دانشوروں کی اقسام
ناصر عباس نیر
انیسویں صدی کے آخر میں جب دانشوروں نے ایک نئے سماجی طبقے کے طور پر اپنی شناخت قائم کرنا شروع کی تو اس اس طبقے میں علم اور آرٹ کے سب شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔ وہ شخص جو کچھ نہ کچھ تخلیق کرتاتھا، کسی خیال کے ابلاغ کی قدرت رکھتا تھا، اس کے قارئین و مخاطبین کا چھوٹا موٹا حلقہ تھا، اسے دانشور سمجھا گیا۔ ہمارے یہاں سرسید ، آزاد، حالی ،شبلی، نذیر احمد،مولوی ذکااللہ، امیر علی، مولانا قاسم ناناتوی اور ان سے ذرا پہلے غالب (خصوصاً اپنے اردو خطوط کے حوالے سے)، ماسٹر رام چندر،امام بخش صہبائی دانشور تھے،اگرچہ انھوں نے اپنے لیے یہ لفظ اختیار نہیں۔
تاہم انھوں نے اس زمانے کی نو آبادیاتی صورتِ حال سے پیدا ہونے والے تعلیمی، ثقافتی، معاشی، اخلاقی، سیاسی سوالات کے جوابات کی خاطر نئے خیالات قبول کیے یا تخلیق کئے، ان کی ترسیل کے لیے رسائل و اخبارات کا سہارا لیا،اور اپنے قارئین و مخاطبین کا ایک واضح حلقہ پیداکیا۔ یہ سارا عمل دانش ورانہ تھا۔یہ لوگ شاعر، مضمون نگار، مؤرخ، سوانح نگار،ناول نگار،استاد، صحافی تھے۔خودمغرب میں اور برصغیرمیں دانشور طبقے کی یہ شناخت مبہم تھی۔ان میں یہ بات تو مشترک تھی کہ ان کے ذہن وتخیل اپنے زمانے کے سلگتے ہوئے سوالوں پر مرتکز تھے، مگر ان میں طرزِ فکریا تصورِ کائنات کا بنیادی نوعیت کا فرق تھا، اور اس کے نتیجے میں ایک ہی سوال کی تفہیم متضاد طریقے سے ہوتی تھی،اور یہ متضاد طریقہ ایک مسئلے کو دو مختلف پہلوؤں سے سمجھنے کی کوشش سے مختلف تھا۔اس سے دو متحارب تصورات پیدا ہوتے تھے۔
اسی زمانے میں سرسید نے ’’زاہد اور فلاسفر کی کہانی اور دو سلطنتوں کا مقابلہ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تہذیب الاخلاق میں شایع کیا۔یہ مضمون جو ایک کہانی کی ہیئت میں لکھا گیا ہے،اردو میں پہلی مرتبہ دو قسم کے دانشوروں میں تفریق کرتا ہے۔ مضمون میں ایک قسم کے دانشور کی نمائندگی زاہد ،اور دوسری قسم کے دانشور کی ترجمانی فلاسفر کرتا ہے۔ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ زاہد اور فلاسفر دونوں خدا کے متلاشی ہیں، مگر دونوں کی تلاش کے طریقے جد اجدا ہیں۔ زاہد آنکھیں بند کئے، تسبیح وتہلیل کرتے ہوئے خدا کو ڈھونڈ رہا تھا،اور فلاسفر آنکھیں کھولے خدا کی صنعتوں کو دیکھ رہاتھا،اور ان صنعتوں میں خدا کی حکمت اور صفات کا مشاہدہ کررہا تھا۔ اتفاقاً دونوں کی ملاقات ہوئی ۔دونوں نے طے کیا کہ دنیا کی سیر کریں۔
پھرتے پھراتے ،ایک ملک میں پہنچے۔ یہاں کا بادشاہ شان و شوکت ، رعب و دبدبے اور فیاضی میں مشہورتھا۔’’اس بادشاہ کی بادشاہت میں کوئی قانون نہیں تھا۔ جس کو چاہتا تھا نوازتا تھا،جس کو چاہتاتھا بگاڑتا تھا۔جو چاہتاحکم دیتا، اور جس حکم کو چاہتابدل دیتا۔ اس کی تمام رعایا خوف ورجا میں بسر کرتی تھی۔ نہ خدمت کرنے والوں کو توقع تھی کہ ضرور بادشاہ ہماری خدمت کی قدر کرے گا ،نہ شریر اور شورہ پشتوں کو یہ خیال تھا کہ ضرور بادشاہ ہم کو سزادے گا‘‘۔ زاہد نے کہا کہ بادشاہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ کیوں کہ ہمارا خدا بھی ایسا ہی ہے۔ اس کے بعد دونوں اگلے ملک میں پہنچے۔ وہاں کے بادشاہ کا قانون خدائی قانون کی طرح کبھی تبدیل ہونے والا نہ تھا۔ ’’اس کے وعدے ایسے مستحکم تھے کہ کبھی ان میں تخلف نہیں ہوتا تھا‘‘۔وہاں کوئی ایسے مصاحب بھی نہ تھے جو بادشاہ کے قانون کو حکم کوتبدیل کرا سکتے۔ وہاں کے لوگ طمانیت سے رہتے تھے،کیوں کہ انھیں یقین تھا کہ انھیں ان کی کوشش کا پھل ملے گا۔’’وہ یہ سمجھتے تھے کہ بادشاہ قادرِ مطلق اور خود مختارہے۔جو قانون کہ اس نے اپنی مرضی اور اپنے اختیار کامل سے بنایا ہے،اسی کامل قدرت اور اختیار سے اس کو قائم بھی رکھتا ہے‘‘۔زاہد نے ایسے بادشاہ کو کاٹھ کی مورت کہہ کر ماننے سے انکار کردیا ،مگر فلاسفر نے اس بادشاہ کو پسند کیا۔
سرسید نے یہ مضمون اس وقت لکھا ،جب اردو میں دانش وری کی روایت اپنے ابتدائی مرحلے میں تھی۔ سرسید نے بھانپ لیا کہ اردو کی دانش ورانہ روایت ، اپنی تشکیل کے اوائل ہی میں،داخلی سطح پر ایک گہرے تضاد کی حامل ہے۔ یہ تضادصرف خیالات کا نہیں تھا،اس علمیات کا تھا،جس کے تحت دنیا و سماج کو سمجھا جارہا تھا۔ ایک طرف’مذہب اساس علمیات‘ تھی، اور دوسری طرف ’انسان اساس علمیات‘ تھی۔ پہلی علمیات اس مفہوم میں مذہب اساس ہے کہ یہ مذہبی تصورات و عقائد کی درستی یا توثیق پر زور دیتی ہے ؛ یہ سماج وفطرت و انسان کا مطالعہ کسی ایک یا زیادہ مذہبی صداقتوں کی توثیق کی خاطر کرتی ہے۔ دوسری قسم کی علمیات اس معنی میں انسان اساس ہے کہ یہ سماج و دنیا و انسان کو مطالعہ ،ان کی حقیقی صورتِ حال کی تفہیم کی خاطر کرتی ہے۔ زاہد پہلی کی نمائندگی کرتا ہے ،اور فلاسفر دوسری کی۔زاہد جس دانش وری کی نمائندگی کرتا ہے ،وہ سماج اور تاریخ کو انسانی ارادوں کا مظہر نہیں سمجھتی؛اس کی نظر میں ماورائی طاقت ،انسانی علم سے بعید ارادے کے تحت ،سماجی و تاریخی عمل میں مداخلت کرتی ہے؛وہ چاہے تو قوانین کو توڑ دے ، چاہے تو انھیں برقرار رکھے ؛ہم اس کی مصلحتوں کا راز نہیں پاسکتے۔ اس اعتقاد کا حامل دانش ور کسی سماجی صورتِ حال کی ذمہ داری افراد یا طبقات پر عائد نہیں کرتا۔ملوکیت، ملائیت ،استعماریت، غربت ،جہالت ،دہشت گردی سب منشاے الہیٰ سے ہیں،اور اکثر ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہیں۔جب کہ فلاسفر جس دانش وری کی نمائندگی کرتا ہے، وہ ہر سماجی صورتِ حال کو انسانی ارادوں کے مظہر کے طور پر دیکھتی ہے،لہٰذا ہر صورتِ حال یا واقعے کی ذمہ داری افراد، طبقات یا اداروں پرعائد کرتی ہے ۔اس کی نظر میں جہالت وغربت سے لے کر دہشت گردی تک کے مسائل خاص سماجی و معاشی وتعلیمی نظام کے پیدا کردہ ہیں۔لاکھوں بے گناہ لوگوں کا مارا جانا،یاکروڑوں لوگوں کا حیوانی سطح پر زندگی بسرکرنا، یا بے شمارلوگوں کا اعلیٰ ترین خیالات ،اعلیٰ درجے کے فنون سے مسرت حاصل کرنے سے محروم رہنا ،یا اربوں لوگوں کا فرصت سے محروم رہ کر جانوروں کی طرح دن رات مشقت کرنا ،مشیت ایزدی نہیں ہے۔ان سب مسائل کے ذمہ داروں کے خلاف ایک واضح مؤقف اختیار کیا جاسکتا ہے،اور انھیں قابلِ مواخذہ سمجھا جانا جائز ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ سرسید نے زاہد اور فلاسفر،دونوں کو خدا کی تلاش میں سرگرداں دکھایا ہے، مگر ایک کا خدا متلون مزاج ہے ،اور دوسرے کا خدا اپنے بنائے گئے قوانین کو قائم رکھنے والا۔ اسی ضمن میں ایک اہم نکتہ سرسید نے یہ پیش کیا ہے کہ خدا یا مذہب کے بارے میں تصورات و عقائد محض ذہنی تجرید نہیں ہیں؛ان کی گہری نسبت دنیا و سماج کو سمجھنے کے طریقوں سے ہے۔گویا دنیا و سماج سے متعلق ہمارا فہم ،ہمارے ان تصورات کا عکس ہوتا ہے ،یاان کے مماثل ہوتا ہے جنھیں ہم اپنی ذہنی زندگی میں غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں۔ایک بنیادی اور بڑا تصور ، ہماری روزمرہ کی فکر کے طریقوں پر اثرا نداز ہوتا ہے۔لہٰذا ہم دنیا و سماج کو اس وقت تک تبدیل نہیں کرسکتے،جب تک اپنے ان بنیادی اور بڑے تصورات کو تبدیل نہ کریں۔ چونکہ تصورات کی تخلیق اور تبدیلی کا کام دانشور انجام دیتے ہیں،اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجا نب ہیں کہ دانش ور سماج کی تبدیلی میں کلیدی کردار اداکرتا ہے۔
سر سید نے جن دانشوروں کو زاہد اورفلاسفر کے نام سے پہچانا، انھیں آج ہم مذہبی اور سیکولر دانش ور کہتے ہیں۔ اطالوی مارکسی مفکر گرامشی نے بھی دانشوروں کی دو قسموں میں فرق کیا تھا: روایتی دانش ور اور تنظیمی(جن کے لیے گرامشی Organicکی اصطلاح استعمال کرتے ہیں) دانشور۔گرامشی جنھیں روایتی دانش ور کہتے ہیں،ان کی خصوصیات کم و بیش وہی ہیں جو سرسید نے زاہد سے منسوب کی ہیں۔گرامشی روایتی دانشوروں میں اساتذہ، پادریوں اوران منتظمین کو شامل کرتے ہیں جو نسل در نسل ایک ہی کام کیے چلے جاتے ہیں۔ یہ اس لیے روایتی دانشور ہیں کہ وہ نئے خیالات کی تخلیق میں حصہ نہیں لیتے، پہلے سے موجود خیالات کا تحفظ کرتے ہیں؛ گویا منقولات کے حامی ہوتے ہیں۔ جب کہ تنظیمی دانشوروں میں گرامشی صنعتی ماہرین،سیاسی معیشت کے متخصصین، نئے کلچر اور نئے قانونی نظام کے منتظمین کو شمارکرتے ہیں۔
گرامشی نے یہ تفریق بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں کی تھی،جب آخر الذکر ماہرین نے اپنی موجودگی محسوس کرانا شروع کی تھی۔ راجندر پانڈے کو اکیسویں صدی میں پانچ قسم کے دانشور نظر آتے ہیں: علمی اشرافیہ، انتظامی اشرافیہ، سماج کے نقاد، سماجی انقلاب کا ہراول دستہ، ذمہ دار مگر غیر وابستہ دانش ور۔ حقیقت یہ ہے کہ دانشوروں کی یہ اقسام کافی مغالطہ آمیز ہیں۔ راجندر پانڈے کی انتظامی اشرافیہ دراصل گرامشی کے تنظیمی دانشوروں کا دوسرا نام ہے۔البتہ علمی اشرافیہ سے مراد جامعات کے اساتذہ اورفنی ماہرین ہیں؛انھیں علمی اشرافیہ اس لیے کہاگیا ہے کہ یہ لوگ جس علم کی تخلیق کرتے ہیں،اسے اہلِ علم کے مخصوص حلقے تک محدود رکھتے ہیں؛ان کے علم کی زبان ،دلائل، اصطلاحات اسی حلقے کے لیے قابلِ فہم ہوتی ہیں؛ یہ اپنے علم کو اپنے شعبے یا ادارے کی طاقت بناتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انتظامی اشرافیہ کے لوگ اصل میں ماہرین ہیں، جو مختلف سرکاری وغیر سرکاری تنظیموں میں اعلیٰ عہدے حاصل کرنے کے لیے درکار مہارتیں حاصل کرتے ہیں۔ اوّل تو وہ علم کی تخلیق میں حصہ نہیں لیتے، موجود علم پر عبور حاصل کرتے ہیں، اور اسے متعلقہ تنظیم کے مالی فائدے کے لیے بروے کار لاتے ہیں۔ ان کی آرا، خیالات، مؤقف سب کچھ اپنی تنظیم کے مقاصدکی نگہبانی کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ علم کی تخلیق کرتے ہیں، یعنی نئےموضوعات پر تحقیق کرتے بھی ہیں تو اس علم کے ثمرات ان کی تنظیم اٹھاتی ہے۔ ماہرین کا یہ طبقہ فن کی قدیم زمانے سے چلی آرہی قسموں ’آزاد و بے غرض‘(Liberal) اور ’افادی‘(Servile) میں فرق کرتے ہوئے ، آخرالذکر سے تعلق قائم کرتا ہے۔ حقیقتاًجنھیں دانش ور کہا جاسکتا ہے، وہ راجندر پانڈے کی بیان کی ہوئی آخری تین قسمیں ہیں۔ یعنی سماج کے نقاد، سماجی انقلاب کا ہراول دستہ اور ذمہ دار مگرغیر وابستہ اہلِ نظر۔
یہ لوگ ’آزاد و بے غرض علم‘ میں یقین رکھتے ہیں۔ جن دانشوروں نے انقلاب کا ہراول دستہ بننے کی سعی کی، ان کی فکر پرمارکسیت کا گہر ااثر تھا۔ جب کہ جن دانشوروں نے سماج کے نقاد کا کردار ادا کیا ہے، وہ کسی خاص فلسفے سے متاثر نہیں تھے؛ البتہ بعض اخلاقی اصولوں میں اعتقاد رکھتے تھے۔ دانشوروں کے گروہ میں کچھ اور لوگ بھی شامل کیے جانے لگے ہیں۔ جن کا ذکرکیا جانا چاہیے۔مثلاً عوامی دانشور(Public Intellectual)، میڈیا ماہرین، سیکیورٹی تجزیہ نگار،اخباری کالم نگار۔ان میں سے عوامی دانشورایک حد تک مارکسی فکر سے متاثر ہے، مگر وہ انقلاب کا ہراول دستہ بننے، یعنی انقلابی تحریک کی قیادت کرنے سے زیادہ مقتدر طبقوں کی پالیسیوں کا نقاد ہوتا ہے۔عوامی دانشور عوامی اہمیت کے مسائل پر واضح مؤقف اختیار کرتا ہے۔ موجودہ زمانے میں نوم چومسکی اور ارون دھتی رائے عوامی دانش ور ہیں؛ دونوں اپنی اپنی ریاستوں کی امتیازی پالیسیوں پر سخت لفظوں میں نکتہ چینی کرتے ہیں،اور دونوں اپنی تنقید کی بنیاد علم اور تحقیق پر رکھتے ہیں۔
افسوس اردو میں اس وقت ہمیں کوئی عوامی دانشور نظر نہیں آتا؛ ہمیں اردو میں دانش کی کوئی ایسی آواز سنائی نہیں دیتی، جو معاصر عہد کے عظیم المیے یعنی مذہبی شدت پسندی، طالبانیت اور دہشت گردی کے خلاف جرأت سے اظہار کرتی ہو۔ یہ بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ سماج کے نقاد اور عوامی دانشوروں کی جگہ ہمیں میڈیا ماہرین، سیکورٹی تجزیہ نگار اور اخباری کالم نگاراور سیاسی جماعتوں کے ترجمان نظر آتے ہیں؛ یہی لوگ خاص مسائل کو اجاگرکرتے ہیں، خاص طرح سے ان پر بحث کرتے ہیں، اور رائے بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
دانش وروں کی قسموں کا ذکر کرتے ہوئے’ذمہ دار مگر غیر وابستہ اہلِ نظر‘ کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ یہ لوگ نہ تو انقلاب کے داعی ہوتے ہیں ،نہ ہر مسئلے پر اظہارِرائے کرتے ہیں۔ دیگر دانشور کسی مسئلے کے سلسلے میں مؤقف، رائے یا پوزیشن اختیارکرنے میں یقین رکھتے ہیں، مگر ’ذمہ دار مگر غیر وابستہ اہلِ نظر‘ نئے علم، نئی نظر، نئی بصیرت، نئے وژن کی تخلیق میں یقین رکھتے ہیں۔ انھیں علم کی تخلیق کا حقیق، بے ریا ذوق ہوتا ہے۔ وہ عموماً بنیادی اور بڑے تصورات سے بحث کرتے ہیں۔ عوامی دانشور فوری مسائل پر اپنا مؤقف پیش کرتا ہے ،مگر غیر وابستہ اہل دانش ان سماجی ساختوں سے دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جو فوری مسائل کا سبب اور سرچشمہ ہوتی ہیں۔
استادِمحترم دانش وروں کی اقسام اوروظائف کے حوالے سے آپ نے نہایت عالمانہ مقالہ پیش کیا ہے جس میں آپ نے ان اردو دانش وروں کی عدم دستیابی کا ذکر کیا ہےجو معاصر عہد کے عظیم المیے یعنی مذہبی شدت پسندی ،طالبانیت اور دہشت گردی کے خلاف جرأت سے اظہار کرتے ہوں میں نے بحثیت ایک طالب علم آپ کی جملہ تحریروں سے جو سبق حاصل کیا ہے اس کی رو سے ما بعد جدید عہد (نئی تاریخیت) میں علت اور معلول کا سابق بلا واسطہ تعلق تو زیرِتجزیہ نہیں لایا جاتا لیکن اصل اہمیّت بہر حال پھر بھی علت(cause)ہی کو حاصل یے تو کیا نتائج کے بجائے اسباب کو زیر بحث لانا اور ان کے سدباب تدارک اور حل کی قابلِ عمل صورتیں پیدا کرنا آج کے دانش ور کی اولین ذمہ داری نہیں ھے؟ کیوں کہ صرف ںتاٗج (Effects)تو بھگت بھگت کر ہمیں ذہن نشین ھو چکے ہیں