قانون کی اصل بنیاد
از، سعد اللہ جان برق
مالک کائنات و موجودات نے انسان کو خلیفۃ الارض بنایا تو ساری زمین سارے انسانوں کی یکساں ملکیت قرار دی گئی۔ لیکن انسان کے اندر ایک ابلیس بھی ہوتا ہے جو ہر وقت اپنی برتری اور بالاتری کے زغم میں مبتلا رہتا ہے‘ اس لیے کچھ انسانوں نے جن کے اندر آدم کا ’’ہم‘‘ نہیں ابلیس کا ’’میں‘‘ تھا کوشش شروع کی کہ ملکیت کا زیادہ سے زیادہ حصہ قبضہ کرلیں اور یہیں سے ساری خرابی پیدا ہوئی۔ جس نے بہت سی چیزوں پر ’’میرا‘‘ کا ٹھپہ لگا دیا اور مقررہ برابری سے زیادہ حصہ اپنی جھولی میں ڈال لیا جو’’حصہ‘‘ اوروں کا تھا وہ اس سے محروم ہو گئے۔
اب اگر دس لوگوں کے لیے دس روٹیاں ہوں لیکن چند ایک دودو اور تین تین روٹیاں لے لیں تودس میں سے کچھ کو بھوکا رہنا پڑے گا اور اس بھوک کو مٹانے کے لیے وہ ان لوگوں سے بھڑے گا جو اپنے حصے سے زیادہ روٹیاں لے چکے ہیں۔ اسی خطرے کے تدارک کے لیے زیادہ روٹیاں ہڑپنے والوں نے ’’قانون‘‘ کا چکر چلا دیا، ملکیت کو قانونی بنا دیا۔ اب اگر ’’بھوکے‘‘ اور ’’محروم‘‘ اس سے روٹی چھننے کی کوشش کریں گے تو یہ ’’جرم‘‘ کہلائے گا اور کہلاتا ہے۔ قوانین کے مطابق کسی گھر میں ’’چوری‘‘ کرنا ڈاکہ ڈالنا جرم ہوتا ہے لیکن اس قسم کا کوئی قانون نہیں کہ آخر اس کے پاس جو ’’ملکیت‘‘ ہے وہ کہاں سے آئی ہے۔
کسی گھر میں دیواروں دروازوں اور تالوں کا مطلب یہ ہے کہ اس گھر میں کچھ ایسا ہے جو اوروں کے پاس نہیں ہے اور وہ لوگ ان لوگوں کے ضرور درپے ہوں گے جن کے پاس ہے اور اسی مقصد کے لیے قانون کے سنتری کو رکھا گیا ہے۔ دیوار، تالا، چوکیدار بجائے خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہاں کچھ ایسا ہے جو اوروں کے پاس نہیں ہے اور وہ اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو حقیقت میں پہلا مجرم وہ شخص نہیں جس نے کچھ چرایا تھا بلکہ وہ ہے جس نے ’’تالا‘‘ لگایا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جرائم کی ماں بھوک ہے اور بھوک کی ماں استحصال ہے اور استحصال قانون کا فرزند ارجمند ہے کیونکہ یہ قانون ہی ہے جس نے قتل کو جرم قرار دیا ہوا ہے لیکن قتل پر مجبور کرنے کے عوامل کو صاف صاف بری کیا ہوا ہے ۔یہ قانون ہے کہ انسان کو اگر انسان قتل کرے تو یہ جرم ہے لیکن اگر ریاست یا کوئی گینگسٹر ایک گینگ بنا کر قتل کرے تو وہ سکندر اعظم ‘جولیس اعظم، فرعون اعظم، چنگیز اعظم،تیمور اعظم، بابر اعظم اور اکبر اعظم کہلاتا ہے۔
دوسروں سے زیادہ جمع کرنے حاصل کرنے، چھننے والے ’’مالک‘‘ کو تحفظ دینے کا نام قانون ہے۔ قانون کی چھلنی کو ابتدا ہی سے ایسا بنایا گیا کہ استحصالیوں کے استحصال کو جائز اور قانونی قرار دیا گیا اور اپنے چھنے ہوئے حق کو حاصل کرنے والا مجرم قرار دیا گیا۔ چوری وہا ں ہوگی جہاں کچھ ہوگا اور جہاں کچھ ہوگا وہ کسی اور کا ہوگا۔ سب اپنے اپنے حصے کی ایک ایک روٹی کھائیں گے تو کسی کے پاس نہ تو روٹی بچے گی اور نہ کوئی اس سے ’’کچھ‘‘ چھنے گا۔
یہ تو خیر ہم نے قانون کی یا جرائم کی بنیاد بتائی ہے لیکن اس استحصال اور محرومی کا سلسلہ جو ابتدائے افرینش سے شروع ہو چکا ہے اس میں جہاں جہاں بھی کوئی خرابی ہوگی اس کی بنیاد یہی استحصال اور محرومی ہوگی۔
آج کی دنیاان ہی دو عناصر میں بٹی ہوئی ہے۔ اور صرف ایک تقسیم مستقل ہے۔
انسانوں میں صرف دوہی مستقل طبقے ہیں جنھیں ہم ’’اشرافیہ‘‘ اور ’’عوامیہ‘‘ کہہ سکتے ہیں اور جن کا تناسب پندرہ اور پچاسی کا ہے۔ پندرہ فیصد اشرافیہ جو کچھ بھی نہ کرکے سب کچھ ہڑپتی ہے اور پچاسی فیصد عوامیہ جو سب کچھ کرتی ہے لیکن کچھ بھی نہیں پاتی۔
اور یہ سب کچھ قانون کی اس ’’چھلنی‘‘ کا ’’کردہ‘‘ ہے جس میں سے ’’لکھ‘‘ چوری کرنے والے صاف نکل جاتے ہیں اور ’’ککھ‘‘ چوری کرنے والے پکڑے جاتے ہیں کیونکہ چھلنی بنائی ہی اس ہنر مندی کے ساتھ ہے کہ بڑے اور اجتماعی جرائم ’’قانون‘‘ ہوتے ہیں اور چھوٹی انفرادی ’’کوشش‘‘ جرائم بن جاتے ہیں۔
دنیا کے پہلے حکمران اور بعد اشرافیہ سے شروع ہونے والی اس بدعت کو اب اتنا زمانہ گزر چکا ہے کہ اس کا بدلنا نا ممکن ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس عمارت کی بنیادی ٹیڑھی ہو۔ اس کا ٹیٹرھا پن ہمیشہ رہے گا۔ قانون نہ تو کبھی کسی کو انصاف دلا سکا نہ دلا سکے گا نہ جرائم کو ختم کر سکا ہے نہ ختم کر سکے گا۔ کیونکہ بقول غالبؔ
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیوالیٰ برق خرمن کا ہے ’’خون گرم‘‘ دیقاں کا
قانون کے کنوئیں کی تہہ میں بھی اشرافیہ کے استحصال کو تحفظ دینے کا کتا پڑا ہوا ہے اب اس سے کتنا ہی پانی کیوں نہ نکالا جائے وہ پلید ہی رہے گا کیونکہ اس کتے کے ساتھ آہستہ آہستہ اور بھی بہت کچھ ہوتا رہا ہے۔ سڑتا رہا ہے۔ گلتا رہا ہے اور پانی کو مزید گندہ کرتا رہا ہے۔
یہاں ہم صرف دو تبدیلیوں کا ذکر کریں گے۔ حمورابی کے مسودۂ قوانین میں دو دفعات ایسی تھیں جو حکمرانیہ کے خلاف جاتی تھیں ان کو یکسر نکال دیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ اگر کوئی ٹھیکیدار یا معمار کوئی گھر یا عمارت بنا دے اور وہ گرجائے تو اس کا تاوان ٹھیکیدار دے گا۔ اگر اس میں مالک مکان خود یا اس کی بیوی بیٹا دب کر مر جائیں تو ٹھیکیدار یا اس کے بیوی بیٹے کو موت کی سزا ہوگی۔ لیکن وقت کے ساتھ تعمیرات کا کام حکومتوں اور اشرافیہ کے ہاتھ میں آگیا۔ اس لیے یہ شق کہیں بھی کسی قانون میں نہیں ہے۔
دوسری شق جرائم سے متعلق تھی کہ اگر کسی پر کوئی دعویٰ کردیا اور وہ اس دعوے کو ثابت نہ کر سکا تو وہی سزا اس جھوٹے مدعی کو ملے گی جو اس جرم کے لیے مقرر ہوگی۔ قتل کے غلط دعوے پر سزائے قتل اور اس طرح ہر دعوے کے مطابق وہ سزا الٹ کر اس پر آپڑے گی۔
لیکن اشرافیہ اور حکمرانیہ نے اسے نکال دیا کیونکہ جھوٹے دعوے اور جھوٹے داؤں میں عوام کو پھنسانے‘سال ہا سال قید دلوانے اور خرابوں میں مبتلا کرنے کا کام اشرافیہ کا ہی ہے کیونکہ عوام یا غریبوں کو ’’قانون‘‘ کے ہنڑ ہی سے سیدھا رکھا جاتا۔ اگر کوئی ملازم اپنی تنخواہ مانگے یا کم تنخواہ سے بھاگ جائے تو اسے چوری وغیرہ کے جھوٹے الزام میں پھنسا کر سیدھا کیا جاتا ہے۔
حکومت مخالف اور اشراف کے درپئے لوگوں کو بھی جھوٹے مقدمات میں پابہ زندان کیا جاتا ہے لیکن مقدمات غلط نکلنے پر اس غذاب اس نقصان اور تکلیف کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا ایک ڈھیلی ڈھالی سی دفعہ ایسی ہے لیکن میں اس بچارے کو باقاعدہ ایک دوسرا مقدمہ دائر کرنا پڑے گا جس کی سزا بہت معمولی جرمانہ ہے لیکن حمورابی کے قوانین میں دعویٰ غلط ثابت ہونے پر اسی وقت خود بخود غلط مدعی سزا وار ہو جاتا تھا۔
express.pk