پنہل ایک بار پھر اغوا ہو گیا
اسد لاشاری
پنہل، اپنے جیسے پنہوؤں کی تلاش میں تھا، تمام گمشدہ پنہوؤں کے حق میں آواز بلند کرنا اس کا وطیرہ تھا۔وہ اپنے ہم نام بھائیوں کے لیے آواز اٹھانے کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا تھا۔ پنہوں یہ سب اس لیے بھی کر رہا تھا تا کہ صدیوں سے اس کے نام سے جڑا بے وفائی کا داغ دھل جائے۔ اس نے طے کر لیا تھا کہ کسی بھی طرح بچھڑے ہووں کو ملانا ہے ۔اس کی خواہش تھی کہ تمام گمشدہ پنہوں اپنی اپنی سسی کے پاس واپس لوٹ آئیں اور اپنے اجڑے چمن کو پھر سے آباد کریں۔ تاکہ آئندہ کوئی سسی بیا باںکا رخ کرنے اور در در کی ٹھوکریں کھانےپر مجبور نہ ہواور نہ ہی یہ کہنے کی نوبت آئے کہ پنہوں بے وفا بے مروت نکلا۔
لیکن بد قسمت پنہوں اس مربتہ بھی اپنے سر سے بے وفائی کا داغ مٹانے میں ناکام رہا، رسوائی اس کا مقدر ٹھہری۔
بے وفائی کا تاج سر پر سجائے خود بھی گمشدہ ہوگیا۔ جس طرح صدیوں قبل پنہوں کو اس کے بھائی زبردستی اٹھا لے گئے تھے، اس بار بھی وہی ہوا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ صدیوں قبل پنہوں کو اپنے سگے بھائی لے گئے تھے لیکن ا س بار اس کے ہم وطن مگر خفیہ بھائی زبردستی اٹھا کر لے گئے ۔ پہلے یہ سلسلہ پنہوں کے دیس تک محدود تھااب سسی کی سندھ تک اس کا دائرہ وسیع ہو چکا ہے ، موجودہ گمشدہ پنہوں کاتعلق بھی سسی کی سندھ سے ہے۔
سسی کے وطن میں زبردستی اغوا ، ٹارچر اور تشدد زدہ لاش لاوارثوں کی طرح سنسان سڑکوں سے ملنے کی خبریں اب معمولی بات بن چکی ہیں ۔ اس بربریت کے خلاف مختلف سطحوں پر آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ بلوچستان میں ایسے رویوں نے صورتحال کو سنگین بنایا اور اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ سندھ میں بھی وہی حربہ اپنایا جا رہا ہےجو بلوچستان میں اپنایا گیا گیا تھا۔حالا نکہ سندھ کا تو بلوچستان سے کوئی مقابلہ نہیں ، کیوں کہ سندھ میں کوئی ملک کے خلاف تحریک نہیں چل رہی پھر بھی ایسے واقعات کا رونما ہونا افسوس ناک عمل ہے ۔
مختلف آزاد ذرائع کی رپورٹس کے مطابق رواں سال سندھ سے 50 سے زائد سیاسی سماجی کارکنان اغوا کیے جا چکے ہیں ۔ اغوا ہونے والوں میں سے اکثریت ان کی ہے جو انسانی حقوق ، قومیت، اور صوبے کے وسائل کی بات کرتے ہیں۔ پنہل ساریو کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سال 2016 کی رپورٹ کے مطابق ملک میں جبری طور پر لاپتہ کئے گئے افراد کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا۔ گذشتہ سال 728 افراد لاپتہ ہوئے اوریہ تعداد چھ سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔
پنہل ساریو جیسے لوگوں کو اغوا کرنے کا مقصد اغوا ہونے والے افراد کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے ساتھ ساتھ خوف کا ماحول پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے جیسے آئندہ کوئی ایسے حساس اور خطرناک کام میں ہاتھ ڈالنے کی جرات ہی نہ کرے۔ اور جو جرات کرےگا اس کا انجام ٹکڑوں کٹی ہوئی لاش ملے گی یا پھر زندگی بھر کی معذوری انعام کے طور پر عطا کر دی جاتی ہے۔
جو قوتیں سمجھتی ہیں کہ ایسا کرنے سے لوگوں میں خوف وہراس پیدا ہوگا اور لوگ سیاست سے دور ہو جائیں گے تو یہ ان کی کوتاہ نظری ہے۔ خفیہ اور قانون سے بالاتر قوتوں کو یہ سمجھنا پرے گا کہ اگر انسانوں کے ساتھ غیر انسانوں جیسا سلوک کیا جائے گا تو شدید رد عمل آئے گا۔ پنہل ساریو جیسے لوگوں کو بھی سمجھنا ہو گا کہ وطن عزیز وہ ریاست نہیں جہاں نظریات عقائد یا کوئی نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کو برداشت کیا جا ئے۔ کیونکہ وطن عزیز میں عدم برداشت، انتہا پسندی عام جبکہ انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی برائے نام ہیں۔
یہاں تو صرف ایک ہی پالیسی نافذ العمل ہے اٹھاؤ اور سبق سکھاؤ ۔ چند سوال جو ہر سسی اور پنہوں کی زبان پر عام ہیں، زبردستی اغوا ہونے والے ریاست کے لیے خطرناک کیوں بنے؟ وہ کون سے عوامل تھے جن کی وجہ سےان کو اغوا کیا گیا؟ کیا ریاستی اداروں کو ملک کے قانون و عدالت پر یقین نہیں یا اپنی قابلیت پر؟ جو اغوا ہونے والوں کو عدالت میں پیش کرنے سے ڈرتے ہیں یا عدم ثبوتوں کی وجہ سے عدالت سے رجوع کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی؟ جب ملک میں منتخب وزیر اعظموں کو عدالتوں کے ذریعے قانونی طریقے سے ان کو عہدوں سے بے آبرو کر کے گھر بھیجا جا سکتا ہے تو ان سیاسی، سماجی، اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو عدالت کے سامنے پیش کرنے میں کو ن سی مشکلات درپیش ہیں؟
اگر وطن عزیز میں کمزور جمہوری نظام سے جان چھڑانی ہے تو افراد سے ز یادہ قانون کو طاقتور بنانا ہوگا۔ سب کو احتساب کے دائرے میں لانا ہوگا، ان لوگوں کو بھی جو خود کو مقدس گائے سمجھتے ہیں جو لوگوں کو زبردستی اٹھانے میں مہارت رکھتے ان کو بھی سیاستدانوں کی طرح جواب دہ بنانا پڑے گا، ورنہ اسی طرح من مانیاں ہوتی رہیں گی لوگ اٹھائے جاتے رہیں گے اور پھر ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ کمشور جمہوری نظام کی بھی ایک دن چمڑی ادھیڑی جائے گی۔