کیا دیہات میں برگد، پیپل اور چڑیاں نا پید ہو جائیں گی؟
از، اشرف جاوید ملک
دیہات زندگی کی سبھی رعنائیوں اور رنگینیوں کا مُرقّع ہیں۔ فطرت کے سبھی اسرار اسی کے بطن سے پھوٹتے ہیں۔ دیہات اپنے پہلوئے صد رنگ سے بہتے ہوئے اور شِیر و شَکّر ہوتے، ندی نالوں سر سبز پیڑوں، کچے خم کھاتے لچکتے اور دھول اڑاتے رستوں، اور ہوا کے دوش بہتی ہوئی پرندوں کی نشیلی آوازوں سے ہمارے حواس کو جوان خیز اور روشن تر تجربوں سے آشنا کرتے ہیں۔ میرے وسیب کی یہ جنت سَماں تہذیب یہ دریاؤں کے بیٹ اور سبزے سے تر و تازہ میدان شمالی وادیِ سندھ، حال ملتان، کی کوکھ سے پانچ ہزار سال پہلے نمُو دار ہوئے تھے۔
یہ وہ میدان ہیں کہ جہاں کی سُوندھی مٹی میں سات دریاؤں کی دوشیزگی کا جوبن گُندھا ہوا ہے۔ جو کمہار کے چاک پر ڈھلتی ہے تو رقص کی برکت اسے صورت گری سے ہم آمیز کرتے ہوئے برتنوں کی ہیئت میں متشکل کرتا چلا جاتا ہے۔
میرے مقامیوں کا لہو دھاڑیلی حملہ آوروں کے ہاتھ سے اس دھرتی پر جہاں جہاں گرا وہیں پر اس سے صد ہا رنگ و خوش بُو اوڑھے گلاب اُگے۔ میرے ان دیہاتوں کے ویران کھنڈروں سے رات گئے اب بھی جانے والوں کی آہیں سنائی دیتی ہیں۔
میرے دھرتی زاد کا لہو، مکئی، جوار، باجرے، کپاس، کماد اور کنڑک (گندم/کنک ) کے گوبھ کی صورت سر اٹھاتا ہے تو ہر طرف بہار آ جاتی ہے۔
شمالی سندھ وادی کے مرکز ملتان کی صحت افزاء ہوائیں شریر لڑکیوں کی طرح لہراتی ہوئی سر مَست پیڑوں کی شاخوں کو گدگداتی ہیں تو مضافات سرمدی لحن سے سرشار ہو اٹھتے ہیں۔
شام کا سورج جب اپنے گھر کا رستہ لیتا ہے تو پرندے بھی اس کی روپہلی روشنی کے بجھاؤ سے پہلے پہلے پیڑوں کے جُھنڈ میں پہنچ کر دن بھر کی تھکن شاخوں پر پھیلائے سو رہتے ہیں کہ توکّل کی مضبوط شاخ انہیں کبھی گرنے نہیں دیتی۔
پرندے نئے درخت نہیں لگا سکتے مگر ان کی دعائیں ان کی روحوں سے درختوں کے بیجوں کی طرح پھوٹتی ہیں۔ اور درخت نئے پھلوں اور بیجوں کے رزق سے مالا مال ہو جاتے ہیں۔
شاعر الہام کے تخت پر سوار نیلے کالے اور بھورے بادلوں کے پار تک چلے جاتے ہیں جہاں غیب سے انہیں گیتوں کا رزق دان ہوتا ہے۔ تخیّل معرفت کے ترازو میں تُل کر شعور سے رس آمیز ہوتا ہے تو شعر کے گھنگھرو بجتے ہیں۔ اور دلوں کا عالمِ کُل وجد میں آ جاتا ہے۔
تغیر رقص گری کرتا ہے تو نئے موجودات دھرتی کی کوکھ سے باہر کی طرف رخ کرتے ہیں۔ مردہ روحیں ہوں، یا مردہ زمین سب کی کوکھ زندگی کے نئے جنم سے آشنا ہوتی ہے اور ہر طرف رقص آغاز ہوتا ہے۔
دور تک پھیلی ہوئی دھرتی کے سینے پر قدم بڑھاتا ہوا مویشی ہانکتا ہوا ابنِ آدم گرم رو کسان اکثر جوتا ہی نہیں پہنتا کہ اس کا پاوں گاؤں کی نرم بُھربُھری، بھوری بھوری، خوش بُو دار، زرخیز اور نم دار مٹی کے لمس کے بناء روکھا پھیکا اور بالکل ادھورا ہے۔
میرے گاؤں میں پیر بابا کا مزار اور اس مزار پر سالانہ میلہ، میرے بچوں کی خالی آنکھوں اور نا مراد جیبوں کو اَن دیکھی مگر من چاہی خوشیوں کی برکت سے بھر دیتا ہے۔
تازہ فصلوں کی خوش بُو رَچی اجناس گاؤں کے بچوں کے نصیبے کا رزق بن کر انہیں جو خواب ودیعت کرتی ہیں ان کا خمار جوانی کی آنچ بن کر رگوں میں دھڑکتا ہے تو الہڑ پن کی کَجیاں اور سر مستیاں یاد خزینے کا انمٹ حصہ بن جاتی ہیں۔
مگر اب ان سے تِھیئٹر کی روایت چھن گئی ہے، درباروں اور مزاروں پر اوقاف کا پہرہ بٹھا دیا گیا ہے، زرعی میلے دم توڑ گئے ہیں اور دھان اور کنڑک گہانے کے لِیے نئی مشینیں آ گئی ہیں۔
دھان کی پرالی پر الٹی سیدھی قلابازیوں کا دور چلا گیا۔ ہَتھ نلکوں سے پانی بھرنے والے رخصت ہو گئے۔ وہ برگد جو گاؤں کے سبھی بچوں کا باپ تھا کب کا مر چکا؛ جب مرا تھا تو اس کے اندر اس کی پرانی کھوہوں میں چھپے ہزار ہا خواب چمگادڑ بن کر ہر طرف اڑنے لگے تھے، اور شام تک ان کی آسمان پر موجودگی سے سورج کی روشنی زمین پر نہیں پڑ سکی تھی ہر طرف اندھیرے کا سماں تھا۔
بیماریوں اور آفات کے حملوں سے، یا بد روحوں کے حملوں سے پالتو بھینسوں، سانڈوں، گائیوں اور بیلوں کو لوہے کی گرم انگارہ کی ہوئی سلاخ سے داغ دینے والے بڑے بوڑھے برگد کے درخت کے ساتھ ہی کہیں مر کھپ گئے۔
سنا ہے کہ پرانے پیپل اور برگد اِن پرانے بوڑھوں کی برکت سے قائم تھے، جب ان کی پوجا کرنے والے وہ بوڑھے برہمن نہیں رہے، یا پھر ہجرت کر گئے تو پیپل اور برگد کے اِکا دُکا درخت ہی کسی نہ کسی دیہات میں اب باقی رہ گئے ہیں، ورنہ یہ نا پید ہونے کے قریب ہیں۔
ہجرت کے بعد آنے والوں نے معاشی مجبوری کے تحت مقامی سیٹھوں کے ہاتھ وہ درخت بیچ دیے۔ شاید آنے والے کل کو ان کا بیج کہیں سے نہ مل سکے اور ان کا تذکرہ صرف شاعری اور بیالوجی کی کتابوں تک ہی رہ جائے۔
سنا ہے کہ میرے دیہات اور قصبات میں راتیں چپکے جپکے روتی ہیں شاید کہ رات اور عورت کا دکھ ایک جیسے اشکوں کی صورت ہی دھرتی پر برستا ہے۔ دونوں دھرتی کو ساوا سوکھا اور زرخیز رکھنے کا ہنر جانتی ہیں کہ زندگی انہی کی کوکھ کا عطیہ ہے۔
دھرتی اور عورت کے اشک شاید آم، کیکر، ٹاہلی، سوہانجنے اور کچنار کی کنوار شاخوں کی بڑھوتری کا سامان کرتی ہوں۔ شہر کا دیو ہیکل پُر قامت جسم جہاں مکمل ہوتا ہے، وہیں سے دیہات کا پھیلاؤ شروع ہو جاتا ہے۔ جہاں ٹیوب ویل چلتے ہیں، ندی نالے سست رفتاری کے ساتھ فطرت کے ہاتھوں ہانکے جاتے ہیں جو کبھی پرشوف ہو کر دھرتی پر بہتے تھے اور ان کا پانی شہد سے زیادہ نفع بخش اور میٹھا تھا۔
یہ وہ دیہات ہیں کہ جن کی فضاؤں میں گیرے اور گُھگھیاں کُوکتی ہیں، فاختائیں اور کبوتر غٹرغوں کا سماں باندھتے ہیں۔ مرمنڈہ گڑ دھانی اور گجک، یا پھر کھچڑی بنا کر یہاں کا دکان دار سوغات کے طور پر دکان ہر رکھتا ہے۔ عورتیں، لڑکے بالے اور بچے کپاس کی چاندی کے عِوض یہ اشیاء خرید کر مَن میٹھا کرتے ہیں۔ سوہن حلوہ اور چاندی کے ورق میں ملفوف برفی کچھ اپنا الگ ہی مزہ دیتی ہے۔
جب کچی سڑکیں کہیں کسی گاؤں کے مضافات میں جا کر ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے جدا ہوتی ہیں تو ان کی نکڑ پر ایک دو کھوکھے نمُو دار ہوتے ہیں جہاں کوئی بزرگ اور چند نو جوان ماچے پر بیٹھے دھان کماد اور مکئی کی فصل کے عِوض کم آمدنی پر ملال کر رہے ہوتے ہیں۔
دیہات میں شام اترتی ہے تو ہاری، کسان، مزدور، طلباء اور ملازمین دن بھر کی تھکن کو روئی کرتے ہیں اور سوچ کی اس ملائم روئی سے نیند کے جادو اثر لحاف تیار کرتے ہیں جن میں لپٹے مر مریں اجسام جاگتے خوابوں کی گرمی سے ہم آغوش ہوتے ہیں۔
گھروں کے ٹھنڈے صحن میں کھیلتے بچے اور بڑے بوڑھے جب پورے چاند کو تکتے ہیں تو دودھیا دودھیا چاند ان کی محبت میں کچھ اور نزدیک آ جاتا ہے۔
کھیتوں میں پانی لگاتے کسانوں کو دیکھ کر گیدڑ ان تعظیم کرتے ہیں۔ کتے رستہ بدل جاتے ہیں اور پھن پھیلائے سانپ راستہ چھوڑ دیتے ہیں؛ کاشت کاری انبیاء کی سنت اور رزق کا وسیلہ ہے۔ میرے دیہات کے کسان کو موسموں کی شدت کچھ نہیں کہتی کہ رب خود آپ اس کے کاموں میں جُٹا ہوا ہوتا ہے۔
جوگی، بھوپے، صوفی، عامل، مُلاں اور عاشق رات کے پچھلے پہر چاندنی ہوا تنہائی اور درختوں سے ہم کلام ہوتے ہیں تو ستارے ان کی گردِ راہ بنتے ہیں؛ اس گھڑی وقت تھم جاتا ہے اور عاشق عالمِ استغراق میں چلے جاتے ہیں۔ چاندنی ان کے کندھے تھپتھپاتی ہے تو ان کا دل سر مستی اور بے خودی کے چراغ کی صورت بھڑ بھڑ جلنے لگتا ہے۔
عاشق مناظرِ فطرت سے ہم کلام ہوتے ہوئے اپنے رب کو آسمان کی وسعتوں سے زمین پر بلا لیتا ہے اور اپنے دکھ اور پھر اپنی مشکلیں اس کے سامنے ڈھیر کر دیتا ہے۔
رات کو چاندنی میں نہاتے ہوئے درختوں کی خاموشی اپنی تمام تر پُر اسراریت اپنے ماحول کو منتقل کرتی ہے تو پُر وجد اور سکون آور درخت اپنے دیکھنے والے کسان کو بھی خاموشی کے جادو سے بُتِ حیرت میں بدل دیتے ہیں۔
مگر اب ایک عرصہ سے یہ ماحول بھی رخصت ہوا، نہ درختوں جھنڈ ویسے ہیں اور نہ ہی وہ پرانے جنگل دھڑا دھڑ درختوں کی موت واقع ہوئی ہے اور اب میرے گاؤں کا ماحول اداس ہے کہ جہاں سے درویش صفت اور صوفی منش درخت تیزی سے رخصت ہو رہے ہیں۔
ناگ شاہ چوک ہو، یا جنوبی بائی پاس بوسن روڈ ہو یا پھر شجاع آباد روڈ، رات دیر گئے تک آموں کا قتلِ عام جاری رہتا ہے اور صبح تک ان کی لاشوں کو لکڑ منڈیوں کے احاطوں میں پہنچا دیا جاتا ہے۔
پرندے روتے ہوئے اپنے مسکن سے نکلتے ہیں اور تمام دن زمینوں پر صفِ ماتم بچھائے ہر ایک ایک پیڑ کی فاتحہ پڑھتے ہیں اور پھر کسی اور باغ کا رخ کرتے ہیں جب تک کہ وہ نہیں کٹتا تب تک آرام رہتا ہے مگر باغ بدری اور شجر بدری کا غم ان پرندوں کو کھائے جاتا ہے۔
نہریں چل رہی ہیں، مگر ان میں موجود پانی اپنے نصیبے پر ماتم کناں ہے، کیوں کہ سیوریج اور گندگی اس پانی کا رزق بنا دی گئی ہے اور اس پانی کی وجہ سے ہی شہر اور مضافات کی فضاء کو زہر بار و زہر خیز بنا دیا گیا ہے۔
جانور آبی ہوں، یا خشکی کے ہوں پرندے اور جانور سب اداس ہیں کہ ان کی زندگی کے دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں۔ ٹٹیہریاں شہر سے رخصت ہو چکیں، چاندنی رات میں کھلے کھیت کی نا ہم وار جگہوں پر انہوں نے اپنے انڈے سینے ہیں چاند کی چاندنی میں سِیے جانے والے انڈوں پر سے اڑتی اور شور کرتی ٹٹیہریوں کو اب کیا خبر!
اور کماد اور مکئی کے کھیت سے باہر آ کر روتے اور چلاتے گیدڑوں کو کیا علم کہ انسان ہی دھرتی پر سب سے اہم ہو چکا۔ یہ سب کھیت، کھلیان جنگل، ریتلے میدان، صحرا ٹیلے بیلے اور چاندی کی طرح چمکتے پانیوں والے دریا انسان کے قبضے میں آ گئے ہیں۔
اب انسان کی مرضی ہے کہ جانوروں اور پرندوں کی زندگیاں ختم کردے اور وہ نا پید ہو جائیں، یا پھر جی داروں سے ان کا حقیقی ماحول چھین کر انہیں مار دیا جائے۔ انسان کی مرضی ہے کہ وہ اس دھرتی پر جو بھی ظلم چاہے کرے۔
دور تک پھیلے ہوئے کھلے کھیتوں میں چرتے اور زندگی کے سبز خانوں میں رنگ بھرتے ہوئے حشرات الارض آبی اور زمینی حیاتیات جانور اور وہ چند پرندے جو زرعی ادویات اور سپرے کے زہر سے بچ کر جی رہے ہیں انہیں دیکھ کر انسان ہاتھ مسوستا ہے کہ جلد یہ پرندے بھی نا یاب ہو جائیں گے۔
کھیتوں میں کنڑک کا بیج کاشت کرتے ہوئے کسانوں کے ہاتھوں کو برکت کی دعائیں دان کرتے ہوئے لوگو سنو!
سرسوں کے کھیتوں میں اگتے ہوئے پیلے پھولوں کی بہاروں سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل کر لو کہ یہ شاید پھر نہ اگ پائیں۔ دریاؤں اور ندی نالوں کا ماحول دیکھ لو کہ پھر یہ مناظر آنکھوں سے کہیں اوجھل نہ ہو جائیں۔
کچے گھروں میں بنے ہوئے چولہے تندور اور اُپلوں کی زیارت کر لو کھجور، سوہانجنے اور کیکر کے جوبن کو سلامی بھرو، کچے گھروں کے کچے بھڑولے، نلکے، کچی دیواروں اور دور تک جاتی دیہی سڑکوں سے گفتگو کر لو، کچی حویلیوں میں پڑے کیکروں کے خشک ڈھینگر دیکھ لو، مجھے ایک کمی کا شدت سے احساس ہو رہا ہے، اور وہ کمی ہے چھوٹی چڑیوں اور چڑوں کی۔ کسی دیہات میں اِکّا دُکّا یا چند ایک چڑیاں ہی حیات نظر آرہی ہیں۔
زیادہ تر چڑیاں ہوا، فضا اور ماحولیاتی آلودگی سے مر گئی ہیں۔ آپ سب سیل فون کی ڈیجیٹل معلومات اور خبر ناموں سے با شعور ہیں یہ اچھی بات ہے یہاں اگر صنعتیں نہیں لگائی گئیں تو یہ بھی ایک اچھا عمل ہے مگر اس کے متبادل زرعی صنعت کو فروغ دینا ضروری تھا۔
سادہ اور صحت مند محفوظ اور پائیدار زرعی مستقبل، جو دواؤں اور سپرے کے عمل سے پاک ہو، سادہ کھادوں کا استعمال موجود ہو، مصنوعی یوریا کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اور کسانوں کو زرعی اجناس کا بہتر سے بہتر، بل کہ اضافی معاوضہ دیا جائے تا کہ جانور پرندے اور انسان ماحولیاتی آلودگی اور بیماریوں کا شکار نہ ہوں اور ہمارے دیہات زندگی کے فطری منظر نامے سے جڑے رہیں۔