ ایک صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اصطلاحاً یہ ایک قسط کہانی ہے اور اس قسط کا باقی تمام اقساط سے تعلق ہوتا ہے مگر اسے ہم مکمل ڈراما نہیں کہہ سکتے ”۔(۶)
اس بحث سے قطع نظر ڈرامے کی اقسام میں آغا ناصر کی تقسیم درست ہے۔ انفرادی ڈراما اپنے طور پر ایک مکمل ڈراما ہوتا ہے۔ یعنی گزشتہ سے پیوستہ یا آئندہ سے وابستہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک مکمل کہانی ہوتی ہے۔ جس کا آغاز ، درمیان اور پھر اختتام ہوتا ہے۔ ایک مخصوص موضوع اور کردار ہوتے ہیں۔ ڈرامائی کشمکش کے ساتھ کہانی آگے بڑھتی ہے اور ایک کلائمکس پر جا کر ختم ہو جاتی ہے۔ اس قسم کے ڈراموں میں آج کل عموماً طویل دورانیہ کے کھیل شامل ہوتے ہیں۔ ایک وقت میں ایک ہی کہانی اور ایک ہی موضوع پر مشتمل انفرادی ڈراموں کے لیے ”لانگ پلے ” یا طویل دورانیہ کے کھیل کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔ ان میں ہر طرح کے موضوع کو جگہ دی جاتی ہے۔
ڈراموں کی دوسری قسم ” سیریز ” کہلاتی ہے۔ ڈراما سیریز میں بھی پیش کیے جانے والے کھیل اپنے طور پر مکمل ہوتے ہیں اور انفرادی ڈرامے کی نہج پر ان کا تعلق بھی گزشتہ یا آئندہ سے وابستہ نہیں ہوتا۔ انفرادی کھیل اور سیریز میں فرق یہ ہے کہ سیریز میں تسلسل قائم رکھنے کی غرض سے کردار ، مقامات یا موضوع وغیرہ کی مدد سے ایک قسط کو دوسری قسط سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔ یعنی کہانیاں الگ الگ ہوتی ہیں مگر چند مستقل کردار ہوتے ہیں۔ جو اِن کہانیوں کو کسی حد تک ایک دوسرے سے جوڑ دیتے ہیں۔
ڈرامائی پروگراموں کی تیسری قسم” سیریل ” ہے۔ یعنی ایک طویل کہانی جو قسط وار ڈرامائی صورت میں پیش کی جاتی ہے۔ ڈراما سیریل میں مستقل کردار ہوتے ہیں۔ جو تیرہ یا چھبیس قسطوں میں اداکاری کرتے رہتے ہیں۔ اس میں چار پانچ سیٹ بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ا س طرح ایک سیٹ بنا کر اسے کئی بار استعمال کیا جاتا ہے یہی صورت حال بیرونی عکس بندی، ملبوسات اور استعمال کی چیزوں کی بھی ہے۔ آج کل جدید ٹیلی ویژن ڈرامے کی ایک نئی قسم جو چھبیس سے بھی زیادہ اقساط پر مشتمل ہوتی ہے۔ جس کے لیے Soap کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ انڈین ٹی وی چینلوں سے نقل کی گئی ہے۔ جس کے بارے میں آغا ناصر لکھتے ہیں: ”عام طور پر پروگراموں کی وہ قسم جسے (Soapopera) کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے پروڈیوس ہوتی ہے اور ایسی کہانیاں تخلیق کی جاتی ہیں جو پچاس ، سو اور کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ قسطوں پر محیط ہوتی ہے”(۷)ڈرامائی پروگراموں کی اس قسم میں کبھی کبھار تین سے چھ اقساط پر مشتمل ڈراما سیریلز بھی پیش کی جاتی ہیں۔ جن کو mini serials یعنی ”مختصر ڈراما سیریلز ” کہا جا سکتا ہے۔ جس طرح کشمیر کے موضوع پر بختیار احمد کا ڈراما ”مقدمہ کشمیر ” ہے۔
ٹیلی پلے یا سکرین پلے لکھنے والے کا بڑا مقصد پڑھنے یا دیکھنے والے کے جذبات کو ابھارنا ہوتا ہے اگر سکرین پلے پڑھ کر اداکار ، ہدایات کار اور پیش کار یا ان کے معاون خوشی، غم، خوف یا جذباتیت کے تجربے سے نہ گزریں تو وہ سکرین پلے کبھی بھی ڈراما دیکھنے والوں تک نہیں پہنچ سکے گا۔ دوسرے الفاظ میں ڈراما نگار کے لیے قاری اور ناظر کا لفظ ایک ہی مطلب رکھتا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ایک اچھا مسودہ حاصل کرنا ڈرامے کی پچاس فیصد کامیابی ہے۔ مسودے کے بعد دوسرے نمبر پر اداکاروں کا انتخاب ہے۔
پاکستان ٹیلی ویژن نے آغاز میں ڈراموں کے مسودے تین ذرائع سے حاصل کیے۔ ٹیلی ویژن کے آغاز اور اس کے تکنیکی پہلوئوں سے عدم واقفیت کی بناء پر مسودوں کے حصول میں دشواری پیش آئی۔ پہلا وسیلہ ان ڈراموں کے مسودے تھے جو اسٹیج کے لیے لکھے گئے تھے ، دوسرا ذریعہ ریڈیو کے لیے لکھے گئے ڈرامے تھے جن کو شروع میں ٹی وی تکنیک کے مطابق معمولی ردوبدل کے ساتھ ٹیلی ویژن کے لیے اپنایا گیا، تیسرا اور سب سے بڑا ذریعہ جس نے ٹی وی ڈرامے کو دنیا کے بہترین ڈراموں کی صف میں کھڑا کیا ہے وہ معروف ادیبوں سے ڈرامے لکھوانے کا کام ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ان سے لکھوانے کی بجائے انہیں ڈرامے لکھنے کی دعوت دی گئی۔(۸)ادیبوں کے لکھے ہوئے ڈراموں ہی نے ٹیلی ویژن کو بام عروج پر پہنچایا۔ اسی پس منظر میں آغا ناصر لکھتے ہیں:
”بی بی سی کے سینئر پروڈیوسر نے مجھ سے پوچھا آپ کے اسٹیشن سے بڑے اعلیٰ معیار کے ڈرامے پیش کیے جاتے ہیں جو بے حد مقبول ہیں آپ ان ڈراموں کے مسودے کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟ میں نے انہیں بتایا کہ یہ ڈرامے ملک کے مشہور مصنفین کی تخلیقات ہیں جن کو ہم ٹیلی ویژن کے لیے اپناتے ہیں۔۔۔۔۔ میں نے انہیں بتایا تو انہوں نے کہا آپ خوش قسمت ہیں ورنہ ہمارے ہاں تو بڑے ادیب اور دانش ور ٹیلی ویژن کے لیے لکھنے پر رضامند ہی نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں ٹیلی ویژن اور ریڈیو کی تحریروں کے لیے hack writing کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور صرف ہیک رائٹرز ہی ہمارے ہاں ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ بڑے ادیبوں اور شاعروں کی تحریریں ہماری قسمت میں کہاں”۔(۹)
ٹیلی ویژن ڈراما آرٹ ہے اور یہ ادب کا حصہ ہونے کی وجہ سے دیگر اصناف کے مقابلے میں کسی طرح بھی کم اہم نہیں ہے۔ ڈراما تھیٹر ، ریڈیو کے بعد ٹیلی ویژن پر بھی سب سے بڑا ذریعہ ابلاغ ہے۔ اس لیے یہ محض ایک تفریح ہی نہیں بلکہ اس میں فکر اور تعلیم کے عنصر کی غیر محسوس آمیزش بھی ہوتی ہے۔ ٹیلی ویژن ڈراما عوام کے فکر و مزاج پر گہرے اور دیرپا اثرات چھوڑتا ہے۔ اگر ایک فرد ٹیلی ویژن سیٹ کے سامنے روزانہ ایک گھنٹہ سے تین گھنٹے تک صرف کرتا ہے تو اس کی معاشرتی زندگی کے رویوں میں تبدیلی ضرور آتی ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ٹیلی ویژن پر تفریح کے حصول کے لیے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ڈرامائی پروگرام ہی ہیں۔ مجموعی طور پر طبقاتی کشمکش ، جاگیردارانہ نظام کے خلاف جدو جہد، ثقافتی اور سماجی زندگی کے علاوہ رسم و رواج اور رہن سہن پر مشتمل ڈراموں کے موضوعات پسند کیے جاتے ہیں، خواتین میں بنائو سنگھار ، لباس کی تراش خراش، گھر کی سجاوٹ، اُٹھنے بیٹھنے اور گفت و شنید کے مناظر اور موضوعات کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ ان موضوعات کے مقابلے میں تاریخ ، قومی مزاج رکھنے والے اور خالص اخلاقی نصیحت پر مبنی ڈرامے زیادہ پسند نہیں کیے جاتے ۔ ناظرین میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ڈرامے سے ملنے والے شعور کو اپنے تک محدود نہیں رکھتے بلکہ اسے دوسروں تک بھی پہنچاتے ہیں۔ لگ بھگ ”اسی فیصد ناظرین ایسے ہیں جو ڈرامے سے ملنے والے پیغام یا سبق کو آگے بھی بڑھاتے ہیں ” (۱۰)
پاکستان میں ٹیلی ویژن ڈرامے نے جس فکر اور تعلیم کو معاشرے میں پھیلایا ہے اس میں پہلا احساس جاگیرداریت کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ جبکہ دوسرا پیغام جس میں ناظرین متاثر ہوتے ہیں وہ سیاسی نظام کی تبدیلی کا احساس ہے۔ تیسرا اور سب سے اہم احساس جو ناظرین تک منتقل ہوا وہ تعلیم کی اہمیت کا ہے۔ مختصر یہ کہ ” ۶۲ فیصد ناظرین نے ٹیلی ویژن ڈرامے سے اس اہم قومی ضرورت کا ادراک پانے کا اعتراف کیا ہے”(۱۱)
اس کے علاوہ خواتین کا احترام ، سرکاری محکمہ جات اور دفاتر کی خرابیوں ، بیوروکریسی اور افسر شاہی کا منافقانہ رویہ بھی ناظرین کی سمجھ اور تفہیم کا باعث بنا ہے۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن چونکہ سرکاری کنٹرول میں رہا ہے اس لئے گروہی اور فرقہ پرستی سے پاک سیاسی و سماجی شعور کے حامل موضوعات کو اہمیت نہ مل سکی۔ سیاستدانوں، ملٹری اور سول بیوروکریسی کی عوام دشمن پالیسیوں پر تنقیدی موضوعات کوڈرامے کے لیے شجرِ ممنوعہ قرار دیا جا چکا ہے۔ ٹیلی ویژن کے ان درج بالا اثرات اور اس کی مقبولیت کے حوالہ سے نصرت ٹھاکر لکھتے ہیں:
”ٹیلی ویژن نے ڈرامے کو عوامی سطح پر متعارف کرایا ہے اب تو دیہات میں بھی جہاں اسٹیج کا کوئی تصور نہیں وہاں بھی ٹی وی ڈرامے کا انتظار کیا جاتا ہے ” (۱۲)
ڈراما ٹیلی ویژن نشریات کا سب سے مئوثر حصہ ہے۔ ٹیلی ویژن کی تکنیکی ترقی کے ساتھ ساتھ ڈراما بھی ترقی کر رہا ہے۔ موضوعات کے اعتبار سے ڈرامے نے ساری دنیا میں نام کمایا ہے اور ایک دور ایسا بھی آیا کہ پاکستان میں ڈراما ٹیلی ویژن کی آبرو بن گیا ۔ موضوعاتی اعتبار سے ہم ٹیلی ویژن ڈرامے کو چار مختلف ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ تقسیم کے اس اصول سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے۔ مگر تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ یہی زمانہ معتبر حوالہ ٹھہرے گا۔ ہر دور دوسرے سے منفرد خصوصیات اور تبدیلیوں کا حامل ہے پہلا دور ابتدائی یعنی نومبر ۱۹۶۴ء سے ۱۹۷۰ء تک کا ہے۔ دوسرا دور ۱۹۷۰ء سے ۱۹۸۰ئ، تیسرا دور ۱۹۸۰ء تا ۱۹۹۰ء تک چوتھا اور آخری دور ۲۰۰۰ء اور اس کے بعد تاحال ہے۔
ٹیلی ویژن کا پہلا دور ڈرامے کے حوالے سے اتنا ہی اہم ہے۔ جتنا خود ٹیلی ویژن کی نشریات۔ ظاہر ہے جب کسی نئے ادارے یا تحریک کا آغاز کیا جاتا ہے تو اس کی جو روایات ابتداء میں قائم ہوتی ہیں۔ وہی آگے چل کر اس کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کی پہچان بھی بن جاتی ہیں یہی حال ٹیلی ویژن ڈرامے کا بھی ہے۔ سب سے بڑی روایت اور پہچان جو پاکستان ٹیلی ویژن کو دنیا بھر کے ٹیلی ویژن اداروں سے ممتاز کرتی ہے۔ وہ ٹیلی ویژن کے ساتھ پڑھے لکھے لوگوں اور ادیبوں کا وابستگی ہے۔ بہت سارے ممالک میں ٹی وی ڈراما ادیبوں کی توجہ اس لیے حاصل نہ کر سکا کہ وہ اسے ادب کا حصہ ہی نہیں سمجھتے جبکہ پاکستان میں ممتاز ادیبوں اور کہانی نویسوں نے ریڈیوکے بعد ٹیلی ویژن کے لیے لکھ کر ڈرامے کو بڑے اور عالمی ادب کا حصہ بنا دیا ہے۔
ٹیلی ویژن کی آمد کے بعد اس کی تکنیک کو سامنے رکھ کر ایک دم سے ڈراما لکھنا یا بنانا مشکل تھا۔ شروع میں اسٹیج کے لیے لکھے گئے ڈراموں کو ٹی وی کی ضرورت کے مطابق ڈھال لیا جاتا تھا۔ ” یہ ڈرامے تکنیک کے اعتبار سے اسٹیج ڈراموں سے قریب ہوتے تھے”۔ (۱۳) ریڈیو بھی تکنیک کے اعتبار سے مختلف تھا۔ تاہم ریڈیو سے پیش کئے گئے ڈراموں کو بھی ٹیلی ویژن پر پیش کیا جانے لگا۔ ریڈیو کے لئے لکھے گئے دو بڑے ڈرامے ”میراث ” اور ” پرانے محل ”کو ٹی وی کے لئے پروڈیوس کرنے کا حوالہ آغا ناصر کی یاداشتوں میں بھی ملتا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے شروع میں جن لوگوں نے لکھا یا جن کی کہانیوں کو ڈرامے کا حصہ بنایا گیا ان میں امتیاز علی تاج، رفیع پیرزادہ ، ضیاء سرحدی، جاوید اقبال، راجہ فاروق علی خان، انتظار حسین ، عابد علی عابد، حکیم احمد شجاع، صفدر میر، سلیم احمد اور ریاض فرشوری جیسے نامور ادیب شامل ہیں۔ بعد میں پی ٹی وی لاہور سینٹر سے ادیبوں کی ایک نئی ٹیم شامل ہوئی جن میں اشفاق احمد، بانو قدسیہ، انور سجاد، کمال احمد رضوی، نصیر انور، منو بھائی، اطہر شاہ خان، آغا ناصر، سلیم چشتی ، ذاکر حسین، مختار صدیقی وغیرہ شامل ہیں۔
فنی حوالے سے آغاز کی نشریات بلیک اینڈ وائٹ ہونے کے ساتھ ساتھ لائیو (Live) یعنی براہ راست ہوتی تھیں۔ لائیو نشریات میں ڈرامے پروڈیوس کرنا بہت مشکل کام تھا۔ ہجرت کے واقعات ہوں یا سماجی تجربات، شاعری، افسانے اور ناول کے ساتھ ساتھ ڈرامے نے بھی ان موضوعات کو جگہ دی۔ اس کے علاوہ سیاسی و سماجی مسائل کو بھی ڈرامے میں جگہ دی جاتی ہے۔ پھر جنگ ۱۹۶۵ء بھی ایک بڑا اور نیا تجربہ تھا۔ جس کو موضوع بنایا گیا۔ پہلے دور میں اردو کے مشہور ادیبوں سے ڈرامے لکھوانے کے ساتھ ساتھ ان کی کہانیوں اور ناولوں کو بھی ڈرمائی تشکیل کے بعد پیش کیا گیا۔ اس دور میں انفرادی ڈرامے زیادہ لکھے گئے جبکہ سیریل کم پیش کی گئیں۔ البتہ چند مزاحیہ سیریز ایسی بھی ہیں جن کو کافی شہرت ملی۔
ٹیلی ویژن پر پیش کیا جانے والا سب سے پہلا ڈراما ”نذرانہ ” تھا جسے نجمہ فاروقی نے لکھا اور فضل کمال نے پیش کیا۔ اسی دور میں ایک اور مشہور ڈراما ”کھنڈر ” پیش کیا گیا۔ مختار صدیقی کے لکھے اس کھیل کو آغا ناصر نے پیش کیا۔ اس ڈرامے میں نیر کمال اور طارق عزیز نے اداکاری کی۔ کراچی سے آغا ناصر نے ”ضرورت رشتہ ” اور خواجہ صاحب کا ”تعلیم بالغاں ” پیش کرنے کے علاوہ فضل کمال کے ساتھ مل کر سنجیدہ موضوعات پر ”سٹوڈیو تھیٹر ” اور ”آج کے کھیل ” کے عنوان سے ہلکے پھلکے مزاحیہ اور سوشل کھیل پیش کیے۔
پہلے دور میں اشفاق احمد نے جو ڈراما سیریز ٹیلی ویژن کے لیے لکھیں ان میں ”یقین نہیںآتا ”، ”کاروان سرائے ” اور پنجابی سیریز ”ٹاہلی تھلے ” شامل ہیں۔ جبکہ بانو قدسیہ نے ”گوشئہ عافیت ”، ”سہارے ”، ”صبح کا تارا”، ”لب پہ آتی ہے دعا ”، ” آدھی بات ”، ” میری ڈائری ” اور ” سراب ” لکھے۔ اس طرح سلیم احمد کے ”عکس اور آئینے ”، ”مجرم”، ”ممد بھائی ”، ”شریف آدمی ” اور ”جزاء و سزا ” شوکت صدیقی کے ”چور دروازہ ” اور ”چار بیگھازمین ” ، شہزاد احمد کے ”بالیاں ” ، ”مہرباں کیسے کیسے ” اور ”آغوش ”، احمد ندیم قاسمی کا ” گھر سے گھر تک ” ، خدیجہ مستور کا ”برقعہ ”، راحیلہ مسعود کا ”گڑیا گھر ”، انور سجاد کا ” ایک حکایت ”، انصار ناصری کا ”طبیب ”، اے حمید کا ”جہاں برف گری ہے ” جیسے ڈرامے پیش کیے گئے۔ ”منٹو راما ” کے عنوان سے سعادت حسن منٹو کی کہانیاں پیش کی گئیں۔ ۱۹۶۸ء میں غالب کے جشن صد سالہ کے سلسلے میں مختلف ڈرامے لکھے گئے، جس میں ڈاکٹر عالیہ امام کا ” میں کون اے ہم نفسو ” اور اشفاق احمد کا ” کوئی نہ ادا سنج ملا ” مشہور ہیں۔ ٹیلی ویژن کے اس ابتدائی عہد میں حفیظ جاوید نے جولیس سیزر کا ترجمہ کیا اور اسلم اظہر نے اس کو ٹیلی کاسٹ کیا۔ اس ڈرامے میں آغا ناصر ، انور سجاد اور کے ۔ ایم سعید نے کردار ادا کیے۔ یہ طویل دورانیے کا کھیل تھا۔ جس کی پسندیدگی کا یہ عالم تھا کہ دو ہفتے بعد اسے پھر نشر کیا گیا۔ آغا ناصر رقم طراز ہیں:
”یہ بات وضاحت طلب ہے کہ ان دنوں نشر مکرر کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ریکارڈنگ چلا دی جائے، ریکارڈنگ کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ لہٰذا ایک بار پھر سے ڈرامے کو براہ راست اسی طرح پیش کیا گیا۔ جس طرح پہلے پیش کیا گیا تھا”۔ (۱۴)
ٹیلی ویژن ڈرامے کی تاریخ میں پہلی ڈراما سیریل ”شہر کنارے ” تھی۔ اشفاق احمد کی تحریر کو نثار حسین اور ذکا درانی نے پیش کیا۔ اس دور میں دوسری بڑی اور مقبول سیریل شوکت صدیقی کا ناول ”خدا کی بستی ” ہے۔ جس کی ڈرامائی تشکیل حمید کاشمیری نے کی۔ اس کی مقبولیت کے حوالے سے آغا ناصر لکھتے ہیں:
”ایک تو شوکت صدیقی کے ناول کا موضوع زندگی سے اس قدر قریب تھا کہ معاشرے کے سارے ہی کمزور پہلوئوں کی عکاسی اس میں ہوتی تھی۔ دوسرے حصہ لینے والے آرٹسٹوں کی اداکاری کا معیار اس قدر بلند تھا کہ کسی بھی ٹی وی نیٹ ورک پر پیش کیے جانے والے ڈراموں کے اداکاروں سے ان کا مقابلہ کیا جا سکتا تھا”(۱۵)
مزاح نگاری دیگر اصناف کی طرح ڈرامے کا بھی حصہ رہی ہے۔ ڈرامے کا بڑا مقصد وہ تفریح بھی ہے جو زندگی کی کڑواہٹ سے تھوڑی دیر کے لیے منہ موڑنے کا ذریعہ بنے۔ اس تفریح کو مقبول ہونے سے کون روک سکتا ہے۔ مزاحیہ ڈراما نگاری میں کمال احمد رضوی اور اطہر شاہ خان نے آغاز ہی سے ایک شاندار روایت ڈال دی تھی۔ جبکہ ان کے ساتھ نعیم طاہر نے ”تصویر کھنچائی ” اور فاروق ضمیر نے ”منگل میں جنگل ” جیسی سیریز لکھ کر شہرت حاصل کی۔ اطہر شاہ خان نے ”لاکھوں میں تین ” ڈراما سیریز لکھ کر نام کمایا۔ اس سیریز میں محمد قوی خان، علی اعجاز اور قمر چوہدری جیسے اداکاروں نے فن کاری کا مظاہرہ کیا۔ بعد میں اطہر شاہ خان کے حصے میں ” رانگ نمبر ” ، ”ہیلو ہیلو ”، ”مسٹر جیدی ” جیسی سیریز بھی آئیں۔
کمال احمد رضوی نے منٹو کی کہانی ” کہو بیچتا ہوں ” کے بعد منٹو ہی کی کہانیوں کو ”آئو نوکری کریں ” کے عنوان سے منی سیریل کے طور پر ڈرامائی تشکیل کے بعد ٹیلی ویژن پر پیش کیا، لیکن کمال احمد رضوی کو اصل شہرت ”الف نون ” کی بدولت ملی۔ الف نو ن کے عنوان سے اس سیریز میں کمال احمد رضوی اور رفیع خاور نے اپنی مزاحیہ اداکاری کا کمال دکھایا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کا یہ ڈراما ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے کمال احمد رضوی نے تحریر کیا جبکہ ہدایت کاری کا فریضہ آغا ناصر نے انجام دیا۔ جن کے بقول اس ڈرامے کے عنوان پر ان کے، اسلم اظہر، فضل کمال اور کمال احمد رضوی کے درمیان کافی سوچ بچار ہوئی۔ نشر ہونے سے قبل پروگرام کا ورکنگ ٹائٹل ”آغا ناصر کا پروگرام ” تھا۔
”بعد میں اسلم اظہر نے عنوان کی بحث سے تنگ آ کر کہا پروگرام بنانے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ عنوان سوچے، فضل کمال نے تائید کرتے ہوئے کہا، آغا ناصر کا پورا نام لینے کی ضرورت نہیں ۔ صرف نام کے پہلے حروف کافی ہیں۔ آغا کا الف اور ناصر کا نون ، ہم پہلی قسط کو الف نون کا پروگرام کہہ کر نشر کر سکتے ہیں۔ ہم اٹھ کر چلے تو اچانک کمال احمد رضوی کو دور کی سوجھی۔ انہوں نے دبلا، پتلا، لمبا الف اور گول مٹول نون اپنی آنکھوں کے سامنے پھڑکتے ہوئے دیکھے تو بے اختیار پکار اٹھے ”الف نون” بس اس پروگرام کا مستقل عنوان ہے، بعد میں ہم دونوں نے مشورہ کر کے دبلے پتلے لمبے چالاک دوست کا نام الَّناور گول مٹول موٹے بیوقوف دوست کا نام ننھّا رکھ دیا، یوں ٹیلی ویژن کے دو مقبول ترین کرداروں نے جنم لیا ”۔ (۱۶)
سماجی نوعیت کی برائیوں کا پردہ چاک کرنے سے لے کر زندگی کے تمام شعبوں کی منافقت اور فریب کاری کو سامنے لانے تک کے موضوعات الف نون کا حصہ تھے۔ ٹیلی ویژن کی تاریخ میں یہ پہلا پروگرام تھا جس نے حکومتی شعبہ جات پر فن کارانہ انداز سے تعمیری تنقید کو موضوع بنایا۔بقول آغا ناصر :
”تعریفی خطوط اور نت نئے مشوروں کے علاوہ ہم پر بہت لعن طعن بھی ہوئی تھی جس محکمے پر ہم نے ہاتھ رکھا اس کے لوگ ہم سے خفا ہو جاتے تھے”۔ (۱۷)
ٹیلی ویژن پر موضوعاتی Thematic ڈراما لکھنے کا آغاز ابتداء ہی سے ہو گیا تھا۔ موضوعاتی ڈراموں میں عتیق اﷲ شیخ کا ”خون کے رشتے ” زاہدہ حنا کا ”سلطان محمود غزنوی ” ، منو بھائی کا ”سلطان سارنگ ”، شفیع ایوبی کا ”سلطان محمد فاتح ” ، اصغر بٹ کے ” جب پہلی دیوار گری ” اور ” باپ بیٹا اور سلطنت ” ، احمد ندیم قاسمی کا ”شکست اور فتح ”، سلیم احمد کا ”۱۸۵۷ء ”، بانو قدسیہ کا ”انکشاف ” جس کا پس منظر کشمیر کی تحریک آزادی ہے اور انتظار حسین کا ”محبت خان ” مشہور ہیں۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے دوران مختصر دورانیہ کے کھیل پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ کشمیر اور جنگ کے موضوع پر ہر روز ایک مختصر ڈراما نشر کیا جاتا تھا۔ ان مختصر ڈراموں کا دورانیہ پندرہ سے تیس منٹ تک تھا۔ تقریباً تین ہفتوں تک کشمیر اور جنگ کے موضوع کی کہانی مختلف اخبارات کی خبروں سے اخذ کی جاتی تھی۔ جن لوگوں نے اس دور میں موضوعاتی ڈراما نگاری کو فروغ دیا ان میں کمال احمد رضوی ، انور سجاد، اشفاق احمد، آغا ناصر، امجد حسین اور عشرت رحمانی شامل تھے۔ اس دوران ”پیشکشِ پاکستان ” اور ”عظمت کے نشان ” کے عنوان سے جو ڈرامے پیش کئے گئے وہ بے حد مقبول ہوئے۔
دوسرا دور ۱۹۷۰ء تا ۱۹۸۰ء تک دس سالہ پیریڈ پر مشتمل ہے، اس دوران ٹیلی ویژن پر رنگین نشریات کا آغاز ہوا۔ تکنیکی اعتبار سے لائیو نشریات کی بجائے ریکارڈنگ کی سہولت دستیاب ہوئی۔ فکری اور موضوعاتی سطح پر بڑی تبدیلی دسمبر ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں سامنے آئی۔ ایک طرف ابھی ہجرت کی تلخ یادوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا مشکل تھا تو دوسری طرف سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد سیاسی ابتری اور معاشی بدحالی کے بڑھتے ہوئے سایوں نے گھٹن کا احساس بڑھا دیا تھا جبکہ اندرونی سطح پر فرد تنہائی کا شکار ہو چکا تھا۔ مجموعی طور پر معاشرہ ماضی پرستی کی گرفت میں تھا۔ اس دور میں اے آر خاتون، عظیم بیگ چغتائی ، شبیر شاہ کے علاوہ غیر ملکی ناول نویسوں اور کہانی کاروں کی تخلیقات کو ڈرامائی شکل میں ڈھالا گیا۔ ٹی وی ڈراما نگاری کی صف میں چند اور بڑے نام شامل ہوئے۔ بانو قدسیہ کے ساتھ اس میدان میں اب خالدہ حسین، جمیلہ ہاشمی، حسینہ معین اور فاطمہ ثریا بجیا بھی شامل ہو گئیں۔ دوسری طرف اشفاق احمد اور منو بھائی کے ساتھ امجد اسلام امجد، حمید کاشمیری اور فاروق ضمیر جیسے لو گ آ ملے۔ اس دور میں جہاں بڑی بڑی سیریلز لکھی گئیں وہاں طویل دورانیہ کے کھیل اور ڈراما سیریز کو خاص مقبولیت حاصل ہوئی۔ بجیا اور حسینہ نے آتے ہی میدان مار لیا۔
اشفاق احمد نے ”حیرت کدہ ” ”محفوظ ماموں ”، ”ایک محبت سو افسانے ”، ”طوطا کہانی ” اور” ڈرامے ” کے عنوان سے طویل سیریز سے شہرت حاصل کی جب کہ بانو قدسیہ نے ”نیا دور ”، ”سراب ” اور ”خلیج ” کے عنوان سے کہانیاں لکھیں۔ ان دونوں (میاں بیوی ) کی ٹیم کے ڈراموں نے ٹیلی ویژن پر خاص طرح کے صوفیانہ نظریات کو فروغ دیا۔ ان کے برعکس احمد ندیم قاسمی نے ”ایک چہرہ کئی چہرے ” اور ” شب وروز ” کی شکل میں جبکہ منو بھائی نے ”عجائب گھر ”، ”پ سے پہاڑ ” جیسی سیریز لکھ کر اشفاق اور بانو کے طلسم کو توڑنے کی کوشش کی۔ حمید کاشمیری نے ”ماں ”، ”لمحوں کی زنجیر ” ، ” لہو کا رنگ ”، ”کافی ہائوس ” ، ”انسپکٹر ”، ”دیوانہ ہے دیوان ” اور ”زندگی ” جیسے کامیاب کھیل اور سیریز لکھیں۔ صفدر میر کا ”آخر شب ” مشہور سیریز تھی جو سلاطین دہلی کے حالات پر مبنی تھی۔ شوکت صدیقی نے ”تیسرا آدمی ”، سلیم احمد نے ”پیسنجر ٹرین ”، انتظار حسین نے ” تم کو خبر ہونے تک ” ، تاج حید ر نے ”آبلہ پا ”، آغا ناصر نے ” دل کا دامن ”، مستنصر حسین تارڑ نے ” آدھی رات کا سورج ”، جبکہ جمیلہ شاہین نے ”لیل و ماہ ”، ”سارے کے سارے ” اور ”شعلہ گل ” جیسی مضبوط کہانیاں ٹیلی ویژن کے لیے لکھی ہیں۔
فاطمہ ثریا بجیا نے دوسروں سے زیادہ مگر اچھا لکھا۔ ان کے حصے میں جو ڈراما سیریز آئی ہیں۔ ان میں ”اوراق ” کے عنوان سے اردو کے بڑے ناولوں سے کہانیاں، اسٹیج ڈراموں اور داستانوں کو اس کا حصہ بنایا، اسی طرح ” لوک عکس ” کے عنوان سے علاقائی کہانیوں کو جن میں ”سسی پنوں ”، ”لیلا چنیسر ”، ”سوہنی منہیوال ” اور ” عمر ماروی ” جیسی لوک داستانیں شامل ہیں۔ اسی دور میں ”میرا پسندیدہ افسانہ ” اور ”کھیل کہانی ” کے عنوان سے ممتاز افسانہ نگار وں کی کہانیوں کے علاوہ ”سیر کوہسار ” کے عنوان سے صوبہ سرحد کے افسانہ نگار وں کی کہانیوں کو بھی پیش کیا گیا۔
ٹیلی ویژن پرطویل دورانیے کے ڈرامے کا آغاز ہو چکا تھا جو کھیل مشہور ہوئے ان میں حسینہ معین کا ”پانی پہ لکھا تھا ”، خالدہ حسین کا ”ٹھنڈا پانی ”، خالد محمود زیدی کا ”مہمان ” اور مشایاد کا ”تماشا ” مشہور ہیں۔ ”تصویر کائنات ”، ”تمثیل ”، ”زندگی اے زندگی ” ، ”ٹی وی تھیٹر ”، ”ایک حکایت ”، ”رات ، ریل اور خط ” کے عنوان سے ڈراما سیریز نشر کی گئیں جن کو مختلف مصنفین نے تحریر کیا۔ دوسرے دور میں جو ڈراما سیریز اور سیریلز مقبول ہوئے ان میں منو بھائی کا شبیر شاہ کے ناول سے ماخوذ ”جھوک سیال ” اور ”جزیرہ ” ، راحت کاظمی کا ”تیسرا کنارہ ”، جمیلہ ہاشمی کا ”سفید سایہ ”، ”انتظار حسین کا ”زرد دوپہر ” اور صفدر میر کا ” قربتیں اور فاصلے ” جو روسی مصنف ٹرجون Turgune کے ناول Father and Sons سے ماخوذ ہے، شامل ہیں۔ فاطمہ ثریا بجیا نے ڈراما سیریز کی طرح ڈراما سیریلز بھی کامیابی سے لکھے۔ ان کے سیریلز میں ”آگہی ” کے علاوہ ”شمع ” اور ” افشاں ” بھی شامل ہیں۔ ”شمع ” اور ”افشاں ” اے آر خاتون کے ناولوں کی ڈرامائی تشکیل ہے۔ شوکت صدیقی نے ”رات کی آنکھیں ” جبکہ یونس جاوید نے ”گواہی ”، ”نجات ”، ”پت جھڑ ”، ”سمندر”، ”پناہ ”، حسینہ معین نے ”کرن کہانی ”، ”انکل عرفی ”، ”پرچھائیاں ” (ہینری جیمس کے ناول پورٹریٹ آف لیڈی کی ڈرامائی تشکیل ہے )، ”دھند”، ”رومی ”، ”شہزوری ” (جو عظیم چغتائی کے ناول کی ڈرامائی تشکیل ہے ) مشہور ہیں۔
مزاحیہ ڈرامہ نگاری کی ذیل میں عشرت رحمانی کا ”ہنسی ہنسی میں ” ، اطہر شاہ خان کے ”رانگ نمبر ”، ”انتظار فرمائیے ”، ”با ادب با ملاحظہ ہوشیار ” اور ”ان کہی ” مشہور ہیں۔ کمال احمد رضوی نے ”میں ، پتلون اور نوکری ”، ”کس کی بیوی کس کا شوہر ” اور ”صاحب، بی بی اور غلام ” سے نام کمایا۔ فاروق قیصر مزاحیہ ڈراما نگاری میں نئے باب کا اضافہ تھا۔ جنہوں نے ”بچ بچا کے ”، ”مذاق مذاق میں ” اور ”کلیاں ” جیسے پروگرام لکھے۔ کوئٹہ مرکز سے ذوالقرنین حیدر نے ”نہلے پہ دہلا ”، ”باپ رے باپ ” اور ”نادانیاں ” جیسے کھیل لکھے۔ ان میں سے اکثر ڈراموں کو تیسرے دور کا حصہ بھی سمجھا جائے گا۔
موضوعاتی ڈراما نگاری کی پزیرائی میں کسی طرح کمی نہ آئی، چونکہ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اس لیے اس مملکت کی اساس میں کام کرنے والے نظریات ہوں یا افراد ان کو ادب اور آرٹ کا حصہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں ”پلیٹ فارم ” کے عنوان سے ڈراما سیریز پیش کی گئی۔ جس کے لئے ڈرامے منو بھائی نے تحریر کیے۔
” پلیٹ فارم قومی یکجہتی کے موضوع پر ناقابل فراموش ڈراما سیریز تسلیم کی گئی اور اس کی کامیابی کا سہرا منو بھائی کے سر ہے جنہوں نے بڑی دل سوزی سے یہ کہانیاں لکھیں”۔(۱۸)
فاطمہ ثریا بجیا نے ”آبگینے ” کے عنوان سے مسلمان خواتین کی زندگی اور ان کی خدمات پر ڈراما سیریز لکھی۔ ”کیسے کیسے لوگ ‘ ‘ میں ابصار علی نے دنیا کی نامور ہستیوں (جنہوں نے جدوجہد آزادی کی تحریکوں میں حصہ لیا) پر مبنی کھیل پیش کیے۔ سلیم احمد نے ”تعبیر ”، ”ستون ”، ”سلطان شہاب الدین ” ، ”آخری چٹان ” اور ”شاہین ” (نسیم حجازی کے ناولوں سے ماخوذ) لکھے۔ ”آزادی کے مجرم” کے عنوان سے ڈراما سیریز پیش کی گئیں جس میں مختلف لکھنے والوں کی کہانیاں شامل ہوتی تھیں۔ بختیاراحمد نے ”مرے تھے جن کے لیے ”، ”اجلے میلے ” اور ” مسٹری تھیٹر ” سلیم چشتی نے ”راحت پور ایک میل ” ، راحت نسیم ملک نے ”پانی اور زنجیر ” جیسے موضوعاتی کھیل لکھے جو پاکستان ٹیلی ویژن سے نشر کیے گئے۔
تیسرا دور ۱۹۸۰ء تا ۱۹۹۰ء تک ہے۔ ان دس سالوں میں سیاسی نظام کے بجائے بد ترین آمریت ملک پر مسلط رہی۔ جنگ افغانستان نے اسی عرصہ میں نہ صرف طول پکڑا بلکہ روسی افواج کا انخلاء بھی اسی زمانے میں ہوا۔ گروہی، تشدد پسند اور فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ ملا۔ ان تبدیلیوں نے پاکستانی معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ امجد اسلام امجد کے ڈراما ”وارث ” نے ٹیلی ویژن پر ایک نئے کلچر کو متعارف کرایا۔ بدترین آمریت کے باوجود جاگیرداریت کے خلاف ٹیلی ویژن نے اچھے ڈرامے پیش کیے۔ امجد اسلام امجد کے ساتھ اصغر ندیم سید، نور الہٰدی شاہ ، عبد القادر جونیجو، عطاالحق قاسمی، ڈاکٹر ڈینس آئزک ، فضل حسین صمیم اور یونس جاوید جیسے نامور ادیبوں نے ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے۔ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ صحیح ہو گا کہ اس دور میں ڈراما نگاری کو عروج حاصل ہوا۔ اس زمانے میں ٹی وی ڈراما پورے گھرانے کی تفریح و تعلیم کا باعث تھا۔ سب سے زیادہ ڈرامے سیریلز کی صورت میں ہوئے، پھر سیریز سے زیادہ ”طویل دورانیے کے کھیل ” ٹیلی ویژن کی پہچان بن گئے۔
امجد اسلام امجد نے ”دہلیز ”، ”سمندر ”، ”وقت ” اور ”رات ” جیسے ڈرامے لکھ کر ٹیلی ویژن کو نئی روایت دی۔ اصغر ندیم سید نے ”لازوال ” (بشریٰ رحمان کے ناول سے ماخوذ)، ”دریا ”، ”آسمان ”، ”دریچے ”، ”پیاس ” اور ”خواہش ” کے عنوان سے اچھے ڈرامے لکھے۔ اصغر ندیم سید نے منو بھائی اور انور سجاد کے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے ڈرامے میں روشن خیالی کو جگہ دینے کے ساتھ ساتھ استحصالی معاشرے کے ہتھکنڈوں کو بھی بے نقاب کیا۔ مستنصر حسین تارڑ نے ”پرواز ”، ”ہزاروں راستے ” اور ”سورج کے ساتھ ساتھ ” سیریلز لکھیں۔ عطاالحق قاسمی نے ”اپنے پرائے ”، ”خواجہ اینڈ سن ” جیسے مزاحیہ اور طنزیہ ڈراما سیریز لکھی ہیں۔ منو بھائی نے ”ابابیل ”، ”خاموشی ”، ”وادی ”، ”بائوٹرین ” اور ”جھیل ” جیسے طویل اقساط کے ڈرامے ٹیلی ویژن کو دیے ۔ حسینہ معین نے ”ان کہی ”، ”اجنبی ”، ”تنہائیاں ” اور ”دھوپ کنارے ” لکھ کر پہچان بنائی۔ عبد القادر جونیجو نے ”دیواریں ”، ”چھوٹے بڑے لوگ ”، ”بدلتے موسم ”، ”کاروان ” اور ”سیڑھیاں ” کا اضافہ کیا۔ جبکہ نور الہٰدی شاہ نے ”جنگل ”، ”تپش ”، ”حوا کی بیٹی ”، ”آسمان تک دیوار ”، ”آدم زادے ”، ”ماروی”، عجائب خانہ ” اور ”فاصلے ” جیسی سیریلز لکھ کر شہرت حاصل کی۔ ان سب میں ”جنگل ” کو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ”جنگل ” میں سندھ کی وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ سماج کو بے نقاب کیا گیا۔ اس ڈرامے میں ”نور الہدی شاہ نے سندھ کی حویلیوں کو ٹیلی ویژن اسٹوڈیو میں لا کھڑا کیا ”۔ (۱۹)
اس دور میں عبد القادر جونیجو کی ”دیواریں ”، ”چھوٹے بڑے لوگ ” اور ”سیڑھیاں ” کافی مقبول سیریلز تھیں۔ نور الہٰدی شاہ اور عبد القادر نے اپنے ڈراموں کے ذریعے سندھ کی استحصالی ثقافت کو بے نقاب کیا۔ اس زمانے میں پاکستان ٹیلی ویژن سے سندھی ڈراما نگاروں کی ایک ٹیم سامنے آئی۔ نور الہٰدی شاہ اور عبد القادر جونیجو کے ساتھ ساتھ امر جلیل ، شاہد کاظمی، آغا رفیق، شمشیر حیدری، ممتاز مرزا، آغا سلیم، قمر شہباز اور عبدالکریم بلوچ جیسے علاقائی ڈراما نگاروں نے ملکی سطح پر سندھی کلچر کو ٹیلی ویژن پر متعارف کرایا۔ امر جلیل نے ”دوزخ ” اور شاہد کاظمی نے ”احساس ” جیسے کامیاب ڈرامے لکھے۔ ان سندھی ڈراما نگاروں نے نہ صرف ٹیلی ویژن ڈرامے کو جاگیردار کے چہرے سے نقاب اتار نے کا حوصلہ دیا بلکہ اس طبقے کی نفسیات کو ڈرامے کے فن میں بڑی کامیابی کے ساتھ پیش کیا۔
دوسرے لکھنے والوں میں راحت کاظمی نے ”تیسرا کنارہ ”، یونس بٹ نے ”ہوا ” اور ”مسکن ”، مرزا طاہر بیگ نے ”بسیرا بلڈنگ ” اور ”حصار ” ، سلیم چشتی نے ‘ساحل ” (عفت قریشی کے ناول سے ماخوذ) حق نواز نے ”مراۃ العروس ” (نذیر احمد کے ناول سے) عارف وقار نے ”گروٗ ”، نصرت جاوید نے ”زرد اجالا ” شاہد کاظمی نے ”چھائوں ”، فضل حسین صمیم نے ”موسم” ، فاطمہ ثریا بجیا نے ”انا اور زیست ”، امر جلیل نے ”مسافتیں” اور ”بھنور ” ، نسیم اچکزی نے ”ستون ”، ذوالقرنین حیدر نے ”اب کیا ہو گا ”، عارف ضیاء نے ”بخت نامہ ” اور افضل مراد نے ”اعتراف ” لکھا۔ اس دور میں جو ڈرامے اور سیریلز مقبول ہوئے ان میں منو بھائی نے ”سونا چاندی ”، انور سجاد نے ”نگار خانہ ” اور ”فرد جرم ” ، یونس جاوید نے ”اندھیرا اجالا ”، اشفاق احمد نے ”بند گلی ”، کمال احمد رضوی نے ”مسٹر شیطان ”، حسینہ معین نے ”دھند ”، شعیب منصور نے ”آٹھواں آسمان”، ذوالقرنین حیدر نے ”معصوم ”، فضل حسین صمیم نے ”خدمت مرکز ” اور ”مٹی کا مشکیزہ ” ، حمید کاشمیری نے ”سہارے ”، ”ایمرجنسی وارڈ”، ”دائرے ”، ”رنگ حنا ” اور ”آج کے افسانے ”، آغا ناصر نے ”درد کے رشتے ” اور ”سفر شریک ” تحریر کیے۔ ان کے علاوہ ” کردار ”، ”بازگشت ”، ”راہ گزر ”، ”دلدل ”، ”پناہ”، ”ریگبان ” اور ”جشن تمثیل ۸۸ئ” کے عنوان سے مختلف لوگوں نے بڑے جاندار کھیل لکھے۔
اس دور میں ٹیلی ویژن پر طویل دورانیے کے ڈراموں نے کافی مقبولیت حاصل کی یہی وجہ ہے کہ بڑے ادیبوں نے بھی لانگ پلے کے لیے کہانیاں لکھیں۔ بانو قدسیہ نے ”چٹان پر گھونسلہ ”، ”زرد گلاب ”، ”سراب ”، ”انجانے میں ”، ”شکایتیں حکایتیں ”، ”کھل جا سم سم ”، ”آنکھ مچولی”، ”فٹ پاتھ پر گھاس ”، ”رات گئے ” اور ”کوئی تو ہو ” کے عنوان سے لانگ پلے لکھے۔منو بھائی نے ”دروازہ ”، ”ساحل ”، ”آدھے چہرے ”، ”گھر سے نکلے ”، ”مری سادگی دیکھ ”، ”ڈیڈ لائن”، ”آئینہ اور کھڑکی ” اور ”گمشدہ ” جیسے اچھے ڈرامے لکھے۔ امجد اسلام امجد نے ”بازید ”، ”دکھوں کی چادر ”، ”اپنے لوگ”، ”لیکن ” اور ”شام سے پہلے ” لکھے، اشفاق احمد نے ”چور بخار ”، ”ننگے پائوں ”، ”متاعِ غرور ”، ”آسان سی بات ” اور ”فہمیدہ کی کہانی ” کے عنوان سے لکھا۔ یونس جاوید نے ” کانچ کا پل ”، ”دھوپ دیوار ” ، ”ساون روپ ”، ”وادی پرخار ”، ”پھولوں کا رستہ ”، ”رگوں میں اندھیرا ”، ”سٹیٹس ” اور ”میرا پیغام محبت ہے ” جیسے ڈرامے لکھے۔ جمیل ملک نے ”دشت تنہائی ”، ”ہزاروں خواہشیں ”، ”سچا جھوٹ”، ”بے قیمت پانی ” اور ”تیسرا راستہ ” لکھ کر خود کو منوایا ۔ انور سجاد نے ”رسی کی زنجیر ”، ”امید باہر ”، ”پکنک ”، ”صبا ” اور ”سمندر ” کے عنوان سے لکھا جبکہ حسینہ معین کا ایک کھیل ”پانی پہ لکھا تھا ” مقبول ہوا۔ کامیڈی تھیٹر کے عنوان سے مختلف مصنفین نے مزاحیہ کہانیاں لکھیں۔ جبکہ اس دور میں ذوالقرنین حیدر نے ”نادانیاں ”، ”باپ رے باپ ” اور ”نہلے پہ دھلا ” لکھ کر شہرت حاصل کی۔
اس دور میں میں موضوعاتی ڈراما ایک قدم آگے بڑھتا ہوا محسوس ہوا۔ پاک فوج کے قومی ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کی قربانیوں کی یاد تازہ کرنے کے لیے ، نشان حیدر کا اعزا زپانے والے فوجی جوانوں کی زندگی پر مبنی ڈرامے پیش کیے گئے۔ ان میں ”کیپٹن سوار خان شہید ، میجر محمد طفیل شہید، عزیز بھٹی شہید اور راشد منہاس شہید ” کے ڈراموں نے کافی شہرت حاصل کی۔ اصغر ندیم سیّد نے بھی اپنے مزاج کے بر عکس موضوعاتی ڈرامے لکھے۔ ان کے ڈراموں میں ”جہانِ سفر ” ، ”ستارہ اور سمندر ”، ”جوڑ توڑ”، ”احساس”، ”چھائوں ” اور ”قطار ” شامل ہیں۔ ڈاکٹر ڈینس آئزک جو اکثر پشاور سینٹر کے لیے لکھتے تھے، نے ”پہلے سی محبت ”، ”اپنی صلیب ” اور ”چرن کے پاس” کے عنوان سے ڈرامے تحریر کیے۔ امجد اسلام امجد نے ”قافلہ سخت جان ”، ”اپنے حصے کا بوجھ ” اور فلسطین کی تحریک آزادی کے پس منظر میں لبنانی ادیب ڈاکٹر سہیل ادریس کے اسٹیج ڈرامے ”زہرہ من دم ” سے ماخوذ کھیل ”لہو میں پھول ” لکھا جبکہ شہزاد خلیل اور سلیم طاہر نے نشان حیدر کے مجاہدوں پر ڈرامے پیش کیے۔ فاطمہ ثریا بجیا نے ”بیگماں”، ”میراث ”، ”براھیم کی تلاش ” اور ”برسوں کے فاصلے ” لکھے۔ یونس جاوید نے ”عہد ِ وفا ” ، ”صبحِ سفر ”، ”دیارِ عشق ” اور ”طلوع ” کے عنوان سے لکھا۔ ۱۹۸۷ء تا ۱۹۸۸ء میں پاک چین دوستی پر مبنی ” پیمان وفا ” اور ”رشتے اور راستے ” کے عنوان سے ڈرامے پیش کیے گئے۔ آغا ناصر نے ”مٹی کی مہک ” جبکہ طاہر شیخ نے ”ڈراما ۸۸ء ” کا خصوصی کھیل لکھا، سلطانہ گوہر عظمیٰ نے ڈراما ۸۸ میں ”انار کلی ” لکھا۔ اس دور میں کشمیر کی تحریک آزادی پر پہلی دفعہ شاہد محمود ندیم نے قلم اٹھایا۔ شاہد محمود ندیم نے کشمیر پر موضوعاتی ڈرامے کا آغاز ”وصال ” لکھ کر کیا۔ جن کی تقلید میں بعد میں ٹیلی ویژن پر بہت سے مقبول ڈرامے پیش کئے گئے۔
ٹیلی ویژن ڈراما نگاری کا چوتھا اور آخری دور ۱۹۹۰ء تا ۲۰۰۰ء تک ٹیلی ویژن پر جدید اور کمرشل ڈراما نگاری کا دور کہلاتا ہے۔ فکری سطح پر آمریت سے نکل کو جمہوری آزادی کا دور شروع ہوتا ہے۔ جمہوری سفر کے آغاز ہی میں افراتفری اور بے یقینی کا عنصر غالب آ گیا تھا۔ افغانستان اگر اندرونی آگ میں جل رہا تھا تو کشمیر میں تحریک آزادی عرو ج پر پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ کشمیر کا موضوع بھی ڈرامے پر اثر انداز ہوا۔ کشمیر پر موضوعاتی ڈرامے لکھے گئے ہیں۔ بوسنیا میں مسلح افواج پر ڈراما ”الفا، براوو، چارلی ”بنا۔ اس دوران ٹیلی ویژن نے کمرشل ڈراما بنانے والوں کو وقت فروخت کرنا شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ ڈراما کمرشل بنیادوں پر بنایا اور لکھوایا جانے لگا۔ پھر باہر کے ملکوں میں عکس بندی کا رجحان شروع ہوا۔ اس رجحان نے بیرون ممالک میں رہنے والوں کے مسائل سے زیادہ گلیمر کو فروغ دیا۔ ایک طرف پرائیویٹ پروڈکشن سے ڈراموں کی بھر مار ہو گئی تو دوسری طرف نئے ٹی وی چینل کھلنے شروع ہو ئے۔ اب ناظر کو کسی ایک اسٹیشن سے ڈراما دکھانا مشکل تھا۔ اس افراط کی وجہ سے ناظر آسانی سے اپنی پسند کا ڈراما لگا کر بیٹھ سکتا ہے۔ اس آخری دور میں وہ ڈراما ختم ہوا جو خاندان بھر کے لیے پیش کیا جاتا تھا۔ کہانی سے زیادہ گلیمر اور دو دو محبتوں پر مبنی کہانیوں کا روایتی پلاٹ ڈراموں کا حصہ بنا:
”پہلے صرف پی ٹی وی کی اجارہ داری تھی، کوئی اور ڈراما بنا ہی نہیں سکتا تھا، ہفتے میں چھ ڈرامے ہوتے تھے۔ روز ایک ڈراما چلتا تھا، چھ کے چھ ڈرامے دیکھے جاتے تھے۔ ان میں برے بھی تھے، مگر اچھے بھی تھے آج بھی وہی فرق ہے آج کمرشل ڈراما ہے اور جو ادیب لکھ رہے ہیں وہ یقینا اچھا ڈراما ہے اور جو غیر ادیب لکھتا ہے وہ آج بھی اچھا نہیں ”۔ (۲۰)
اس آخری دور میں جو ڈراما سیریز مشہور ہوئیں ان میں اشفاق احمد کا ”منچلے کا سودا ”، امجد اسلام امجد کا ” دن ”، ”فشار ” اور ”ایندھن ”، عطا الحق قاسمی کا ”شب دیگ ” اور ”حویلی ”، یونس جاوید کا ”پت جھڑ ”، منصور آفاق کا ”زمین ” اور ”دنیا ”، شاہد ندیم کا ”زرد دوپہر ”، اصغر ندیم سیّد کا ”الائو ”، مسرت کلانچوی کا ”ریگزار ” اور ”مسافت”، مرزا اطہر بیگ کا ”نشیب ” (عبداﷲ حسین کے ناول سے ماخوذ) ”یہ آزاد لوگ”، ”دلدل ”، ”خواہ مخواہ ” اور ” رنجشیں ”، جمیل ملک کا ”لمبے ہاتھ ” اور ” آندھیاں”، منو بھائی کا ”یہ کہانی نہیں ” ، حسینہ معین کا ”کہر ”، ”آہٹ” اور ”کسک ”، فاطمہ ثریا بجیا کا ” عُروسہ” ، ”گھر ایک نگری ”، ”اساوری ”، ”تصویر ”، عبد القادر جونیجو کا ” ماروی ”، ”چھوٹے لوگ ”، ناہید سلطانہ اختر کا ”آنچ”، اسد محمد خان کا ”منڈی ”، عدیم ہاشمی کا ”آغوش”، امر جلیل کا ”زیست ” اور ”سارنگ ” ناصر بلوچ کا ”شہباز ” ، مشاء یاد کا ”جنون ” اور ”بندھن ”، خالدہ حسین کا ”آشوب ” اور آصفہ شاکر کا ”ایک تھی گڑیا ”، مقبولیت کی سند حاصل کر سکے ہیں۔ اس چوتھے دور میں جو ڈراما سریز مقبول ہوئیں ان میں شاہد ندیم کی ”اڑان”، شہزاد احمد کی ”دیوار ” ، حمید کاشمیری کا ” روزن زندان ” اور ”اعتراف ”، فاطمہ ثریا بجیا کا ”فرض اور قرض ” مشہور ہیں ان کے علاوہ ”سراغ”، ”کہانی گھر ”، ”وقت کی بات ”، ”نصف صدی کا قصہ ” ، ”سلامتی ”، ”راستے ”، ”قاسمی کہانی ”، ”فیصلہ ” اور ”سچی کہانیاں” کے عنوان سے ڈراما سیریز پیش کی گئیں جن کو مختلف مصنفین نے تحریر کیا۔
اس دور میں جو لانگ پلے ٹیلی کاسٹ ہوئے ان میں جمیل ملک کا ”مشر ق و مغرب ”، ”جو کر ”، ”محبت محبت ”، ”اندر کا آدمی ”، ”امانت ” اور ”بے آواز ”، شاہد محمود ندیم کا ”گواہی ”، منو بھائی کا ”خوبصورت ”، مرزا اطہر بیگ کا ”دھند میں راستہ ”، ”بے نیند راتوں کے خواب ”، اصغر ندیم سید کا ”سارہ اور عمارہ ”، ”ملکہ عالم ” اور ”نشیب و فراز ”، ذوالقرنین حیدر کا ”جنون کے رنگ ” ، خالدہ حسین کا ”ٹھنڈا پانی ”، امر جلیل کا ”سناٹا ”، فاروق قیصر کا ”آئیڈیا ” اور خالد محمود زیدی کا ”مہان ” مشہور ہیں۔ مزاحیہ ڈراما نگاری میں شاہد محمود ندیم کا ”جنجال پورہ ”، ایم شریف کا ” پانچوں گھی میں ”، حامد رانا کا ”محلے دار ” اور فاروق قیصر کا ”سرگم سرگم پھر سرگم ” مشہور ہوئیں جبکہ ”گیسٹ ہائوس ”، ”شوخئی تحریر ”، ”کامیڈی تھیٹر ” اور ”حماقتیں ” کے عنوان سے مختلف مصنفین نے کھیل تحریر کیے۔
اس دور میں موضوعاتی ڈراما نگاری کی ٹیلی ویژن والوں نے کافی حوصلہ افزائی کی۔ کشمیر کے موضوع پر بعض ادیبوں سے ڈرامے لکھوائے گئے۔ تاہم کشمیر کے علاوہ جو موضوعاتی ڈرامے ٹیلی کاسٹ ہوئے ان میں بختیار احمد کا ”کل اور آج ”، احمد ندیم قاسمی کا ”وفا کے پیکر ” (غازی علم دین ) ”شناخت ”، ”زنجیر ”، ”کھول آنکھ زمین دیکھ ” اور ”ہم زندہ قوم ہیں”، امجد اسلام امجد کا ”نظام لوہار ” اور ”تسلسل ” ، منظر امام کا ”وفا کے پیکر ”، انور مقصود کا ”قابیل اور تماشا ”، کیف رضوانی کا ”جناح سے قائد ”، زاہدہ حنا کا ”خواب مرتے نہیں ”، فاطمہ ثریا بجیا کا ”بابر ” اور ”للہ عارفہ ” شامل ہیں۔ کشمیر کے موضوع پر ٹیلی ویژن کی کوششوں سے ڈرامے پیش کیے گئے۔ ان ڈراموں میں بختیار احمد کا ”مقدمہ کشمیر”، جومنی ڈوکوڈراما سیریل (Mini Docu Drama Serial) ہے پیش کیا گیا۔ شاہد محمود ندیم نے ”محاصرہ ” لکھا جو چار اقساط پر مبنی ڈراما سیریل تھا۔ جمیل ملک نے ”زمیں بدر ” ، سجاد ترمذی نے ”منزل ”، حمید کاشمیری نے ”چار چنار ”، ظہور احمد نے ”لہو سے کر کے وضو ”، اصغر ندیم سیّد نے ”کشمیر روڈ ” اور اقبال حسن خان نے لانگ پلے، ”طلوع ”، ”ایندھن” اور ”یاترا ” جیسے ڈرامے کشمیر کے موضوع پر لکھے۔ شہزاد احمد نے ۱۳ اقساط پر مبنی ڈراما ”وفا ” لکھا، ان کے علاوہ رئوف خالد نے پہلے ”انگار وادی ” اور پھر ”لاگ ” لکھ کر کشمیر کے موضوع پر ڈراما نگاری کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان ٹیلی ویژن نے ابتدا ہی سے قومی موضوعات پر ڈرامے پیش کر کے موضوعاتی ڈرامے کی روایت ڈال دی تھی۔ ٹیلی ویژن کا آغاز ایک ہنگامہ خیز دور میں ہوا تھا۔ جنگ ستمبر ۱۹۶۵ء کے موقع پر جو موضوعاتی ڈرامے ٹیلی کاسٹ کیے گئے ان پر جنگ کے اثرات غالب تھے۔ آغاز میں جن ادیبوں سے ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھوائے گئے ان میں منو بھائی ، کمال احمد رضوی، آغا ناصر، اشفاق احمد اور عشرت رحمانی پیش پیش تھے۔ ٹیلی ویژن ڈراما نگاری کے دوسرے دور میں موضوعاتی ڈراما نگاری کو ڈراما سیریز ”پلیٹ فارم ” نے فروغ دیا۔ کشمیر کے پس منظر میں سب سے پہلا ڈراما بانو قدسیہ نے ”انکشاف” کے نام سے لکھا جو ۱۹۶۸ء میں ٹیلی کاسٹ ہوا۔ سقوط مشرقی پاکستان کے جاں گداز سانحہ کے بعد قومی آزادی کے تحفظ کا احساس اجاگر کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ چنانچہ ٹیلی ویژن نے ”آزادی کے مجرم ” کے نام سے ایک ڈراما سیریز شروع کی۔ اس سیریز کے لیے مختلف ادیبوں نے ڈراما سکرپٹ لکھے۔ موضوعاتی ڈراما نگاری میں ٹیلی ویژن ڈرامے کی تاریخ کا تیسرا دور سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس دور میں نہ صرف قومی آزادی اور جذبہ حب الوطنی کی آبیاری کی گئی بلکہ دنیا بھر میں آزادی پسند اقوام کی جدو جہد کو بھی ڈرامے کا موضوع بنایا گیا۔ قومی ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کی قربانیوں کی یاد تازہ کرنے کے لیے پاک فوج کے نشان حیدر پانے والے ہیروز کی زندگیوں پر ڈرامے ٹیلی کاسٹ ہوئے۔ اس دور میں فلسطین ، افغانستان اور کشمیر پر موضوعاتی ڈرامے تیار کروائے گئے۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے آخری دور میں کشمیر کا موضوع سب سے نمایاں رہا۔ شاہد محمود ندیم، رئوف خالد، اقبال حسن خان، فاطمہ ثریا بجیا، شہزاد احمد اور بختیار احمد نے اہل کشمیر کے ساتھ والہانہ وابستگی اور قومی ترجمانی کا حق ادا کرنے کی کوشش کی۔ ان کے علاوہ کیف رضوانی کا ڈراما ”جناح سے قائد تک ” نے کافی شہرت حاصل کی۔ مجموعی طور پر پاکستان ٹیلی ویژن نے موضوعاتی ڈرامے کے ذریعے قومی تشخص کو فروغ دیا۔ تاہم ہمارے ہاں جتنے بھی موضوعاتی ڈرامے ٹیلی کاسٹ ہوئے ان میں ٹیلی ویژن کی پالیسی اور پلاننگ کا حصہ کم اور حکومت وقت کی ضرورت اور تحریک زیادہ رہی ہے۔ اس لیے ۹۰ فیصد ڈراموں میں حقائق پر مؤقف کو ترجیح دی گئی۔ آج بھی اگر مبنی بر حقیقت موضوع کو اچھی پروڈکشن کے ساتھ پیش کیا جائے تو موضوعاتی ڈراما آگے بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن جب تک قومی مفادات کا حقیقت پسندانہ تجزیے سے ڈرامے ٹیلی کاسٹ نہیں کرئے گا۔ اس وقت تک قوم میں آزادی کے تحفظ کا احساس پیدا نہیں ہو سکتا۔
حوالہ جات
۱۔ حمید کاشمیری ، مضمون ٹیلی ویژن ڈراما، مشمولہ، سرسید ین ، جلد چہارم ، ص ۲۲۶، ترتیب و انتخاب ، رشید امجد ، ایف ۔ جی سر سید کالج ، راولپنڈی، ۱۹۸۶ء
۲۔ حمید کاشمیری ، مضمون، ٹیلی ویژن ڈراما، ص ۲۲۷
۳۔ اصغر ندیم سیّد، مقالہ نگار سے ملاقات ، ۲ ۲ جون ۲۰۰۱ء ، ڈیفنس لاہور
۴۔ عتیق احمد ، مضمون، ٹیلی ویژن ڈراما، ایک تخلیقی فن، مشمولہ، جریدہ ، ٹیلی ویژن ڈراما نمبر ، مرتبہ، تاج سعید ، ارژنگ، پشاور، نومبر ۱۹۹۶ئ، ص ۱۵۰
۵۔ عبد الجمیل، مضمون، (ترجمہ شدہ) سکرین پلے لکھنے والے کا نصب العین، مشمولہ، ”جریدہ ” ٹیلی ویژن ڈراما نمبر۔ ص ۵۴
۶۔ ادیب مرزا ، اردو ڈراما، ۴۷ء کے بعد، مشمولہ، پاکستانی ادب، ڈراما (چھٹی جلد حصہ اول ) ص ۹۱، رشید امجد ،
ایف ۔ جی سر سید کالج ، راولپنڈی
۷۔ آغا ناصر، آغا ناصر کی یادداشتیں ، روزنامہ، جنگ، سنڈے میگزین، ۲ ۲ اکتوبر ۲۰۰۰ء ، ص ۱۲
۸۔ منو بھائی، دیباچہ، ڈراما، رگوں میں اندھیرا، یونس جاوید، گل رنگ پبلشرز ، لاہور
۹۔ آغا ناصر، آغا ناصر کی یاداشتیں ، ۲۳ جولائی ۲۰۰۰ئ، ص ۱۴
۱۰۔ نسرین پرویز، پاکستانی ٹیلی ویژن ڈراما اور سماجی تبدیلیاں، شعبہ ابلاغِ عامہ، جامعہ کراچی ۱۹۹۹ئ، ص ۵۶
۱۱۔ نسرین پرویز، پاکستانی ٹیلی ویژن ڈراما اور سماجی تبدیلیاں، ص ۱۵۷
۱۲۔ نصرت ٹھاکر ، بحوالہ پاکستان ٹیلی ویژن کے ۲۵ سال، مرتب، منیر احمد، میڈیا ہوم، اسلام آباد، ۱۹۹۰ئ، ص ۵۶
۱۳۔ آغا ناصر، آغا ناصر کی یادداشتیں ، ۱۸ جون ۲۰۰۲ئ، ص ۱۳
۱۴۔ آغا ناصر کی یادداشتیں، روزنامہ،جنگ ، سنڈے میگزین، ۶ اگست ۲۰۰۰ء ، راولپنڈی ، ص ۱۲
۱۵۔ آغا ناصر کی یادداشتیں ، ۲۲ اکتوبر ۲۰۰۰ئ، ص ۱۲
۱۶۔ آغا ناصر کی یادداشتیں ، ۱۳ اگست ۲۰۰۰ئ، ص ۱۴
۱۷۔ آغا ناصر کی یادداشتیں ، ۱۳ اگست ۲۰۰۰ئ، ص ۱۴
۱۸۔ آغا ناصر کی یادداشتیں ، ۲۲ اکتوبر ۲۰۰۰ئ، ص ۱۲
۱۹۔ آغا ناصر کی یادداشتیں ، سنڈے میگزین ، ۳ دسمبر ۲۰۰۰ئ، ص ۱۴
۲۰۔ اصغر ندیم سیّد ، مقالہ نگار سے ملاقات ، ۲۲ جون ۲۰۰۱ئ، ڈیفنس لاہور
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.