پلوامہ حملے کے مضمرات
از، حسین جاوید افروز
’’اس وقت جب کہ اب پاکستان استحکام کی جانب گامزن ہے اور ہم نے پندرہ سال دہشت گردی کے خلاف ایک مشکل لڑائی لڑی جس میں ہمارے ستر ہزار سے زائد لوگ شہید ہوئے اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ ہم کیوں اس طرح کا فعل انجام دیں گے؟ اس میں ہمارا کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ مجھے بتائیں کہ کون سا قانون بھارت کو مدعی، منصف اور جلاد بننے کی اجازت دیتا ہے؟ میں یہ واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر بھارت نے حملہ کیا تو پاکستان جواب دینے کے لئے سوچے گا نہیں بَل کہ پاکستان جواب دے گا۔ اس وقت ہندوستان کو سوچنا چاہیے کہ کیوں کشمیریوں سے موت کا خوف ختم ہو چکا ہے؟
نئی دلی ہمیں پلوامہ حملے کے حوالے سے ثبوت دے میں یقین دلاتا ہوں کہ ہم ضرور کارروائی کریں گے ‘‘۔وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ہندوستانی وزیر اعظم ،ان کے پاکستان اور کشمیر دشمن میڈیا کو دندان شکن جواب دیا جاچکا ہے ۔ اس خطاب کا پس منظر یہ رہا کہ 14 فروری کوجنوبی کشمیر میں پلوامہ کے علاقے اوانتی پورہ میں سی آر پی ایف کے 78 بسوں کے قافلے پر کئے خودکش حملے کے نتیجے میں ایک ہی جھٹکے میں 44 اہلکار ہلاک ہوگئے۔
جس کے بعد ہندوستانی فوج ،الیکٹرانک میڈیا اور نریندرا مودی کچھ ہی دیر میں یہ اخذ کرلیا کہ اس حملے کی پلاننگ ،سہولت کاری میں اسلام آباد ملوث ہے ۔جس سے یقینی طور پر آن کی آن ہندوستان بھر میں خوفناک جنگی جنون پھیل گیا اور پاکستان اور کشمیریوں کو سبق سکھانے کی باتیں گردش کرنے لگیں۔لیکن اب نئی دلی کو سوچنا چاہیے کہ ایسا زہر آلود اسکرپٹ پہلی بار وہ پھیلا نہیں رہے ۔اس سے قبل بھی ماضی قریب میں مئی 98 کے جوہری دھماکوں سے لے کر دسمبر 2001 کے انڈین پارلیمنٹ پر حملے کا واقعہ ہو یا پھرنومبر 2008 کے ممبئی حملے ہوں ،اس کے بعد 2016 جنوری کا پٹھان کوٹ بیس پر حملہ ہو یا پھر ستمبر 2016 میں اڑی میں فوجی کیمپ پر کیا گیا حملہ ہو ہندوستانی سرکار نے ہمیشہ بغیر تحقیقات کئے پاکستان کو سیدھا مجرم ہی نامزد کرنا شروع کردیا تھا ۔اب کی بار پلوامہ پر فوجی کانوائے پر حملے کے بعد کا شوروغل کچھ یکسانیت سے بھرپور لگا لیکن اس سے اتنا ضرور ہوا کہ نریندر مودی کو مئی میں ہونے والے لوک سبھا کے چناؤ کیلئے بیچنے کیلئے چورن مل گیا جس کی بنیاد پر بھارتی جنتا پارٹی جنگی کیفیت پیدا کر کے پاکستان مخالفت پر اپنے ووٹ بینک کو شائد آ کسیجن فراہم کر سکے گی۔
حالاں کہ ابتدائی شواہد سے یہ علم بھی ہوچکا ہے کہ حملے میں استعمال ہونے والا بارودی مواد انڈین اسلحہ خانے سے ہی لیا گیااور بقول کرنل آلوک استھانااتنی بڑی تعداد میں بارودی مواد لائن آف کنٹرول سے وادی میں لانا ممکن ہی نہیں ہے ۔یہ سراسر انڈین ملٹری انٹیلی جنس کی کھلی ناکامی ہے کہ شدید خطرات اور الرٹ کے باوجود CRPF کے جوانوں کو سڑک کے راستے جموں سے وادی کشمیر بھیجا گیا ۔جبکہ اس حملے کو انجام دینے والا عادل ڈار کون تھا اور ماضی میں انڈین فورسز نے کس طرح اس کی عزت نفس کو تار تار کیا یہ تمام حقائق سب کے سامنے آشکار ہوچکے ہیں۔ہم ماضی میں نہیں جاتے لیکن اب کشمیر کا بچہ بچہ صرف 2008 سے ہی وادی میں پھیلتے ہوئے تناؤ اور انارکی کی وجوہات سے بخوبی واقف ہے۔
کشمیریوں کی بھارتی فورسزپر سنگ باری سے لے کر برہان وانی اور افضل گورو تک اس نوجوان کشمیری نسل نے ہندوستانی سرکار ، فوج اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مکروو کھیل کا خود بغور مشاہدہ کیا ہے اور اس دس سال کے عرصے کو ہم کشمیر میں انتفادہ کی نئی تحریک قرار دے سکتے ہیں جس کا خمیر مکمل طور پر مقامی بنیادوں پر اٹھا ہے اور اب اس میں خود کش حملے کا عنصر شامل ہونے سے جس طرح نئی دلی بوکھلایا ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
اب وہ مودی کے ماضی کے دلفریب نعرے کہ ہم انسانیت، کشمیریت اور جمہوریت کے دائرے میں کشمیر کے مسائل حل کریں گے سے یکسر بیزار ہوچکے ہیں اور ان کے نزدیک مودی حکومت کی حیثیت ایک پاکھنڈ اور ڈھونگ سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اب نریندر مودی جو کہ بھارتی عوام کو اچھے دن دلانے میں ناکام رہے ہیں جن کی وجہ سے آج بھارتی کسان ،چھوٹے بیوپاری ،مزدور اور دلت سے لے کر مسلم تک بھارتی جنتا پارٹی کا نام بھی سننا نہیں چاہتے ،اب مودی جنگی جنون کا راگ گا کر برصغیر میں تصادم کی فضا تخلیق کرنے میں مصروف ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت بقول افتخار گیلانی پہلی بار جنوبی بھارت کی ریاستوں جیسے کرناٹک،آندھرا اور مہاراشٹر میں بھی اینٹی کشمیری مہم اپنے زوروں پر ہے جبکہ بہار ،چھتیس گڑھ ،ہریانہ اورباقی ماندہ شمالی بھارت تو پہلے سے اینٹی پاکستان اور اینٹی کشمیری نعروں سے دہک رہا ہے ۔اور شائد اس بار اس نفرت نے ممبئی حملوں کے بعد جنم لینے والی شدت پسندی کو بھی پچھاڑ کر رکھ دیا ۔کشمیری طلبہ کو ڈرایا اور دھمکایا جارہا ہے ،راجستھان میں پاکستانی تاجروں اور زائرین کو فوری طور پر چلے جانے کا حکم دے دیا گیا ہے ۔ اسی طرح جے پور جیل میں جس طرح ایک پاکستانی قیدی کو بے رحم انداز سے موت کے گھاٹ اتارا گیا وہ لمحہ فکریہ ہے۔
جب کہ دلی میں حالت یہ ہے کہ پاکستانی سفارتخانے پر ہر دم انتہا پسند ہندؤوں کے حملے کا دھڑکا لگا رہتا ہے ۔جبکہ جموں ریجن میں بھی مسلمانوں کو اتنا دھمکایا گیا ہے کہ ہزاروں مسلم گھرانوں نے مساجد میں پناہ لے رکھی ہے ۔یہاں سابق بھارتی چیف جسٹس مارکنڈے کاٹجو بھی کہہ چکے ہیں کہ بھارتی فورسز کی جانب سے پلوامہ حملہ کے بعد کریک ڈاؤن سے کشمیر میں خون خرابہ مزید بڑھے گا اور ویت نام جیسے حالات جنم لیں گے۔نفرت کی اس آندھی نے بولی وڈ کو بھی اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور اپنے پاکستان نواز روئیے کی بدولت نوجوت سنگھ سدھو کو بھی کپل شرما شو سے نکال دیا گیا ہے جس کی کپل شرما کی جانب سے شدید مذمت بھی کی گئی ہے ۔جبکہ اداکارہ کنگنا ریناوت نے بھی پاکستان دشمنی میں ایسے بے ہودہ ریمارکس دئیے ہیں جن کو ضبط تحریر لانا بھی طبعیت پر گراں گزرتا ہے۔
تاہم ابھی بھی اس انڈسٹری میں کمل ہاسن جیسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے بغیر کسی لگی لپٹی رکھتے ہوئے کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ ببانگ دہل کیا ہے ۔وزیر اعلیٰ مقبوضہ کشمیر فاروق عبداللہ نے بھی واشگاف الفاظ میں دلی سرکار کی ظالمانہ کشمیر پالیسی پر شدید تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ کشمیری وادی میں ریڈیکل ازم بڑھنے کی بنیادی وجہ دلی سرکار کا منفی رویہ ہے جس نے کشمیری طلبہ کو بھارت میں آج غیر محفوظ بنا دیا ہے اور ایک بار ہندو مسلم فسادات کی وبا ہر سو پھیل چکی ہے۔
جبکہ بین الاقوامی فضا بھی بھارت کو اس قدر ہمدردی فراہم نہیں کرسکی جس کی دلی کو ضرورت ہے ۔سیماب صفت امریکی صدر ٹرمپ بھی مودی کو پاکستان سے بات چیت کے ذریعے مسلئے کا حل نکالنے کی صلاح دے چکے ہیں جبکہ چین نے تو پلوامہ حملے کی مذمت تک سے اجتناب برتا ہے اور بھارت پر واضح کیا ہے کہ کشیدگی بڑھانے کے بجائے اگر اس کے پاس شواہد ہیں تو پیش کرے ورنہ صبر سے کام لے ۔لیکن دوسری جانب انڈین آرمی اب بھی دلی جی ایچ کیو میں براجمان اپنے ممکنہ ملٹری آپشنز پر مغز کھپا رہی ہے ۔سابق انڈین دفاعی تجزیہ کاروں کے نزدیک اب وادی میں انڈین ائر فورس شوپیاں اور پلامہ کے علاقوں پر ٹارگٹڈ ائر سٹرائکس کرسکتی ہیں۔اس کے علاوہ لائن آف کنٹرول پر بھمبھر گلی ،حاجی پیر پاس اور پونچھ راجوڑی سیکٹر پر بھی انڈین جارحیت کے خطرات خارج از امکان قرار نہیں دئیے جاسکتے۔
ان مقاصد کیلئے راجستھان کے صحرا میں وائیو شکتی وار گیمز بھی جاری ہیں جہاں جیگوار اور میراج طیارے بھی مغربی محاذ پرمتعین کردئیے گئے ہیں ۔پلوامہ حملے کو بنیاد بنا کر نریندر مودی اپنی بپھری عوام کو خوش کرنے کیلئے اس وقت سرجیکل سٹرائک کے مقابل کچھ بڑا کرنے کا خواہشمند دکھائی دیتے ہیں۔مگر سچائی تو یہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے دو ٹوک اور جرات مند خطاب نے سرحد پار دشمن پر واضح کردیا کہ کسی مس ایڈونچر کی ناپاک خواہش نہ پالے ورنہ پاکستان جواب دینے کا سوچے گا نہیں بلکہ دندان شکن جواب دے گا۔
تاہم پلوامہ حملے کے مضمرات پر غور کیا جائے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نریندر مودی نے 2014 سے اب تک ہندوستان کو بجائے ترقی اور عدم برداشت کی جانب گامزن کرنے کے ایک نازی ریاست میں بدل دیا ہے جس کے مہیب اثرات کا سامنا ہندوستانی متنوع سماج کو مستقبل قریب میں کرنا پڑے گا ۔