پنجاب اور آزادی مارچ 

Ammar Khan Nasir, Maulana

پنجاب اور آزادی مارچ

ہمارے بعض محترم تجزیہ نگار یہ حوالہ دے کر آزادی مارچ کی سیاسی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس میں بنیادی نمائندگی صرف چھوٹے صوبوں کے لوگوں کی ہے، اور پنجاب اس میں شامل نہیں ہے۔ اس حوالے سے، شریک جماعتوں کو قوم پرست ہونے کا طعنہ دیا جا رہا اور ماضی میں ایک دوسرے پر شدید تنقید کرنے کا بھی ذکر ہو رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ ساری ہاری ہوئی جماعتیں ہیں جنھیں ووٹ بنک کھونے کا دکھ ہے، وغیرہ وغیرہ۔

میرے خیال میں اس طرح کے استدلال سے حکومت کیھا پوزیشن کی مضبوطی نہیں، بَل کہ کم زوری مزید واضح ہوتی ہے۔

سیاسی جماعتیں، ظاہر ہے ایک دوسرے کی حریف ہی ہوتی ہیں اور تنقید بھی کرتی ہیں، لیکن مشترک سیاسی مفاد کے لیے جمع بھی ہو جاتی ہیں۔ کم سے کم حکومت یا اس کے مویدین تو یہ اعتراض کرنے کا مُنھ نہیں رکھتے۔ اور ظاہر ہے، جن جماعتوں کو یہ شکایت ہے کہ انھیں ہرایا گیا ہے، وہی احتجاج کریں گی، پی ٹی آئی تو جتوائے جانے پر احتجاج کرنے سے رہی۔

البتہ پنجاب کی نمائندگی کی بات قابلِ توجہ ہے۔ میرے خیال میں مسلم لیگ ن وغیرہ کی طرف سے مارچ میں اپنی افرادی قوت کو شامل نہ کرنے کی یہ تعبیر تو کسی طرح درست نہیں کہ پنجاب حکومت کے خلاف آزادی مارچ کے مقدمے سے ہی لا تعلق ہے، یا اس کو درست نہیں سمجھتا۔ آزادی مارچ کے مؤقف کی واضح تائید متحدہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے کی جا چکی ہے اور جلسے میں بھی مسلم لیگ ن کی صفِ اوّل کی قیادت شریک ہوئی ہے۔ سیاسی ترجیحات، ظاہر ہے، اس کے با وُجُود سب کی الگ الگ ہو سکتی ہیں۔


متبادل رائے:

دھرنے کا اصل محرک خیبر پختون خوا میں ووٹ بینک از، پروفیسر محمد مشتاق


دوسری اہم بات یہ ہے کہ پنجاب کے عملاً مارچ میں شریک نہ ہونے سے یہ استنباط کہ ایسی کوئی سیاسی تحریک نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی، اس پر بھی ذرا دو بارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔

میرے خیال میں سیاسی حرکیات کے پرانے سانچے میں نئے حالات کا سیاسی تجزیہ ضروری نہیں کہ درست ہو۔ سیاسی حرکیات میں کافی تبدیلی آئی ہے اور مزید آ رہی ہے۔ ان تبدیلیوں کو صرف تحریک انصاف کی شمولیت تک محدود سمجھنا درست نہیں، باقی حرکیات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔

گہرے اور دیر پا سیاسی تجزیے میں اور ایک وقتی قسم کے تجزیے میں یہی فرق ہوتا ہے کہ آپ محسوس کی جانے والی تبدیلیوں کو، سطح پر نمو دار ہونے سے پہلے سمجھ سکتے ہیں، یا نہیں۔ مجھے اہالیانِ صحافت و اربابِ آراء کے ہاں اس کوالٹی کے تجزیوں کا کال نظر آ رہا ہے۔

از، عمار خان ناصر