پل صراط
امر جلیل
مجھے تاریخ اور سن یاد نہیں ہے۔ نہ جانے کب سے عیدالاضحی کے موقع پر میں بکرا بن جاتا ہوں۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے۔ میں سمجھتاہوں، جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میں عیدالاضحی کے موقع پر آدمی سے بکرا بن جاتا ہوں۔ جب میں بہت چھوٹا تھا تب میں بکری کا ننھا منا میمنا بن جاتا تھا۔ اُچھلتا کودتا تھا۔ مَیں مَیں مَیں کرتا پھرتا تھا۔ ہر چیز میں منہ مارتا تھا۔ اپنی ماں اور بہنوں کے دوپٹّے چبا جاتا تھا۔ باورچی خانے میں گھس کر پالک، گاجر، مولی اور ٹنڈے کھا جاتا تھا۔ دیگچی میں پڑا ہوا دُودھ پی جاتا تھا۔
میں چونکہ کسی بکرے بکری کا بچہ نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے دیگچی میں پڑا ہوا دُودھ پی جاتا تھا۔ اگر میری ماں بکری ہوتی تو میں اس کا دُودھ پیتا، مگر میرے والدین آدمی تھے۔ خاتون اور مرد تھے۔ بچپن میں جب میں ننھا منا میمنا بن جاتا تھا تب صحن کے پچھواڑے میں بندھے ہوئے قربانی کے جانوروں میں گھل مل جاتا تھا۔ تب ہمارا کنبہ ماشاء اللہ بڑا ہوتا تھا۔ قربانی کے لئے ایک اونٹ، دو تین موٹے تازے بیل اور سانڈ اور چھ سات بکرے، دُنبے اور مینڈھے لائے جاتے تھے۔ اونٹ جب بیٹھا رہتا تھا تب میں اس کی پیٹھ پر چڑھ جاتا تھا۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا تھا کہ میرے پیٹھ پر چڑھ جانے کے بعد اونٹ اچانک کھڑا ہو جاتا تھا۔ میں ڈر جاتا تھا۔ مجھے پتہ نہیں چلتا تھا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور بیٹھے گا بھی یا پھر ذبح ہونے تک کھڑا رہے گا۔
تب میں گھبرا کر اونٹ کی پیٹھ سے کود جاتا تھا۔ ایک مرتبہ اونٹ کی پیٹھ سے کودتے ہوئے میری ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ لنگڑا کر چلتے ہوئے میں نے فیصلہ کیا تھا کہ قیامت کے روز اونٹ پر سوار ہو کر میں پل صراط پار کرنے کی کوشش نہیں کروں گا۔ تمام جانوروں میں اونٹ کی سواری مجھے نامعقول لگتی ہے۔ میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں پھر کبھی اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھنے کی غلطی نہیں کروں گا۔ زندگی میں ٹانگ ایک بار ٹوٹنی چاہیے۔ دوبارہ نہیں۔ دُوسری مرتبہ ٹانگ تڑوانے کے بعد انسان اشرف المخلوقات کہلوانے کا حقدار نہیں رہتا۔
ایک مرتبہ، جب میں بہت چھوٹا تھا اور میمنا بن جاتا تھا، میں نے اپنی ماں سے کہا تھا۔ ’’ماں، میں اونٹ پر سوار ہو کر پل صراط پار نہیں کروں گا۔ میں گھوڑے پر سوار ہو کر پل صراط پار کروں گا۔‘‘
ماں نے مجھے بڑے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔ ’’بیٹے ہم قربانی کے جانور پر سوار ہو کر پل صراط پار کرتے ہیں۔ ہم گھوڑے کی قربانی نہیں دیتے، اس لئے تم گھوڑے پر سوار ہو کر پل صراط پار نہیں کر سکتے۔‘‘
میں نے ماں سے پوچھا تھا۔ ’’بکرے، مینڈھے یا دُنبے پر سواری کرتے ہوئے میں اچھا لگوں گا؟‘‘
ماں نے مجھے پیار کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’بیٹے میں تجھے بیل یا سانڈ کی پیٹھ پر بٹھا کر پل صراط پار کرواؤں گی۔‘‘
سانڈ یا بیل کی پیٹھ پر بیٹھ کر سوار ہو کر پل صراط پار کرنے والی بات نے مجھے مخمصوں میں ڈال دیا۔ میں نے ماں سے کہا۔ ’’ماں، میں اپنی سائیکل پر سوار ہو کر پل صراط پار کروں گا۔‘‘
میری بات سن کر ماں گھبرا گئی۔ اس نے اپنے میاں سے بات کی۔ میری امی کے میاں میرے ابو ہیں۔ ابو اور امی مجھے ستّرسالہ سنیاسی باوا کے پاس لے گئے۔ انہوں نے سنیاسی باوا سے کہا۔ ’’ہمارا بچہ اوٹ پٹانگ باتیں کرتا ہے۔ اور عیدالاضحی کے موقع پر خود کو میمنا سمجھنے لگتا ہے اور میمنوں جیسی حرکتیں کرتا ہے۔‘‘
سنیاسی باوا نے جلتے ہوئے کوئلوں پر مٹھی بھر لوبان ڈالا۔ دُھوئیں کے بادل اُٹھے۔ سنیاسی باوا نے جنتر منتر پڑھتے ہوئے کہا۔ ’’تمہارا بیٹا زندگی بھر قربانی کا بکرا بنتا رہے گا۔‘‘
میں مرحوم اداکار محمد علی کی طرح چیخ اُٹھا۔ ’’نہیں! سنیاسی باوا نہیں۔ میں زندگی میں صرف ایک بار قربانی کا بکرا بنوں گا۔ بار بار نہیں۔ بار بار قربانی کا بکرا بننے کے لئے مجھے بار بار جنم لینا پڑے گا، جوکہ مجھے قبول نہیں ہے۔‘‘
سنیاسی باوا نے مسکراتے ہوئے کہا ’’میں نے کب کہا ہے کہ قربانی کا بکرا بننے کے بعد تم کٹتے بھی رہو گے۔‘‘
سنیاسی باوا کی بات سن کر میں بہت خوش ہوا۔ مجھے ڈر قربانی کا بکرا بننے کا نہیں تھا۔ مجھے ڈر تھا کٹ جانے کا۔ ایک مسٹنڈا دُنیا میں مجھے قربان کرنے کے بعد قیامت کے روز میری پیٹھ پر سوار ہو کر پل صراط پار کرے گا! اس بات سے میری جان جاتی تھی۔ میں تھر تھر کانپنے لگتا تھا۔ لیکن میں نے بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ دُنیا میں مجھے قربان کرنے کے بعد قیامت کے روز میری پیٹھ پر سوار ہو کر پل صراط پار کرنے والے کو پھدک پھدک کر میں پل صراط کے نیچے کھولتے ہوئے سمندر میں گرا دوں گا۔
سنیاسی باوا ڈھونگی نہیں تھا۔ اس نے جو کچھ کہا تھا وہ آگے چل کر سچ ثابت ہوا تھا۔ بکرا بن جانے کے بعد میں قربانی کے لیے لائے گئے جانوروں کی منڈی میں جانوروں کے درمیاں، خاص طور پر بکروں کے درمیاں گھومتا پھرتا تھا اور ان سے مل جل جاتا تھا، بلکہ مل جاتا ہوں۔ عیدالاضحی کے موقع پر میں گھر پر نہیں ملتا۔ ڈھونڈنے والے مجھے منڈی مویشیاں میں بکروں کے کسی ریوڑ میں ڈھونڈھ نکالتے ہیں۔ میں کئی مرتبہ قربانی دینے والوں کے ہاتھوں بک چکا ہوں۔ کٹنے سے پہلے معجزاتی طور پر وہاں سے بھاگ کھڑاہوتا ہوں۔
[su_quote]ایک مرتبہ ایک رشوتی جج مجھے خرید کر لے گیا تھا۔ جیسے جیسے میری قربانی کے دن قریب آ رہے تھے جج مجھے پیار سے گھاس کھلانے آتا تھا اور مجھے پستہ بادام والا میٹھا دُودھ پلاتا تھا۔ جج گنجا تھا اور بے حد موٹا تھا۔ بھینسا لگتا تھا۔ ایسے شخص کو پیٹھ پر بٹھا کر قیامت کے روز پل صراط پار کرانا میرے لئے امکان سے باہر تھا۔ ایک دن جج کے ہاتھوں گھاس کھاتے ہوئے میں نے جج سے کہا۔ ’’قیامت کے روز پل صراط کے بیچوں بیچ جب تم میری پیٹھ پر سوار ہو گے، تب تمہارے خلاف فیصلہ میں صادر کروں گا اور تمہیں پل صراط کے نیچے کھولتے ہوئے سمندر میں گرا دوں گا۔‘‘[/su_quote]
ڈر کے مارے موٹے جج کی جان نکل گئی۔ اس نے چلا کر اپنے نوکروں سے کہا۔ ’’نکالو اس آسیب زدہ بکرے کو میرے گھر سے۔‘‘
ہمیشہ کی طرح قربان ہونے سے میں بال بال بچ گیا اور آج بال بچوں والا ہوں۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ