کیا پنجاب میں قوم پرستی کی سیاست ہو سکتی ہے؟
ڈاکٹر منظور اعجاز
معطلی کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف کا جی ٹی روڈ کا شو کافی حد تک موثر تھا۔ ان کے جی ٹی روڈ پر ہونے والے اجتماعات اور مظاہروں سے یہ نتیجہ نکالنا غلط نہیں ہو گا کہ وہ اس علاقے میں اب بھی کافی مقبول ہیں اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں سے ان کی مقبولیت بالکل ختم نہیں ہوئی۔ وہ ابھی تک کسی دوسرے علاقے میں نہیں گئے لہٰذا یہ فیصلہ قبل از وقت ہو گا کہ کیا وہ مرکزی پنجاب سے باہر بھی قابل قبول ہیں یا نہیں۔ لیکن کچھ دانشوروں نے پہلے ہی یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ نواز شریف پنجابی قوم پرستی کو ہوا دے رہے ہیں اور اس کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ان پر یہ الزام لگ چکا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لیے ’’پنجابی پگ‘‘ کو داغ لگنے کی دہائی دیتے رہے ہیں۔ لیکن غور کریں تو پنجاب میں کبھی بھی پنجابی قوم پرستی کا نعرہ مقبول نہیں ہوا کیونکہ وفاق میں غالب حیثیت میں ہوتے ہوئے پنجابیوں کو علیحدگی پسندی راس نہیں آسکتی۔ قوم پرستی کی وجوہات اور اس کے مظاہر کو دیکھیں تو یہ کہنا مشکل نہیں ہوگا کہ پنجاب میں کسی طرح کی قوم پرست تحریک کا وجود نہیں ہے جس کی رہنمائی میاں نواز شریف یا کوئی اور کر رہا ہو۔
عام طورپر قوم پرستی ان علاقوں اور گروہوں میں جنم لیتی ہے جو معاشی، سیاسی اور لسانی اعتبار سے دبے ہوئے ہوں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ قوم پرست تحریکیں سیاسی ، لسانی اور معاشی مطالبات پر مرکوز ہوتی ہیں۔ انگریز سے آزادی کی تحریک میں قوم پرستی کے مذکورہ نعرے نمایاں تھے۔ مشرقی پاکستان میں قوم پرست تحریک کا آغاز لسانی نعرے یعنی بنگالی کو تسلیم کروانے سے شروع ہوا تھا جو بعد میں سیاسی اور معاشی محرومیوں کے اظہارکی شکل اختیار کر گیا۔ سندھی قوم پرستی کی تحریک بھی سندھی زبان کی بحالی اور معاشی حقوق کے حصول کے ارد گرد گھومتی رہی ہے۔ بلوچی قومی تحریک میں معاشی استحصال اور اپنے وجود اور شناخت کو قائم رکھنے کی جدو جہد نظر آتی ہے۔ پختون قوم پرستی کی تحریک اس لیے کمزور ہو چکی ہے کیونکہ خیبر پختونخواکی معیشت پنجاب ، کراچی اور باقی ماندہ ملک سے مربوط ہو چکی ہے۔ خیبر پختونخوا میں بھی پنجاب کی طرح لسانی نعرہ کوئی زیادہ مقبول نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت خیبر پختونخوا کی تمام سیاسی پارٹیاںمرکز پسند ہیں: عوامی نیشنل پارٹی بھی 1977میں قومی اتحاد میں شمولیت اختیار کرکے پختون قوم پرستی کو تیاگ چکی ہے۔
اس پورے تناظر میں دیکھا جائے تو بلوچستان اور کسی حد تک سندھ میں قوم پرست تحریکیں موجود ہیں لیکن باقی ماندہ ملک ِ بالخصوص پنجاب میں قوم پرستی کی تحریک کا کوئی وجود نہیں ہے۔ غلط یا صحیح ، پنجابیوں کو اپنی زبان اور شناخت کے بارے میں کوئی خاص تشویش نہیں ہے۔ پنجابی ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور ریاست کے اداروں میں غالب اکثریت کے حامل ہیں لہٰذا وہ مضبوط مرکز کے حامی ہیں۔ یعنی پنجاب میں لسانی اور نہ ہی معاشی و سیاسی محرومی کے احساس کا کوئی وجود ہے۔ اسی بنا پر پنجاب میں صرف مرکز پسند پارٹیاں شرف قبولیت حاصل کرتی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ پنجاب نے ایک سندھی ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو بھاری اکثریت سے منتخب کیا۔مرکز پسند ہوتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو شہید کے بعد بھی پیپلز پارٹی کئی الیکشنوں میں پنجاب سے کامیاب ہوئی اور اس نے مرکز میں حکومت بنائی۔ پیپلز پارٹی کے پنجاب میں خاتمے کی وجہ اس کی بری گورننس اور صوبے میں بنیادی معاشی تبدیلیوں کے نتیجے میں طبقاتی درجہ بندی اور ترتیب میں تبدیلی ہے۔اسی مظہر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) پنجابی قوم پرستی کی وجہ سے نہیں بلکہ مضبوط مرکز کے دعوے کی بنا پر سیاست میں نمایاں حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ہم پہلے بھی بہت سے کالموں میں یہ تذکرہ کر چکے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) انقلابی انداز میں بدلتی ہوئی معیشت میں نئے ابھرتے ہوئے تاجر اور کسی حد تک صنعتی طبقات کی نمائندگی کرتی ہے۔
اسی کی دہائی کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا میں معاشی ترقی کی رفتار کافی تیز رہی ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جن سے کروڑوں مزدور دنیا کے چاروں کونوں میں پھیل کر اپنے خاندانوں اور علاقوں کی خو شحالی کا سبب بنے ہیں۔یہ رجحان وسطی پنجاب میں بہت وسیع تر تھا۔ پرانی طرز کی جاگیرداری کی غیر موجودگی کی وجہ سے اس علاقے میں مزدوروں کی نقل و حرکت بہت آسان تھی۔ ویسے بھی روایتی طور پر یہ علاقہ درمیانے درجے کے کسانوں کا تھا جس کا نسل در نسل تقسیم ہوتی ہوئی زمین پر گزارہ مشکل تھا لہٰذا اس علاقے کے لوگ یا تو بیرون ملک چلے گئے اور یا شہروں کی طرف نقل مکانی کر گئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس علاقے میں معیشت کی کایا کلپ ہوگئی اور فی کس پیداوار اور آمدنی میں یہ علاقہ دوسروں سے آگے نکل گیا۔ اب یہ پورا علاقہ بہت بڑا شہر ہے جو باقی ماندہ ملک سے ہر لحاظ سے آگے ہے۔ دوسرے صوبوں کے قوم پرستوں کا یہ دعویٰ بھی جزوی طور پر درست ہے کہ وسطی پنجاب میں خو شحالی کی وجہ اس کا ریاستی اداروں پر غلبہ ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ بات کسی حد تک تو سچ ہو سکتی ہے لیکن بنیادی طور پر اس علاقے کی معاشی ہیت ترکیبی ایسی تھی کہ اس نے دوسروں سے پیشتر ترقی کرنا تھی۔ بر سبیل تذکرہ وسطی پنجاب اور ہندوستانی مشرقی پنجاب کا معاشی ڈھانچہ ایک جیسا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مشرقی پنجاب ہندوستان کے ریاستی اداروں میں غلبے کے بغیر بھی باقی ریاستوں میں فی کس آمدنی کے لحاظ سے بہت آگے ہے۔
وسطی پنجاب میں خو شحالی اور ریاستی اداروں میں غلبے کی وجہ سے قوم پرست تحریک کا کوئی وجود نہیں ہے۔ پنجاب اور بالخصوص وسطی پنجاب میں یہ شکایت نہیں ہے کہ دوسرے صوبے اس کا استحصال کر رہے ہیں یا دوسرے صوبوں کے لوگ ریاستی اداروں پر غلبہ حاصل کرکے اسے تعصب کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ دوسرے صوبوں میں تو یہ نعرہ مقبول ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سندھی اور غیر سندھی وزیر اعظموں کے ساتھ مختلف سلوک کرتی ہے لیکن پنجاب میں یہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ فوج اور عدلیہ جیسے اداروں میں پنجابیوں کی اکثریت ہے: میاں نواز شریف یہ نہیں کہہ سکتے (اور نہ ہی انہوں نے کہا ہے) کہ انہیں پنجابی ہونے کی وجہ سے معطل کیا گیا ہے۔
پنجاب میں مقبول پارٹیاں مرکز پرست ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ لے کر آگے نہیں بڑھ رہی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تمام تر ترقی کے باو جود وسطی پنجاب میں (باقی ماندہ ملک کی طرح) گورننس کا نظام عوام کی توقع کے مطابق نہیں ہے۔ وسطی پنجاب میں تاجر طبقے کے ساتھ ساتھ پیشہ ور طبقات میں بھی کافی وسعت آئی ہے۔ یہ طبقات صاف شفاف نظام کے خواہاں ہیں جس کے لیے وہ پی ٹی آئی کی حمایت کرتے ہیں۔ غرضیکہ پنجاب میں یدھ تاجر اور پیشہ ور طبقات کے درمیان ہے۔ ان میں مسلم لیگ تاجر طبقے کی نمائندہ ہے جو حجم کے لحاظ سے پیشہ ور طبقات سے کافی بڑا ہے۔ اسی لیے اس کے (تاجر طبقے کے ) نمائندے نواز شریف کو جمہوری عمل سے ختم کرنا مشکل امر ہے۔ المختصر پنجاب میں قوم پرستی کی بجائے مختلف طبقات میں اقتدار کے حصول کے لیے کشمکش جاری ہے۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ