“کیا کبھی اس معاشرے میں استاد کو وہ احترام مل سکے گا جس کا ایک استاد حق دار ہے۔ یہ تصویر ان اساتذہ کی ہے جو فیصل آباد کے تعلیمی اداروں کے ہزاروں اساتذہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان اساتذہ کو ایک سیاستدان (وزیر قانون پنجاب) کیلئے دو گھنٹے کھڑے ہوکر انتظار کرنا پڑا۔ جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔
18جنوری کو زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں پیف سکالرشپ سیمینار رکھا گیا جس کیلئے دن گیارہ بجے کا وقت مقرر کیا گیا۔ سیمینار کے مہمان خصوصی صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ تھے۔ جو گیارہ بجے کی بجائے ایک بجے زرعی یونیورسٹی پہنچے۔
اس موقع پر وہاں موجود زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خان، وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی ڈاکٹر محمد علی، وائس چانسلر ویمن یونیورسٹی ڈاکٹر نورین عزیز قریشی، ڈائریکٹر کالجز رانا منور احمد خان، چیئرمین تعلیمی بورڈ غلام محمد جھگڑ، چیئرمین اخوت فائونڈیشن ڈاکٹر امجد ثاقب سمیت ضلع بھر سے آئے سکولز اور کالجز کے سربراہان کو دو گھنٹے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے انتظار میں کھڑے رہنا پڑا۔
کیا ایک سیاستدان کے انتظار کیلئے اساتذہ کا دو گھنٹے تک کھڑے رہنا اساتذہ کی عزت و تکریم مجروح کرنے کے مترادف نہیں۔ بحیثیت مجموعی ہمیں سوچنا ہوگا کہ اس میں قصور خود اساتذہ کا ہے یا سیاستدانوں کا۔ یا اس نظام کا جس میں اساتذہ کو بھی سیاستدانوں کے انتظار میں کھنٹوں کھڑا ہونے پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔”
جہانگیر اشرف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تصویر کے سیاق و سباق کا تو اوپر والے اقتباس سے کچھ اندازہ ہوگیا ہوگا۔ اس تصویر اور اس کے مندرجات پر ایک تبصرہ ذیل میں ہے۔
1۔ استاد صرف استاد ہی نہیں ہوتے وہ ایک پیشہ ور فرد اور
ملازم بھی ضرور ہوتے ہیں۔
2۔ وزیر موصوف جو وفاق پاکستان کے صوبے پنجاب کے وزیر قانون ہیں۔ اس وقت صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ وہ اس ریاست کے ایک اہم نمائندہ بھی ہیں، جس ریاست کے یہ اساتذہ تنخواہ دار عہدیدار ہیں۔
3۔ اساتذہ اپنے طلباء کے اساتذہ ہیں، نا کہ پوری کی پوری ریاست کے اساتذہ!
4۔ مزید یہ کہ حتمی تجزیے کے طور پر یہ اساتذہ ہی کا قصور ہے کہ وہ ایک ایسی معاشرت قائم کرنے اور سدھانے میں کامران نا ہوسکے جہاں وقت کی پابندی ہو، اور وقت کی پابندی تو ایک طرف جہاں صاحب مرتبہ کے لئے اس قدر وقت بربادی کی رسموں کا بھی چلن ہو۔
5۔ یہ اساتذہ اس فرسودہ روایت کی پرستش کرتے اسی انداز کے فرسودہ اساتذہ ہیں۔ زنگ معاشرے کے کسی ایک طبقے کو نہیں لگتا، زنگ کی ہوا برابر ہر ادارے پر اپنا اثر دکھا چکی ہوتی ہے۔
پس تحریر:
ایک چیز آپ نشان زد کر سکتے ہیں کہ اس خبر کو ہم تک پہنچانے والے صاحب کس قدر سیاست دان مخالف جذبات رکھتے ہیں؛ ان کا انداز کلام سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان تصویر میں موجود وزیر قانون کا نمائندہ ریاست ہونے کے ناتے کچھ عزت و اکرام نہیں۔ بھلے آپ جس سیاسی جماعت سے بھی ہمدردی رکھتے ہوں لیکن ہم پر سیاست دانوں کی بطور عوامی نمائندہ اور ریاست پاکستان کے ذمے دار کے طور پر لحاظ کو اپنی زبان کے پاؤں تلے نہیں روندنا بنتا۔ یاد رکھنا بے محل نا ہوگا کہ عوام کا انتخاب بہرکیف ہماری جانب سے تکریم کا مستحق ہے۔ ہمیں سیاست اور اہل سیاست کے خلاف پچھلی چند دھائیوں سے زہریلے پروپیگنڈے کے ثمر کے طور پر اپنے اندر کی کڑواہٹ پر سوچ کا پہرہ بٹھانا ہوگا۔