قاری اور لکھاری کا باہمی رشتہ کیا ہے؟
(خورشید ندیم)
میں برسوں سے اخبار میں کالم لکھ رہا ہوں۔ اس دوران میں ان گنت لوگوں نے میرے کالموں پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ کبھی بالمشافہ ،کسی ملاقات میں اور کبھی بالواسطہ، کسی تحریرمیں۔ میں نے ان آراء کی روشنی میں جب اس تعلق کو سمجھنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ سب کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکا جا سکتا۔ یہ دراصل پڑھنے والے کا پس منظر ہے جو لکھاری کے باب میں اس کی رائے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس معیارپرمیں قارئین کو چند طبقات میں تقسیم کرتا ہوں۔
سب سے بڑا طبقہ ان لوگوںکاہے جو خود صاحبانِ رائے ہیں یا اپنے بارے میں یہ گمان رکھتے ہیں۔ مذہب، سیاست، سماج، اِن سب پر ان کا ایک طے شدہ موقف ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ لکھنے والے سے زیادہ ان موضوعات کی خبر رکھتے ہیں۔ وہ علم کے اعتبار سے فائق ہیں اور بصیرت میں بھی برتر۔بعض اوقات یہ گمان حقیقت بھی ہوتاہے۔ یہ لوگ دراصل قاری نہیں قاضی ہوتے ہیں اور محتسب کی نظر سے کالم پڑھتے ہیں۔ وہ اپنی قائم شدہ آراء کے بنیاد پر لکھاری پر حکم لگاتے ہیں۔ ” واہ کیا اچھا تجزیہ ہے۔‘‘، ” اب پتا چلا کہ فلاں سے لفافہ لیا ہے۔‘‘ ،” اس کالم سے آپ کا تعصب کھل کر سامنے آ گیا۔‘‘ اس نوعیت کے بہت سے تبصرے ہیں جو پڑھنے کو ملتے ہیں۔
اس طبقے میں کم ہی ایسے ہوتے ہیں جو معروضیت کے ساتھ کالم پڑھتے ہیں۔ قارئین کی بڑی تعداد ان محتسبوں پر مشتمل ہے۔ ان کی طے شدہ مذہبی اور سیاسی وابستگیاں ،ان کے لیے حق و باطل کا پیمانہ ہیں۔ وہ اس پہ لکھنے والے کو پرکھتے اور پھر اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔کیا پڑھنے والوں میں کوئی طبقہ ایسا بھی ہے جو لکھنے والے کی رائے پر معروضیت کے ساتھ غور کرتا ہے؟ کیا وہ اس امکان کو تسلیم کرتا ہے کہ اس کی طے شدہ رائے غلط ہو سکتی ہے اور کسی معاملے میں وہ کالم نگار کا ہم نوا بھی ہو سکتا ہے؟ میرا خیال ہے کہ یہ تعداد اتنی کم ہے کہ ناقابلِ ذکرہے۔
ایک طبقہ ان قارئین پر مشتمل ہے جن کی رائے چند مفروضوں پر مبنی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پرایک مفروضہ یہ ہے کہ حکومت کی مخالفت میں لکھنابہادری اور دیانت کی علامت ہے۔ جو آدمی مسلسل حکومت کے خلاف لکھتا ہو ، وہ اس کی دیانت کے قائل ہوتے ہیں۔ اس طبقے کے لیے یہ بات قابل ِفہم نہیں کہ کوئی لکھنے والا دیانت داری کے ساتھ کسی حکومتی موقف کی تائید بھی کر سکتا ہے۔
یہ رائے ایک تاریخی تجربے کا حاصل ہے۔ انگریزوں کے دور میں ہمارے ہاں طاقت اور قوت کا مرکز صرف حکومت ہوتی تھی۔ ظاہر ہے کہ وہ ایک غاصبانہ حکومت تھی۔ جو اس کے خلاف آواز اٹھاتا باغی قرار پاتا اور یوں تعزیر کا مستحق ہوتا۔ لکھنے والوں کو اکثر اس ‘جرم ‘ کی پاداش میں جیل جانا پڑتا۔ وہ بجا طور پر بطلِ حریت قرارپاتے جو حکومت کے سامنے کھڑے ہو جاتے۔ وہی صاحبانِ عزیمت سمجھے جاتے تھے اور انہیں ہی معاشرے میں ہیرو کا درجہ دیا جاتا تھا۔ مولانا محمد علی جوہر، مولاناابوالکلام آزاد، مو لانا ظفر علی خان ،یہ ہماری صحافت کے ہیرو ہیں اور ان ہی کو ہیرو ہو نا چاہیے۔غالباً مو لانا جو ہر پہلے آ دمی ہیں جنہیں بطلِ حریت کہا گیا۔
پاکستان بننے کے بعد ،ہمارے ہاں ایک طویل عرصہ ایسا گزرا جب ہماری اس ذہنی ساخت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔جو لوگ حکمران بنے،انہوں نے خود کو انگریز بادشاہ کا جانشین سمجھا۔یوں عوام کے ساتھ اربابِ اقتدارکا وہی رویہ رہا جو ایک بادشاہ کا اپنی رعایا سے ہوتا ہے۔آزادی کے بعد بھی ایک ڈپٹی کمشنر کی آن بان وہی رہی جو ایک انگریز ڈی سی کی تھی۔آج بھی ان کی رہائش گاہوں کا حدود اربعہ نا پیں تو حیرت زدہ رہ جائیں۔اس رویے کے نتیجے میں عوام نے بھی حکمرانوں کے بارے میں یہی رائے قائم کی کہ وہ ‘غیر‘ ہیں۔ دونوں اُس تبدیلی کو سمجھ سکے نہ محسوس کر سکے کہ وہ ایک دوسرے کے اپنے ہیں۔اب عوام نے اگر احتجاج کیا تو حکمرانوں نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو انگریز باغیوں کے ساتھ کرتا تھا۔
اس ماحول میں ایک عام آ دمی کی ذہنی ساخت بھی تبدیل نہیں ہو سکی۔اس نے حکمرانوں کو کبھی اپنا نہیں سمجھا اور ان کے خلاف آواز اٹھانے والے کو اپنا ہیرو قرار دیا۔جاوید ہاشمی جب اپنی کتاب کا عنوان ”ہاں، میں باغی ہوں‘‘ رکھتے ہیں تو یہ اسی ذہنی ساخت کا مظہر ہو تا ہے۔تاہم یہ صورت حال غیر محسوس طریقے سے ارتقائی مراحل سے گزرتی رہی۔ایک طرف یہ تبدیلی آئی کہ اقتداراور قوت کا مرکز ایک نہیں رہا۔یہ اہلِ سیاست ، بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ میں تقسیم ہوگیا۔اس کے نتیجے میں ان کے مفادات باہم متصادم بھی ہوئے۔کچھ اور وقت گزرا توغیر ریاستی عناصر بھی اقتدار و قوت میں شریک ہو گئے جیسے سرمایہ دار، جاگیر دار اور اب طالبان جیسے عسکری گروہ۔
دوسری تبدیلی یہ آئی کہ معاشرے میں جمہوری قدریں مضبوط ہوتی گئیں۔ان میں سب سے اہم آزادی رائے تھی۔اس جمہوری تبدیلی کے باعث حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ ریاستی طاقت کے زور پر مخالفین کی آواز کو دبا سکے۔کم و بیش دس سال سے پاکستان میں سیاسی قیدی کا تصور ختم ہو چکا۔پیپلز پارٹی کے دور میں کوئی سیاسی قیدی تھا نہ آج کوئی سیاسی قیدی ہے۔ آج حکمرانوں کے خلاف ہر بات کہی جا سکتی ہے اور کوئی کسی کو روکنے والا نہیں ۔
اس فضا میں سیاسی حکومت کے خلاف لکھنایا بولناکوئی بہادری نہیں رہی۔یہ شاید اس وقت سب سے آسان تنقید ہے۔عام آ دمی کو اس سماجی تبدیلی کا ادراک نہیں۔وہ آج بھی یہ گمان کرتا ہے کہ جو حکومت کے خلاف لکھتا یا بولتا ہے،وہ مولانا محمد علی جوہر کی طرح بطلِ حریت، بے غرض اور نیک آ دمی ہے۔اس کے لیے شاید یہ بات اچنبھے کی ہو کہ جو حکومت کے خلاف سب سے سخت زبان استعمال کرتا ہے،اس کی وزرااور حکمران طبقے کے لوگوں سے گہری دوستیاں ہیں اور اُن کی شامیں ایک ساتھ گزر تی ہیں۔یہ بات بالفعل مان لی گئی ہے کہ جمہوری معاشرے میں اختلاف کے باوجود سماجی تعلق رکھا جا سکتا ہے۔
حکومت کے پاس البتہ ایک ہتھیار آج بھی ہے اور وہ ترغیبات،عہدوں یا مادی فوائد کا ہے۔وہ کسی کو نقصان تو نہیں پہنچا سکتی لیکن فائدہ ضرور دے سکتی اور دیتی بھی ہے۔ اس کے ساتھ آج ایسے گروہ اور طبقات مو جودہیں جو سیاسی حکومت سے کہیں زیادہ طاقت ور اور وسائل رکھنے والے ہیں۔آج بھی ان پر تنقید کی بہت قیمت دینا پرتی ہے۔یہ جان کی صورت میں ہوسکتی ہے اور ہجرت کی شکل میں بھی۔ سیاسی حکومت پر تنقید کے معاملے میں کوئی ایسا خطرہ مو جود نہیں۔یہ طبقات حکومت سے زیادہ مادی فوائد بھی پہنچا سکتے ہیں۔
ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ لکھنے والے کے دیانت دار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی ایک طبقے کے ساتھ مکمل وابستگی رکھتا ہو۔ یا اِدھر یا اُدھر۔اگر کوئی آ دمی اس پیمانے پر پورا نہ اترے تو پھر اس کی رائے مشکوک ہے اور دیانت بھی۔ لکھنے و الے تک جب یہ آرا پہنچتی ہیں تو وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ پڑھنے و الوں کی نظر میں معتبر ٹھہرے اوران کے سامنے سر خرو ہو۔ یوں اس کی رائے خارجی عوامل سے متاثر ہوتی ہے۔
حاصل یہ ہے کہ لکھنے والا قاری کی رائے پر کم ہی اثر انداز ہوتا ہے۔ میرے نزدیک کالم نگار ایک مسلکی خطیب کی طرح ہے۔ ہر مسلک کے لوگوں کو اس کی تقریروں سے نئے دلائل مل جاتے ہیں جو انہیں اپنے تصورات پرمزید پختہ کر دیتے ہیں۔آپ بطور قاری خود کو کس طبقے میں شمار کرتے ہیں؟
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)