فسادات، محبت اور بلونت سنگھ
از، محمد حمید شاہد
دِہلی سے شائع ہونے والے عالمی اُردو ادب کے مدیر اور افسانہ نگار نند کشور وکرم سے میری پہلی ملاقات کئی سال قبل منشا یاد کے ہاں ہوئی تھی اور آخری ملاقات تب جب وہ گزشتہ برس دوسرے مہینے میں، جب وہ اِسلام آباد آئے تھے۔ کچھ اور ملاقاتیں بھی ہیں جن میں سے ایک ریختہ کے جشنِ اردو میں دہلی میں ہوئی تھی۔
آخری ملاقات میں طویل ترین نشست میرے گھر رہی اور خوب باتیں ہوئیں۔ کوئی چھ ماہ بعد، اگست میں دہلی سے اُن کے چل بسنے کی خبر آئی تو جہاں دل دُکھی ہوا وہاں اُن کی بہت سی باتیں یاد آئیں۔
یہاں بلونت سنگھ پر بات کرتے ہوئے مجھے نند کشور وکرم کی جو بات یاد آتی ہے وہ اُنھوں نے آخری یا کسی اور میں نہیں، پہلی ملاقات میں بتائی تھی۔ جی، وہی جو منشا یاد کے ہاں ہوئی تھی۔
تب ہم سب افسانہ منزل کی چھت پر ٹہل رہے تھے۔ اگر میں بھول نہیں رہا تو اِس ہم سب میں معروف افسانہ نگار اور چہار سو کے مدیر گلزار جاوید کے علاوہ بزرگ افسانہ نگار وقار بن الٰہی بھی شامل تھے۔
وہ بات ہی کچھ ایسی تھی کہ ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا، تب ہی تو سب چہل قدمی روک کر متعجب نظروں سے نند کشور وکرم کو دیکھنے لگے تھے۔
انھوں نے ہمیں یقین دلانے کے لیے اپنی بات دُہرائی اور بتایا تھا کہ بلونت سنگھ افسانہ یا ناول لکھنے کے لیے کاغذ قلم لے کر نہیں بیٹھتے تھے۔ کوئی اور کاغذ قلم لے کر سامنے بیٹھ جاتا تھا۔ وہ کرسی پر آرام سے بیٹھے، آنکھیں مِیچے اپنے تخیّل کو ایڑ لگاتے اور کہانی بولنا شروع کر دیتے تھے۔ لکھنا سامنے والی کی ذمے داری ہوتی تھی۔
میں یہ عجیب بات، محض ایک بات سمجھ کر کب کا بھول چکا ہوتا اگر یہی واقعہ پبلی کیشنز ڈویژن، نئی دہلی کے جریدے آج کل میں نہ پڑھ لیتا۔
جنوری 1995 کے خاص شمارے میں منجو سنگھ نے اپنی یادوں کو سمیٹتے ہوئے جو لکھا وہ عین میں مقتبس کیے دیتا ہوں:
”کہانی اور ناول لکھنے کا، اُن کا اپنا انداز تھا۔ مسودہ وہ خود اپنے ہاتھ سے نہیں لکھتے تھے۔ آرام کرسی پر بیٹھ کر کہانی یا ناول بولتے تھے۔ پہلے تو ایک آدمی رکھا ہوا تھا، پھر بعد میں، میں یہ کام کرتی تھی یا میرا بھائی کرتا تھا۔ ہم دونوں اردو نہیں جانتے تھے اس لیے اردو کا مسوّدہ بلونت سنگھ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔“
منجو سنگھ کوئی اور نہیں، بلونت سنگھ کی دوسری بیوی تھیں جنھوں نے آخری دَم تک اُن کا ساتھ دیا۔ پہلی شادی کا قصہ اوپندر ناتھ اشک نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے۔ جن دنوں بلونت سنگھ میر گنج میں طوائفوں کے چوبارے کے سامنے، اپنے مرحوم والد کے قائم کردہ امپیریل ہوٹل میں بیٹھا کرتے تھے، یہ پہلی شادی روایتی ڈھنگ سے ہوئی تھی۔
وہ عورت جو ان کی زندگی کی ساتھی بنی، اس سے اُن کی نبھی نہیں۔ اشک ہی کے لفظوں میں پہلی شادی پہلی ہی رات فسخ ہو گئی۔ خیر، یہ نہ نِبھنے والی شادی بھی ایک سال تک وہ گھسیٹتے رہے پھر کہیں جا کر طلاق دِی اور الگ ہو گئے۔ پچیس سال چھوٹی منجو سے بلونت کی شادی کوئی پچاس سال کی عمر میں پہنچ کر ہوئی تھی۔
منجو ایک سکول میں پڑھاتی تھیں اور بلونت سنگھ کے فن کی قدر دان بھی تھیں۔ انھِیں سے بلونت کے دو بچے ہوئے؛ ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔
منجو نے کچھ اور بھی دل چسپ باتیں بتائی ہیں: مثلاً یہی کہ ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہوتے ہوئے بھی بلونت سنگھ نے پڑھائی کے دوران والد کے پیسوں پر عیش میں نہیں اڑایا۔ پاجامہ پہن کر بی اے تک تعلیم حاصل کی؛ خود نوکری پر لگے تو پتلونیں پہنیں۔
مجھے منجو کا کہا یوں یاد رہ گیا کہ یہ بات اُس تأثر کی نفی کرتی تھی جو ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کی کتاب، اُردو افسانے کی روایت (مطبوعہ: 1991) میں بلونت سنگھ کے احوال پڑھ کر قائم ہوا تھا۔
مرزا صاحب نے بلونت سنگھ کے شخصی احوال بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ جب حالات کے پلٹا کھانے پر ڈیرہ دون کے کیمبرج سکول میں پڑھنے والے بلونت کو گوجراں والہ کے عام سکول میں داخل کیا گیا تو وہ گھر سے بھاگ نکلے تھے۔ کافی مدت آوارہ گردی کی بالآخر پکڑے گئے اور تعلیم کا سلسلہ وہیں سے شروع ہوا جہاں سے ٹوٹا تھا۔
مالی حالات حد درجہ نا گُفتہ بہ ہونے کی وجہ سے بلونت اپنی گھریلو زندگی سے ہمیشہ متنفر رہے۔ تین مرتبہ گھر سے بھاگے، سکول میں حاضری ہمیشہ کم رہی۔ زیادہ تر وقت مار پیٹ اور سیر و شکار میں گزارا وغیرہ وغیرہ۔
خیر، یہاں گوجراں والہ میں بلونت جیسے بھی تھے بعد کی جتنی گواہیاں ہمیں ملتی ہیں ان میں وہ ایک ذمے دار اور حساس شخص نظر آتے ہیں۔ مرزا صاحب کے مطابق وہ گوجراں الہ کے ایک گاؤں بہلول میں، جون 1921 میں پیدا ہوئے تھے۔ اشک صاحب نے ان کی پیدائش کا سِن 1920 لکھا ہے (جب کہ محمد قمرُ الہدیٰ کے مرتبہ کوائف میں بھی یہ جون 1921 ہے۔)
یہیں گورنمنٹ پرائمری سکول میں تعلیم کا آغاز ہوا۔ ان کے والد کی سردار لال سنگھ میاں والی میں ملازمت رہی تو بلونت وہاں بھی رہے۔ والد کا تبادلہ دیرہ دون کے ملٹری کالج میں بہ طورِ لیکچرر ہوا تو وہاں داخل کیے گئے۔
بلونت سنگھ نے انٹرمیڈیٹ جمنا کرسچیئن کالج الہ آباد سے کیا اور بی اے الہ آباد یونی ورسٹی سے۔ بی اے کرنے کے بعد کچھ عرصہ وہ لاہور راجندر سنگھ بیدی کی صحبت میں بھی رہے۔ کوئی اڑھائی برس تک پبلی کیشنز ڈویژن، حکومتِ ہند میں ملازمت کی۔
1948 میں والد کا انتقال ہوا تھا تو ملازمت سے استعفیٰ دیا اور باپ کا ہوٹل سنبھالنے الہ آباد منتقل ہو گئے۔ پھر یہ ہوٹل بھی بیچ دیا اور اپنے آپ کو فکشن کے لیے وقف کر دیا۔ 27 مئی 1986 کو نیتا جی نگر الہ آباد میں اُن کا انتقال ہوا۔
بلونت سنگھ نے اپنی محبوب اصناف افسانے اور ناول میں ایسے اضافے کیے ہیں جنھیں سہولت سے بھلایا نہ جا سکے گا۔ اردو میں بھی اور ہندی میں بھی۔ اُن کے اردو ناولوں میں ناول کالے کوس کے علاوہ رات، چاند اور چور، عورت اور آبشار، راوی بیاس، چک پیراں کا جسا، سونا آسمان، آگ کی کلیاں، صاحب عالم، دواکل گڑھ، باسی پھول، پھر صبح ہو گی وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ ناول پہلے ہندی میں لکھے گئے اور بعد میں اردو میں شائع ہوئے۔
کالے کوس کی دو اشاعتیں میری نظر سے گزری ہیں۔ ایک ہند پاکٹس بکس، شاہ درہ دہلی سے شائع شدہ، جس پر کوئی سالِ اشاعت درج نہیں کیا گیا۔ کتابت کیے گئے متن پر مشتمل 192 صفحات کی یہ کتاب کوہِ نور پرنٹنگ پریس دہلی سے ایک دیدہ زیب سر ورق کے ساتھ چھاپی گئی تھی۔
دوسری اشاعت نیا ادارہ، لاہور کی ہے۔ طباعت کا سال 1968 اور صفحات 238 ہیں۔ نیا ادارہ نے اسے ٹائپ میں سویرا آرٹ پریس، لاہور سے چھپوایا ہے اور اس پر بارِ اول کی اطلاع بھی موجود ہے۔
بلونت کے کام کو مجموعوں کی صورت فراہم کیا گیا تو یہ ناول بھی اس کا حصہ ہوا۔ دہلی سے چھپنے والی اشاعت کے پسِ سر ورق پر یہ عبارت نمایاں کر کے چھاپی گئی ہے:
”تقسیمِ ہند کے الم ناک پسِ منظر اور خونیں واقعات، خون کے آنسو رلانے والی ایک ایسی رومانی داستان جسے پنجاب کا البیلا افسانہ نگار بلونت سنگھ ہی لکھ سکتا تھا۔“
تقسیم کا الم ناک پسِ منظر محض بلونت سنگھ کے ہاں ہی نہیں اوروں کے ہاں بھی موضوع ہوا ہے۔ جی ایسے لہو رلانے والے حالات، جن سے خود لکھنے والوں کی زندگیاں متأثر بھی ہو رہی تھیں۔ حالات کیسے ادیبوں کی زندگیوں کو متأثر کر رہے تھے، منٹو کی ایک تحریر مرلی کی دُھن سے اسے خود آنک لیجیے:
”عرصہ ہوا جب تقسیم پر ہندو مسلمانوں میں خون ریز جنگ جاری تھی اور طرفین کے ہزاروں آدمی روزانہ مرتے تھے۔ شیام اور میں راول پنڈی سے بھاگے ہوئے ایک سکھ خاندان کے پاس بیٹھے تھے۔ اس کے افراد اپنے تازہ زخموں کی رُوداد سنا رہے تھے، جو بہت ہی درد ناک تھی۔
شیام متأثر ہوئے بَغیر نہ رہ سکا۔
“وہ ہلچل جو اُس کے دماغ میں مچ رہی تھی، اس کو میں بَخُوبی سمجھتا تھا۔ ہم وہاں سے رخصت ہوئے۔ تو میں نے شیام سے کہا، ”میں مسلمان ہوں، کیا تمھارا جی نہیں چاہتا کہ مجھے قتل کر دو۔“
“شیام نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا، ”اس وقت نہیں … لیکن اُس وقت جب کہ میں مسلمانوں کے ڈھائے ہوئے مظالم کی داستان سن رہا تھا، میں تمھیں قتل کر سکتا تھا۔“
“شیام کے مُنھ سے یہ سن کر میرے دل کو زبردست دھکا لگا۔ اس وقت شاید میں بھی اُسے قتل کر سکتا۔
“مگر بعد میں جب میں نے سوچا اور اس وقت اور اس وقت میں زمین و آسمان کا فرق محسوس کیا۔ تو ان تمام فسادات کا نفسیاتی پسِ منظر میری سمجھ میں آ گیا، جس میں روزانہ سینکڑوں بے گناہ ہندو اور مسلمان موت کے گھاٹ اتارے جا رہے تھے۔“
اپنے عزیز ترین دوست شیام کے اس خاکے میں منٹو آگے چل کر لکھتے ہیں:
”مجھے بہت جھنجھلاہٹ ہوتی تھی۔ کہ شیام میری طرح کیوں نہیں سوچتا۔ اس کے دِل و دماغ میں وہ طوفان کیوں برپا نہیں ہیں جن کے ساتھ میں دن رات لڑتا رہتا ہوں۔ وہ اسی طرح مسکراتا، ہنستا اور شور مچاتا رہتا۔ مگر شاید وہ اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ جو فضا اس وقت گرد و پیش تھی اس میں سوچنا بالکل بے کار ہے۔
“میں نے بہت غور و فکر کیا۔ مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ آخر تنگ آ کر میں نے کہا ہٹو، چلیں یہاں سے… شیام کی نائٹ شوٹنگ تھی۔ میں نے اپنا اسباب وغیرہ باندھنا شروع کر دیا۔
“ساری رات اسی میں گزر گئی۔ صبح ہوئی تو شیام شوٹنگ سے فارغ ہو کر آیا۔ اس نے میرا بندھا ہوا اسباب دیکھا تو مجھ سے صرف اتنا پوچھا، ”چلے؟“
“میں نے بھی صرف اتنا ہی کہا، ”ہاں!“
“اس کے بعد میرے اور اس کے درمیان ’ہجرت‘ کے متعلق کوئی بات نہ ہوئی۔ بقایا سامان رکھوانے میں اُس نے میرا ہاتھ بٹایا۔ اس دوران میں رات کی شوٹنگ کے لطیفے بیان کرتا رہا۔ اور خوب ہنستا رہا۔ جب میرے رخصت ہونے کا وقت آیا۔ تو اُس نے الماری میں سے برانڈی کی بوتل نکالی۔ دو پیگ بنائے اور ایک مجھے دے کر کہا، ”ہپ ٹلا۔“
“میں نے جواب میں ہپ ٹلا کہا۔ اور اس نے قہقہے لگاتے ہوئے مجھے اپنے چوڑے سینے کے ساتھ بھینچ لیا، ”سُور کہیں کے۔“
“میں نے اپنے آنسو روکے، ”پاکستان کے۔“’
وہ ایسے سنگین حالات تھے جس میں ہر آدمی کی نفسیات میں اتھل پتھل ہو رہی تھی۔ ایسے میں شیام اور منٹو ایک طرح کیسے سوچ سکتے تھے۔ اب پاکستان ایک اٹل حقیقت تھا۔
کالے کوس میں بلونت سنگھ نے بَہ ظاہر چار گاؤں کی امی جمی کو وہاں سے اکھڑتے دکھایا ہے جہاں شیخوپورے میں ایک ایسے ہندو مسلم دنگے کا ذکر ہوتا ہے جس میں وہاں، جہاں ایک کردار زخمی گیٹے کو مہندر کے ہاں مرہم پٹی کے لیے لایا تھا۔
مہندر وہاں نہیں ہے، لہٰذا مرہم پٹی صورت سنگھ کرتا ہے۔ یہیں، اس ناول کے مرکزی کردار درسا سنگھ اور صورت سنگھ میں دل چسپ مکالمہ ہوتا ہے۔ اسی گفتگو میں صورت سنگھ نے کہا تھا:
”اگر حالات یہی رہے تو بلا شبہ نتیجہ بہت ہی بُرا نکلے گا۔ یہ کیوں ہو رہا ہے تم سمجھ نہیں پاؤ گے۔ یہ سب سیاسی ہتھ کنڈے ہیں جس میں غریبوں کو پِسنا پڑے گا۔ ان ہرے بھرے کھیتوں کو دیکھو، اطمینان سے کام کرتے ہوئے لوگوں کو دیکھو، دل نہیں مانتا کہ اس سندر دھرتی پر ایسا گھناؤنا اور خونیں کھیل کھیلا جائے گا۔“
کیا یہ محض سیاسی لیڈروں کی ایک چال تھی، یا ایک الگ وطن کے مطالبے کے ساتھ عام آدمی کے بہت سے خواب بھی جڑ گئے تھے۔
جب میں اس سوال کے مقابل ہوتا ہوں تو مجھے انتظار حسین یاد آ جاتے ہیں جو اپنی ہجرت کے عقب میں بہت دور تک دیکھتے اور اسے با معنی بنا لیتے تھے۔
اپنے وطن سے اکھڑنا اور پاکستان میں آ بسنا ان کے لیے محض ایک مقام سے اجڑنا اور دوسرے مقام پر پہنچ کر بسنا نہیں رہا تھا۔ مجھے یاد آتا ہے انتظار حسین نے ایک بار کہا تھا کہ انھوں نے اپنی ہجرت کو بڑے معنی پہنانے کے لیے اپنی تاریخ کی اس مقدس ہجرت کی طرف دیکھا تھا اور اس سے جوڑ کر اپنی ہجرت کو سمجھا اور زیادہ با معنی بنا لیا تھا۔
بلونت سنگھ نے اپنے ناول میں ذَیل دار پشورا سنگھ اور نمبر دار میاں دل محمد کی مثالی دوستی سے اس بھائی چارے کو نشان زد کرنے کی کوشش کی ہے جو مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان رہی۔
دونوں کے درمیان بے شک گاڑھی چھَنتی تھی مگر یہ بھی واقعہ ہے کہ چار گاؤں میں بیٹھک بازی کے لیے ہندو اور سکھ، پشورے سنگھ کی بیٹھک میں بیٹھتے تھے اور مسلمان چک ماگھ میں میاں دل محمد کے دارے میں۔
ایک ساتھ رہتے ہوئے یوں الگ الگ ہو جانے کو اس تاریخی اور تہذیبی عمل سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا جو اس ناول کے پسِ منظر میں کہیں گم ہو گیا ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں نے لگ بھگ سو برس تک حکم رانی کی لیکن پھر یہ انجام ہوا کہ ان کی حکومت ایسے زوال کا شکار ہوئی کہ انگریز جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت یہاں آیا تھا تخت و تاج کا مالک ہو گیا۔
مسلمان کم زور ہو گئے۔ ایک عرصے تک مسلمان غلام نہ رہے تھے۔ اس صدی بھر کے عرصے میں غلامی کا احساس اگر کہیں تھا تو وہ ہندووں اور دوسری اقوام کے ہاں تھا۔
انھیں اقتدار کے قریب تر ہونے کے لیے بہت کچھ چھوڑنا پڑ رہا تھا اور انھوں نے چھوڑا۔ 1857 کی جنگِ آزادی کی نا کامی کے بعد صورت حال یک سر بدل گئی۔ ہندوستان تاجِ برطانیہ کے تحت ہو گیا تو ہندو، سکھ، مسلمان سب غلام تھے۔
ہندو اور دوسری اقوام تو پہلے سے غلام تھیں، ایک غلامی سے نکلیں
اور دوسری میں چلی گئیں مگر مسلمان کے ہاں شدید نفسیاتی اکھاڑ پچھاڑ ہو رہی تھی۔
کہیں صدمے کی کیفیت، کہیں رنج اور کہیں بغاوت۔ اس نفسیاتی ردِ عمل کا ایک اور مظاہرہ یوں ہوا کہ ہندو جو مسلمانوں کی حکم رانی کے زمانے میں اپنی زبان چھوڑ کر سرکار کی زبان فارسی سیکھتا تھا، اب انگریزی سیکھنے لگا تھا۔
ایسا کرتے ہوئے اس کے ہاں کوئی نفسیاتی رکاوٹ نہ تھی، جب کہ مسلمان ایسا کرتے ہوئے غلامی کے احساس سے دو چار ہوتے تھے۔ مسلمانوں کا یہ ردِ عمل، انگریزوں کی جانب سے کی جانے والے تہذیبی اور ثقافتی انقلاب کی کوششوں کے مقابل شدید تر ہوتا چلا گیا۔
ہندو اگر لارڈ میکالے کی تعلیمی اصلاحات کا خیر مقدم کر رہے تھے تو مسلمان کہیں تو الگ کھڑے تھے اور کہیں مزاحم ہو رہے تھے۔ یہ وہ وجوہات تھیں کہ مسلمان معاشی اور معاشرتی طور پر بد حال ہوتا چلا گیا اور ہندو سماجی مرتبے میں توقیر پانے لگا تھا۔
ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ اگر یہی صورت حال رہی تو مسلمان یا تو منڈیوں میں مزدور ہوں گے یا سرکاری دفتروں میں چپڑاسی۔ مسلمانوں کے تحفظات، بَل کہ کئی طرح کے خوف بڑھتے چلے گئے۔
ان میں ایک خوف تو یہ تھا کہ انگریز اور ہندو بہت سارے معاملات میں ایک ہو جایا کرتے تھے۔ ایسے میں اس خوف کا حملہ اور اس خوف کی گرفت شدید تر ہو گئی تھی کہ جب انگریز بر صغیر سے چلے جائیں گے تو مسلمانوں اقلیت میں ہو کر ہندووں اور سکھوں کے رحم و کرم پر ہوں گے اور یہ اقوام اپنی غلامی کے زمانے کا خوب خوب بدلہ لیں گی۔
یہ وہ فضا تھی جس میں الگ وطن کا مطالبہ مسلمانوں میں مقبول ہوا تھا۔ کہہ لیجیے یہ محض سیاسی چال نہ تھی ایک تاریخی عمل تھا اور شاید یہی سبب ہے کہ انتظار حسین نے اسے مقدس معنیٰ پہنانا چاہے تھے۔
اِنتظار حسین کی ایک شناخت ہی ہجرت اور ناسٹیلجیا ہے۔ محض ناسٹیلجیا نہیں، وہ عدم تحفظ کا شدید احساس جو اُس زمانے میں لوگوں کو اپنے آبا و اجداد کی زمینیں، قبریں، گھر اور مال اسباب چھوڑ کر ہجرت پر مجبور کر رہا تھا اور مہاجرین کے وہ نفسیاتی مسائل بھی جو انھیں اپنی جڑیں نئی زمین میں پوری طرح جمانے نہیں دے رہے تھے۔
یہیں جی چاہتا ہے کہ انتظار حسین کے چاند گہن سے چند سطریں مقتبس کردوں، وہ لکھتے ہیں:
”ایک خوف ناک ہنگامہ خیز رات ہے جس نے پوری دلی کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ رات محلہ کے ہر شخص کو یقین تھا کہ حملہ ہو گا، مگر حملہ نہیں ہوا۔ قیامت سر پر آ کر ٹلی جاتی ہے۔
“یہ تذبذب کی کیفیت سخت اذیت ناک ہے۔ قیامت کو اگر ٹوٹنا ہے تو ٹوٹ کیوں نہیں پڑتی ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ مجرم کو پھانسی کے پھندے پر کھڑا کر دیا جائے اور جلاد کہیں کہ ہم حقہ پی کر آتے ہیں پھر تجھے پھانسی لگائیں گے۔
“یہ پورا محلہ پھانسی کے تختے پر کھڑا ہے۔ پھانسی کا پھندا سر پر لٹک رہا ہے۔ گلے میں نہیں آیا۔“
ہجرت کرنے والے اُدھر سے اِدھر ہجرت کر رہے تھے یا ادھر سے اُدھر، دونوں یک ساں طور پر پھانسی کے تختے پر تھے، مگر یہاں سے ہجرت کر کے جانے والے سکھوں اور ہندووں کے ہاں مسلمانوں سے قدرے مختلف، شدید اور کہیں زیادہ سب کچھ چھن جانے کا احساس تھا۔
کرشن چندرکے غدار، حیات اللہ انصاری کے لہو کے پھول، خدیجہ مستور کے آنگن، قرۃ العین حیدرکے میرے بھی صنم خانے کے علاوہ کئی ایسے ناول ہیں جن میں اپنے اپنے نقطۂِ نظر سے واقعات مرتب کر کے خوف کا منظر نامہ بنایا گیا۔
کئی ناول ایسے ہیں جن میں لکھنے والوں نے فسادات کے مناظر سے ایک قومی سطح پر مقبول معنویت تشکیل دی ہے جسے انتظار حسین نے فسادات کے ادب کا پروپیگنڈائی پہلو کہا ہے۔
انتظار حسین نے ایک زمانے میں کرشن چندر پر بہت شدید گرفت کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا:
”کرشن چندر نے سب سے زیادہ سینہ زنی پنجاب کی تقسیم پر کی ہے۔ پنجاب پر پہلی قیامت تو یہ ٹوٹی کہ اس کا بٹوارا ہو گیا، دوسری یہ ٹوٹی کہ کرشن چندر نے اسے سیاسی اسٹنٹ کے طور پر استعمال کیا۔“
اسی مضمون میں انتظار حسین نے بلونت سنگھ کی تعریف کچھ یوں کر رکھی ہے:
”پنجاب تو بس بلونت سنگھ کے یہاں نظر آتا ہے۔ باقی کرشن چندر نے تو لفظوں کا طلسم کھڑا کیا ہے۔“
خیر، ہم اس پسِ منظر سے راست بلونت سنگھ کے ناول کالے کوس کی طرف آتے ہیں۔ اس ناول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پہلے ہندی میں لکھا گیا اور پھر اُردو میں منتقل ہوا۔
گماں گزرتا ہے کہ ہو نہ ہو، وہ جو منجو سنگھ نے بتا رکھا ہے کہ بلونت آرام کرسی پر بیٹھے ناول یا کہانی بولتے جاتے تھے اور وہ یا ان کے بھائی ہندی میں لکھ لیتے تھے تو ممکن ہے، کالے کوس اسی قرینے سے ایک ہی وقت میں ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں تخلیق ہوا ہو گا۔
یوں بھی ہے کہ وہ حقیقی پنجاب جو انتظار حسین کو بلونت سنگھ کے ہاں نظر آتا تھا، اس ناول کا لوکیل بھی وہی ہوا ہے۔
شیخوپورہ کے نواح کا علاقہ، یہیں کی مٹی سے اس کے بنیادی کردار اُگتے ہیں اور یہیں کی آب و ہوا میں اپنی قامت اور شباہت بناتے ہیں۔ منجو سنگھ نے بَہ جا طور پر اپنے شوہر کو جاٹوں اور پہلوانوں کی کہانیاں لکھنے والا قرار دیا تھا۔
پنجاب اور اس کے البیلے کردار کالے کوس میں بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ درسا سنگھ جیسا انوکھا کردار، جو ازار بند کا ڈھیلا تھا، مگر راہ چلتی لڑکیوں میں کوئی دل چسپی نہ لیتا تھا۔ خوب صورت ہونٹوں سے زہریلے الفاظ اگلنے والا، قتل و غارت اور ڈاکہ زنی جس کے مشاغل تھے۔
ایساکڑیل جواں کہ جس کی انگلیوں کی گرفت زنبور سے بھی سخت تھی۔ وہ ایک زمانے میں بد چلن مسلمان کریمو کی اغواء کردہ ایک بد چلن مسلمان لڑکی بیلا کو لے اڑا تھا۔
یہ ایسا واقعہ ہے کہ ناول کے ہندو، سکھ اور مسلمان تنازعے کا ایک جواز بنا رہا۔ تاہم یہ ناول اسی درسا سنگھ کی محبت کی کہانی بھی ہے۔ پشورا سنگھ کی بیٹی اور صورت سنگھ کی بہن گوبندی کی طرف سے اندھی محبت کی کہانی۔
جی ایسی اندھی محبت جس کی طرف درسا سنگھ بَہ وُجودہ بہت دیر بعد متوجہ ہوا تھا۔ صحبت سنگھ اور مہندر کور کی محبت بھی یہاں کہانی ہوئی ہے؛ ترقی پسندی کے تڑکے کے ساتھ اور کچھ ایسے واقعات کے ساتھ جو پنجابیوں کے ہاں کم کم برداشت ہو پاتے ہیں۔
محبت کی تیسری کہانی سلطان اور ریشماں کی ہے؛ ایک معصوم محبت کی کہانی۔
ناول کی ابتدا میں فسادات کے پھوٹ پڑنے سے پہلے کا پنجاب بہت مشّاقی اور خوب صورت جُزئیات کے ساتھ یوں لکھ لیا گیا ہے کہ پڑھنے والا ان واقعات کا حصہ ہو جاتا ہے۔ فسادات اور نقلِ مکانی کے مناظر میں بھی یہ محبت کی کہانیاں رکتی نہیں ہیں۔
آپ بلونت سنگھ کے ناول کالے کوس کا مطالعہ کریں گے تو انتظار حسین کی طرح کہہ اُٹھیں گے کہ پنجاب تو بس بلونت سنگھ کے ہاں ہی نظر آتا ہے؛ جیتا جاگتا پنجاب، سورماؤں اور الہڑ دوشیزاؤں کا پنجاب۔ ایسا پنجاب جس میں محبت کی لا زوال کہانیاں جنم لیتی ہیں… اور وہ پنجاب بھی جس میں خون کی ندیاں بہنے لگی تھیں۔
ہندو، سکھ ہوں یا مسلمان ہجرت کرتے ہوئے بلوائیوں کا نشانہ ہوئے تو بلونت سنگھ کے قلم نے احتیاط اور انصاف سے ایک ایک وقوعہ لکھا۔
یقین جانیے آپ کو کہیں بھی وہ شکایت نہ ہو گی جو ایک زمانے میں انتظار حسین کو کرشن چندر کو پڑھ کر ہوئی تھی؛ یہی کہ کرشن چندر کے پروگرام میں پنڈت نہرو کے ایشیائی اقتدار کے خواب کا پروپیگنڈا شامل تھا۔
بلوت سنگھ کے ہاں ایسا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ ایجنڈا ہے تو بس ایک کہ وہ انسان اور انسانیت کے ساتھ کھڑے تھے۔
میں سمجھتا ہوں کہ صاف ستھری زبان اور ماجرائی اُسلوب میں لکھا ہوا یہ ناول محبت کی لا زوال کہانیوں اور فسادات کے زمانے میں انسان کے وحشی ہو جانے کے موضوع پر لکھے گئے فکشن کے باب کا اہم حصہ ہو گیا ہے۔ محض اہم نہیں، الگ اور نمایاں بھی۔
الگ اور نمایاں یوں کہ پنجاب کے دیہی منظر نامے سے جنم لینے والے فسادات کے زمانے کی رومان بھری کہانیوں کو ایک ناول میں جس دل کَش اُسلوب، رواں دواں سادہ مگر عمدہ بیانیے میں گوندھ لیا گیا ہے، ایسا قرینہ پنجاب کا البیلا ناول نگار بلونت سنگھ ہی برت سکتا تھا۔
قبل ازیں بک کارنر، جہلم نے اس با کمال فکشن نگار کا ناول چک پیراں کا جسا بہت اہتمام سے چھاپا تھا جس کی پذیرائی کے بعد وہ کالے کوس کی طرف متوجہ ہوئے۔
اس تحریر کی ایک صورت، بلونت سنگھ کے ناول کالے کوس کی نئی اشاعت سِنہ 2020 کے دیباچے کے طور پر لکھی گئی تھی۔