زندگیوں پہ پلتی وہ نہر
از، یاسر چٹھہ
کہا بھی تھا کہ صبح میں اخبار مت پڑھا کرو۔ ساری خبریں اس “ساکت زمان و مکان” میں اٹکی ہوئی ہی تو ہیں۔ کبھی لگتا ہے کہ روز انہی خبروں کی دہرائی کا کاروبار جاری ہے، کبھی لگتا ہے کہ ایک ہی خبر ہے، بس آنکھ اور کان کے ریڈار کی جب بھی نظر پڑتی ہے فوراً سامنے آ پھن پھیلاتی ہیں۔
آج پھر کہیں سے کسی نہر میں ملنے والی بے شناخت لاش کی خبر پڑھ لی۔ بالکل اسی طرح جس طرح کبھی کبھار ہاتھ، پاؤں، ٹانگیں اور پیٹ پھولی، ہر طور سے شکل بِگڑی لاشیں ہمارے گاؤں کے ساتھ ساتھ بہنے والی بہت بڑی قادر آباد بلوکی رابطہ نہر کے مختلف مقامات پر “کنڈھے” لگ جاتی تھیں۔
تب اگر کوئی صبح سویرے اپنی بھینسوں کا دودھ دوہنے کے لیے جاتے ہوئے اپنے کُھوہ کے رستے پر اسے دیکھ آتا تو، سہمے سہمے اس خبر کا بوجھ اٹھائے پھرتا۔ اور اس بات کو اپنے اندر سنھبالنے کی اپنی بے چینی کا مشکل بوجھ سہارے دودھ دوہتا۔ دودھ دوہتے دوہتے بھی دماغ میں ہلچل مچی رہتی۔ طرح طرح کے خیال انگڑائیاں لیتے رہتے کہ کہاں سے آن پڑی یہ لاش؟ کیونکر ہوگیا ایسا؟ لگتا ہے ڈوب کر مرا ہوگا؟ یا پھر کہیں قتل تو نہیں ہوا؟ آخری شائبہ کئی طرح کے امکانات کے بڑے بڑے ناخنوں والی بلاؤں کے چہرے سامنے لے آتا۔
جونہی ناظرِ لاش دودھ دوہنے سے فارغ ہوتا بھاگم بھاگ واپس گاؤں آتا۔ پہنچتے ہی دودھ کا دوہنا اپنے گھر رکھ کے آنے سے پہلے گاؤں کی مسجد کی طرف جانے والی گلی کے پاس آتا۔
مسجد کو جانے والی تنگ گلی سے پہلے بجلی کے کھمبے کے دائیں طرف حجام بیٹھا ہوتا۔ اس کے ارد گرد ڈھاڑیاں منڈھوانے اور بال کٹوانے والوں کے علاوہ گاؤں کے معمرین و معززین پِیڑھے ڈالے بیٹھے ہوتے۔ وہ دھوپ سینکنے کے ساتھ ہر گزرے واقعے اور ہر ہو گزرنے کی کوکھ میں ٹانگیں پسارے سانحے پر کچھ مہینے سالوں پہلے کے رونما واقعات و سانحات کی روشنی میں تجزیہ کاری کے لیے ہمہ دم تیار ہوتے۔
یہیں وہ مقام و مجلس تھی جہاں گذشتہ رات کو پیش ہونے والے حالات و واقعات کی سانجھ کی جاتی۔ یہیں پہ نہر کی پٹری پہ رات کو ہونے والی ڈکیتی یا صبح سویرے کسی موٹر سائیکل سوار سے جیب خالی کرائے جانے کی سنسنی خیزی کا بتایا جاتا۔ کبھی کبھار تو پوری موٹر سائیکل ہی چھین لی جاتی۔ آہا، اس کے پیسے کتنی مشکل اور منتوں سے شہر کے آڑھتی سے مانگے ہوتے تھے۔ وہ پیسے کہ جن سے موٹر سائیکل خریدی جاتی تھی!
کسی واقعے اور حادثے کی سنجیدگی و درد ناکی سے پرے خبر سنانے والے کو عجیب سے انداز میں اپنی اہمیت کا انوکھا سا احساس بھی ہوتا کہ آج وہ کسی واقعے کا حوالہ بنے گا۔ راوی ہونا اور روایت کرنا توجہ کا مرکز بننے کا ایک پرانا اور مَنّا پَرونّا ذریعہ بھی تو ہے۔ اس کی ایک گواہی آپ کو اور ہمیں روز اپنے “حماقتی ڈبوں” سے چینختی چِلاتی ملتی ہے کہ “ناظرین ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ ہم فُلاں فُلاں چینل نے اپنی پانچ سو قبل مسیح سے جاری روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس خبر کو سب سے پہلے بریک کیا۔”
اب آج کا گواہ جب اس محفل میں بتاتا کہ اس نے نہر کے کنڈھے، پکے پُل سے اتنے فاصلے پر سرکنڈوں کے ساتھ اٹکی لاش دیکھی ہے تو سب لوگ کان چُک کر اور سانس تھام کر بات سنتے۔ پہلے دل گرفتہ ہوتے۔ (تجسس، دلچسپی اور خوف کے معنوں کے مجموعی اثرات کو سمیٹے کوئی لفظ اردو زبان میں راقم کو نہیں ملا جو یہاں بطور اسم صفت برتتا۔) پر کچھ ہی لمحوں بعد کئی خوف بھی اس مجلس میں آن پِیڑھے ڈالتے۔ اب اس بلا کے رد کی ترکیبیں لگنی شروع ہو جاتیں۔
باتیں ہونا شروع ہو جاتیں کہ پتا نہیں سندھ طاس معاہدے نے ہم سے کیا کیا بدلہ لینا تھا۔ اتنی بڑی نہر بنی کہ اس نے ہماری زمینوں کو جو ہمارے روزگار کا واحد ذریعہ تھیں ان کو سیم اور شور زدہ کر دیا۔ زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوئی۔ اس رابطہ نہر نے ہمارا رابطہ دھرتی سے کمزور کردیا۔ حکومت نے پہلے اس سیم کے خاتمے کے لیے گہرے بور والی بڑی موٹریں لگائی کہ بڑی نہر کی وجہ سے جو پانی کی سطح اوپر آنی تھی اس کے لیے اس کا نکاس ہو۔ گزارہ چل گیا۔ پھر کچھ سال بعد کسی پانی بجلی کی وزارت کے مشرف دور کے لائق فائق بابو نے ان موٹروں پہ اٹھنے والے بجلی کے خرچے کو ریاست پاکستان پہ بڑا بوجھ جانا۔ یہ وہی دن تھے جب بڑے بڑے پڑھے لکھے میکرو اکنامک اشاریوں اور گڈ گورنینس پہ انگریزی کی غلطیوں سے مبرا مضامین اخباروں کی زینت کیا کرتے تھے۔ دنیا کے مشہور ترین بینک کے اعلٰی ترین افسر کو وزارت عظمٰی پہ فائز کرنے کی رسم انجام پا چکی تو دھرتی کی ناک تک پہنچ جانے والے پانی کی نکاسی کرنے والی موٹریں بھی کٹ گئیں۔ سیم اور شور ڈراؤنے خواب کی طرح پھر سے آگئے۔ ساتھ ہی نہر کی پٹری پہ ڈاکوؤں نے اپنی ریاست بھی بنا لی۔
اسی نہر کے پانی میں جانے کہاں سے لاشیں آجاتی ہیں۔ ابھی پچھلے سال ہی تھانیدار نے ایسی لاش کے ہمارے گاؤں کے پاس اٹکنے پر کتنے مہینے پورے گاؤں کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ کتنے پیسے دے دلا کر جان بخشی کرائی تھی۔
پرانے سبق یاد تھے۔ فیصلہ کرنے میں دیر نا لگتی۔ مشاورت ہوجاتی اور کچھ لوگ اکٹھے ہوکر جاتے اور لمبے سے ڈنڈے سے اس گلتی سڑتی لاش کو اس لیے آگے دھکیل دیتے کہ ہمارے گاؤں کے ذمے نا لگے۔
اعلٰی انسانی ضمیر اپنی جگہ تڑپتا، زمینی حقائق اپنے طور دُہائیاں دیتے اور شہر کے دانشور، پروفیسر اور صحافی کہتے جاتے کہ وسطی پنجاب سب کھا گیا ہے۔ لیکن راقم سوچتا کہ یہ علاقہ بھی تو شاید وسطی پنجاب کا ہی ایک گاؤں ہے۔ اور اس لمبی رابطہ نہر کے کناروں پر کئی گاؤں ہیں جہاں صنعتیں نہیں ہیں۔ لیکن ان دیہاتوں کو تو کہیں اور سیراب کرنے والا پانی کھا گیا۔ گُھن کی طرح ہی تو ہوتے ہیں سیم اور شور۔ وسطی پنجاب سب کھا گیا کہ وسطی پنجاب کھایا گیا؟ تھوڑی سی ہی لفظی ترتیب کا فرق ہے۔ میں نے بھی صبح کو اخبار پڑھنے کا اپنے سے کیا وعدہ کیوں توڑا۔ اب کئی خلشیں میرے آس پاس آ بیٹھی اونچے اونچے بین کر رہی ہیں۔ بس اونچی اونچی آوازیں آ رہی ہیں۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.