(حیدر شیرازی)
ہمیں دوغلا پن ختم کرنا ہو گا بس جو دِل مانے کہو جو عقل تسلیم کرے اُس پر لبیک کہا جائے۔ قندیل فقط ایک عورت نہیں معاشرے کی سوچ کا نام ہے اوراِس سوچ کا ظہور قندیل کی شکل میں ہوا،یقین کیجئے ہم پر زبردستی کا نظام نافذ کیاجا رہاہے ورنہ ہماری مجموعی سوچ اور معیار کا اندازہ لگانا ہو تو عمران خان کے جلسوں میں خواتین سے بدتمیزی کے واقعات دیکھ لیں یہ کسی ایک جماعت کی سیکیورٹی کا مسئلہ نہیں یہ اجتماعی سوچ ہے ،جس کا اندازہ تب ہوتا ہے جب بھائی اپنی بہن کو کالج چھوڑنے جاتا ہے تو راستے میں اوباشوں کی آوازیں آتی ہیں۔ جب باپ بیٹی کو موٹر بائیک پر ٹیوشن سے واپس لاتا ہے توتعاقب میں نظریں اور سیٹیاں، جب دو بہنیں شاپنگ مال سے اس لئے جلدی واپس آجاتی ہیں کہ غلیظ نظریں انہیں ایسے دیکھتی ہیں جیسے بھیڑیے شکار کے لئے جھاڑیوں میں تاک لگائے بیٹھے ہوں کہ کب شکار اُن کے ہاتھ آئے گا ۔قندیل نے معاشرے کوایک ایسی نظر سے دیکھا جو حقیقت سے بہت قریب تھا جہاں عزت،سوچ،اقداروروایات کا معیاردنیا وی دکھاوے سے ہٹ کراصل اور حقیقی روپ میں تھا،وہ اَن پڑھ تھی جو دیکھا جیسا دیکھا ویسا بیان کیااور ایسے ہی معاشرے کے لئے خود کو ڈھالا جیسا معاشرہ تھا ،اُس نے کچھ بننے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی معاشرے کو اُس نے پڑھا اور نہ پڑھنے کی کوشش کی اُس نے جو کیا معاشرہ اُس کا طالب تھا ،لیکن کیا کریں عوام کو عجت(عزت) آڑے آجاتی ہے ورنہ کون ا یسا ہے جس نے قندیل کی ویڈیوز پر بات نہ کی ہو کِس نے نہ دیکھا ہو۔
ہاں تین لوگ ایسے ہیں جن کو قندیل کا علم نہیں ایک وہ جو اندھا ہے ،ایک وہ جو گونگا ہے ایک وہ جو بہرہ ہے- باقی معاشرہ ہی دُھائی دیتا رہا ہماری مَانگیں پوری کرو اورکوئی چُھپ کر کوئی بانگ لگاتا رہا ،اب یہ بحث فضول ہے کہ قندیل کا کردار کیسا تھا وہ ایک معاشرے کی ضرورت تھی اوراِس میں صرف دِکھانے والے قصور وار نہیں دیکھنے والے بھی برابر کے شریک ہیں ریٹنگ کا تعلق عوام سے ہے اور جو دیکھنا چاہیں وہی دکھایا جاتا ہے اور اس کا اندازہ کرنا ہو تو قندیل کے پروگرام اور ریٹنگ کا جائزہ لگا لیں کہ پاکستانی سوچ کا پلڑا کس طرف جھکا ہے تو اندازہ ہو جائے گا ۔ ہمیں صرف اتنا بتا دیا جاتا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل ہے۔ ارے نادانو۔۔ خودکشی کے پیچھے کوئی نہ کوئی قاتل اور وجہ ہوتی ہے اور تم اِس غیرت کے نام پر ہونے والے قتل پر تو دُھائی دیتے ہو اور معاشرے کے اِس رویے پر چُپ سادھے ہو جس نے ایک بھائی کے بہن کو ، باپ بیٹی کو ، ماں بیٹی کو ،بیٹا ماں کوقتل کرنے پر مجبور کر دیا کیا معاشرہ قصو روار نہیں ۔۔؟ہم صرف تنقید کرنے والے ہیں اورکسی کی مجبوری کا اندازہ نہیں لگاتے مجبور ی کا اندازہ لگانا ہے تو ایک سچے واقعے سے لگاؤ ۔
ستمبر2011کراچی سے لاہور بذریعہ ٹرین جانے کا اتفاق ہوا،میں اور میرا دوست کراچی سے ٹرین میں سوار ہوئے حیدرآباد تک ہم دونوں ہی آمنے سامنے بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ حیدرآباداسٹیشن سے ایک عورت اپنی بیٹی کے ساتھ ٹرین میں سوار ہو گئی ،میں سیدھا بیٹھ گیا کیونکہ ہمارے ساتھ اب ایک عورت بھی محو سفر تھی تین چار گھنٹے تک کوئی بات نہیں ہوئی اور باتوں کا سلسلہ کچھ ایسے شروع ہواکہ اُس کو بیٹی کے لئے بیگ سے کھانے کا کچھ سامان نکالنا تھا اور اُسے مشکل پیش آرہی تھی میں نے اُن کو مدد کی پیشکش کی اوربیگ سے ڈبہ نکال کر انہیں دیا اِسی دوران میرے دوست نے پوچھا باجی ،آپ نے کہاں جانا ہے ؟جس کا جواب نہ ملا ۔ سفر جاری رہا کبھی بچی کا رونا سنائی دیتا کبھی ہم فیس بک کی دنیا میں گم ہو جاتے ساتھ ساتھ ٹرین کی چکھ چکھ۔ جیسے تیسے شام ہو گئی ،ہم ملتان پہنچ گئے اور میں کھانے پینے کا سامان لینے باہر نکلا ،کھانے کے ساتھ پانی کی تین بوتلیں بھی لے لیں ۔اور واپس ٹرین میں آکر کھانا کھولا اور انہیں کھانے کا ایک ٹفن دیا جو انہوں سے شکریے کے ساتھ واپس کر دیا البتہ پانی کی چھوٹی بوتل انہوں نے ہمارے اصرار پر اپنے پاس رکھ لی ، کھانا کھانے سے پہلے اور بعد تک مجھے یہ سوال تنگ کرتا رہا کہ اِن محترمہ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا نہ جانے کیوں ۔میں سمجھ گیا شائد کہ ہماری موجودگی آڑے آرہی ہے یہ احساس ہوتے ہی میں نے دوست کا ہاتھ پکڑا اور اپنی سیٹوں سے باہر آگیا اور باہر جاتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ کھانا سامنے تختے پر رکھا ہے کھا لیں یہ کہہ کر ہم ٹرین کے دروازے پر آگئے اور میرے دوست نے ایک کش لگائی اور ہم باتیں کرنے لگے ، باتوں میں ہمیں اِس بات کا بہت زیادہ احساس ہوا کہ عورت کی زندگی ۔۔۔ اور ٹھنڈی سانس بھری اور ہم وہیں کھڑے رہے یہاں تک کہ ہمیں یقین ہو گیا کہ محترمہ نے کھانا کھا لیا ہو گا ۔جب ہم اپنی سیٹ پر واپس گئے تو مجھے یہ دیکھ کر خوش ہوئی کہ انہوں نے ہمارا دیا ہوا کھانا قبول کیا اور شکریہ ادا کیا جو نہایت سرسری تھا ۔میں بیٹھ کر دوبارموبائل گیم میں لگ گیا ۔اچانک میری نظر خالی ٹفن پر پڑی جس کے نیچے سو روپے کا نوٹ رکھا ہوا تھا مجھے ایک دم جھٹکا لگااورخاموش بیٹھ کر نہ جانے کس سوچ میں گم ہو گیا ۔
سفر جاری تھا میں تھک چکا تھا اور سونے کا خیال آیا اِسی دوران محترمہ بولیں وہ پیسے وہاں سے اُٹھا لیں ۔میں ایسے گویا ہوا جیسے میں نے پیسے پہلے نہیں دیکھے اور اِدھرُ ادھر دیکھنے لگا اور اپنے جیب پر ہاتھ مار کر دیکھا کہیں گر تو نہیں گئے جو سو دو سو روپے تھے جیب میں۔ تو وہ بولیں وہ ٹفن کے نیچے ہیں ۔میں نے اُٹھائے اور انہیں واپس دینے کے کوشش کی اور اصرار کیا لیکن انہوں نے منع کر دیا تب نہ جانے کیسے میرے منہ سے نکلا کہ یہ پیسے واپس کرنے کے لئے نہیں یہ اِس پیاری سی بچی کے لئے ہماری طرف سے تحفہ سمجھ لیں انہوں نے قبول کر لئے۔تھوری دیر بعد اُنہوں نے ہم سے پوچھا کہاں جاؤ گے میرا دوست بولا ہم لاہور جا رہے ہیں ۔تو بولیں لاہوری لگتے تو نہیں، دوست بولا وہ جی ہم کشمیر کے ہیں لاہور ایک کام سے جانا ہے ۔اور اُن سے پوچھا آپ کہاں جا رہی ہیں تو بولیں ہمارا ٹھکانہ کہاں۔۔؟ مجھے تعجب ہوا یہ کیا کہہ رہی ہیں ۔ ایک صحافی استاد کا قول یاد آیا کبھی کبھی خبر کے لئے کسی کی خوشی میں خوش ہونا اور کبھی غم میں رونا پڑتا ہے میں نے چہرے پر دُکھ لانے کی کمال ایکٹنگ کی ،اور انہیں یقین ہو گیا کوئی ہم سازمانے کامارا ہے۔ میرے دوست نے ایک بار دوبارہ پوچھا کیا کرتی ہیں آپ بَس کیفیت کیاتھی اچانک آنکھوں سے آنسو کا ایک سیلاب امڈ آیا بولیں آپ پڑھے لکھے دِکھتے ہو آپ کو کیا بتاؤں کہ میں لوگوں کی خوشی کا سامان ہوں ، میں سمجھ گیا پر میرے دوست کو سمجھ نہ آئی کہ کیا کہا جا رہا ہے وہ بولنے ہی والا تھا کہ” جی کیا کہا۔۔”
میں نے کہنی کے زور سے چُپ کروا دیا ۔وہ تو جسے ایک داستان سنانے بیٹھی تھی لیکن میرے دوست کی ہنسی نے اُسے کچھ کہنے نہ دیا بس اتنا کہا” وقت ،مجبور اور بے بس بناتا ہے ۔”میں نے آخری بارشاہ رخ خان کی سی ایکٹنگ کی اور مایوسی بھرے لہجے میں کہا آپ اِس پیشے میں کیوں اور کیسے ۔۔؟ جس کے بعد ایک جملہ جس نے میری نیند ختم کر دی وہ یہ تھا” صا حب لوگ کبھی روندتے ہیں کبھی نچاتے ہیں ۔ بس اتنا یاد رکھنا دنیا میں لوگ ناچ ناچ کر مرتے ہیں عورت ذات مَر کے نا چتی ہے ”کبھی میں اُس کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا کبھی میں اِس جملے کی گہرائی کا اندازہ کرنے کی کوشش کرتا ۔ نہ جانے کب لاھور آیا –
میں آج تک اِس جملے کے معنی تلاش کر رہا ہوں آج قندیل کو جب دیکھا تو اُس خدا کی بندی کا جملہ میرے ذہن میں آگیاصاحب وقت مجبور اور بے بس بناتا ہے لوگ ناچ ناچ کے مرتے ہیں۔عورت ذات مَر کے ناچتی ہے ۔نا جانے کب قندیل مر چکی تھی آج دفن ہونے کے لئے تیار ہوئی ہے ۔نا جانے کتنی بارجوان عورت کو گھر بیکار بیٹھے رہنے پر طعنے۔۔ چھوڑیے جی یہ باتیں۔ہاں یاد آیا قندیل نے حفاظت کی درخواست دی تھی نا۔ امجد صابری نے درخواست دی تھی نا ۔ کب کچھ ہو گا کب ۔ ایک شعر خوب یاد آیااُن حکمرانوں کے لئے جو سیکیورٹی تک نہیں مہیا کر سکتے وہ بھی شریکِ جرم ہیں۔
کرسی ہے ،تمھارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے ۔