پیارے ظفر اقبال، نظم کا مصرع غزل ایسا نہیں ہوتا
از، ستیہ پال آنند
عمر میں ہم سے کچھ چھوٹے، لیکن قد میں “بڑے” شاعر جناب ظفر اقبال نے میری نظموں میں وزن کی اغلاط کی نشاندہی کی ہے۔ اب میں کیا عرض کروں کہ موصوف جیسے سینئر اردو شعرا کو بھی رن۔آن لائنز Run-on-lines کی تکنیک کو سمجھنےکا شعور نہیں ہے۔
یہ سبھی مصارع، جنہیں بزعم خود موصوف نے غلط سمجھ لیا ہے، صد فی صد صحیح ہیں اور اپنی بحر میں مضبوطی سےقائم ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ظفر اقبال صاحب کی عادت ثانیہ یہ بن چکی ہے کہ وہ غزل کے ایک مصرع کی طرح نظم کی ایک سطر کو بھی خود کفیل دیکھنا چاہتے ہیں جو آخری لفظ تک پہنچ کر ختم ہو جائے۔
جی نہیں، محترم، ایسا نہیں ہے۔ رن آن لائنز کو انگریزی میں پہلی بار مارلو Marlowe اور شیکسپیئر نے سولہویں اور سترھویں صدی میں استعمال کیا جہاں Iambic Pentameter میں کئی بار سطر (مصرع؟) کا نصف حصہ ایک کردار بولتا ہے اور بقیہ دوسرا کردار بول کر اسے مکمل کرتا ہے۔ چار صدیوں میں یہ رواج ایک راسخ صنف کی طرح انگریزی اور دوسری یورپی زبانوں میں مستعمل ہے۔
خاکسار نے 1960 کے لگ بھگ اس کو اردو میں رواج دیا اور ایک سو نظموں پر مشتمل میری کتاب “دست برگ” دہلی سے چھپی جس کا حرف آخر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے لکھا اور اس کتاب پر تبصرہ ۤآہنجہانی کالی داس گپتا رضاؔ نے کیا۔ (رن آن لائنز کے بارے میں ان کا تبصرہ منسلک دنیا اخبار کی تصویر میں ہے۔)
یہ سبھی نظمیں بحرِ خفیف میں تھیں (فاعلاتن مفاعلن فعلن) اور ان میں نفسِ مضمون پہلی سطر کی آخری صوت تک ختم نہ ہو کر سیال مادے کی طرح دوسری سطر کے وسط یا اس کے آخر تک بہتا چلا جاتا ہے۔ اپنے لہجے کے اتار، چڑھاؤ، اور stress کے علاوہ، intonation میں سطروں کی طوالت کو کم کیے بغیر اور بڑھائے بنا، قافیہ اور ردیف سے عاری ان نظموں میں، نفسِ مضمون کا جذر و مد (ebb and flow) پہلی سطر سے دوسری یا تیسری یا چوتھی سطر کے شروع، وسط یا آخر تک جاری رہتا ہے اور وقفوں pauses کے استعمال کی مدد سے ڈرامائی خود کلامی اور مُکالماتی ضروریات کی تکمیل بھی ہو سکتی ہے۔
میری ظفر اقبال سے گزارش ہے کہ اپنے ذہن کی کھڑکیاں کھولیں۔ تازہ ہوا کو اندر آنےدیں۔ یہ مصارع غلط نہیں ہیں۔ اپنی بحر نہین بدلتے۔ ایک ہی بحر میں رواں دواں ہیں۔ میرے لیے ہتک آمیز جملے جو انہوں نے استعمال کیے ہیں، بطور شاعر میر ا کچھ نہیں بگاڑ سکتے لیکن ان کی خود نمائی کا اشتہار ضرور بن جاتے ہیں۔