قتل کرو ہو یا کرامات؟
از، سہیل وڑائچ
سلطنت ِ عظمیٰ برطانیہ کے ملک الشعراء ولیم ورڈز ورتھ نے اپنی مشہور نظم “To The Cuckoo” میں اپنے پسندیدہ پرندے کوئل کی سُریلی آواز کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں بچپن سے اس پر اسرار آواز کو سنتا آرہا ہوں لیکن آج تک آواز کے ماخذ کو ڈھونڈ نہیں پایا۔ سمجھ ہی نہیں آتا کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے اور کس کی ہے؟
ورڈز ورتھ کوئل کی آواز سن سکتا تھا، اس کی موجودگی محسوس کرسکتا تھا مگر اسے دیکھ نہیں پاتا تھا۔ بالکل اسی صورتحال کا سامنا تضادستان میں بھی ہے۔ ہر معاملے میں کوئل کی طرح بڑے بھائی جان (The Big Brother) پس پردہ مصروف ِ عمل نظر آتے ہیں مگر کھلی آنکھوں سے انہیں دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ فیض آباد دھرنا کیسے بیٹھا اور کیسے اٹھا؟ یہ ایسا گورکھ دھندا ہے جسے سمجھنا ممکن نہیں اس گورکھ دھندے کوحل کرناکوئل کو ڈھونڈنے جیسا ہے…..
ہندی اساطیر مہاراج کرشن کو جہاں روحانی طور پر بہت اعلیٰ مقام دیتے ہیں، ساتھ ہی انہیں پیار سے ’’ماکھن چور‘‘ بھی کہتے ہیں۔ کرشن نٹ کھٹ ہے، شرارتیں کرتا ہے، مکھن چرا کر کھاتا ہے۔ ماکھن چور کی ان معصوم شرارتوں کی وجہ سے اس کی چوریوں کوبھی سب ہنس کر برداشت کرتے ہیں۔ متھالوجی سے حقیقت کی دنیامیں آئیں تو کوئل ہو یا مہاراج کرشن، بڑے بھائی جان ہوں یاکوئی اورگورکھ دھندہ….. ان کو سمجھنا مشکل ہے، دیکھنا مشکل ہے اور پکڑنا تو بہت ہی مشکل ہے اور اگر لوگ دھرنے کے دوران ا ن کی چوری پکڑ بھی لیں توبڑے بھائی جان کومسکراکر چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ قتل کر رہے ہیں یا کرامات؟
دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو یا کرامات کرو ہو
میرے بڑے بھائی جان بھی ایسا ہی گورکھ دھندا ہیں۔ ہم ان کے بدلتے پینترے اور تیور سمجھنے میں اکثر ناکام رہتے ہیں۔ یہ ضروری بھی نہیں سمجھتے کہ اپنے چھوٹے بھائیوں کو، نیلے پیلوں کو، عوام کو کچھ بتا دیں کہ وہ اصل میں چاہتے کیا ہیں؟ ہم چریا ہیں ، ہم ان کے ہر حکم کو تسلیم کرلیتے ہیں۔ ان کی جنبش ِ ابرو کے منتظررہتے ہیں۔ وہ جسے غدار کہہ دیتے ہیں ،ہم اس کو غدار مان لیتے ہیں۔ وہ جسے کافرکہہ دیں ہم بھی اس کی طرف انگلیاں اٹھانے میں دیر نہیں کرتے۔
دھرنا کیا تھا، کس نے بٹھایا؟ یہ بڑے بھائی جان کی ہی ذہانت اور فراست تھی کہ ہمیں پتا چلا کہ پارلیمنٹ کے اراکین نے عقیدۂ ختم نبوتؐ کے حوالے سے 7بی اور 7سی میں فاش غلطیاں کرلی ہیں۔ چھوٹے بھائی لاکھ کہتے رہے کہ بڑے بھائی جان نے دھرنا لگوایا بھی خود ہے، اس کے خلاف کوئی اقدام نہ خود کیا نہ کرنے دیا ہے۔ حکومت مفلوج نظرآتی رہی۔ وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے اور راجہ ظفر الحق کمیٹی رپورٹ کو شائع کرنے کی شرائط پر معاہدہ بھی خود کرایا۔ بڑے بھائی جان گورکھ دھندا ہیں۔ 40 سال سے بڑے بھائی جان پیپلزپارٹی کے حصے بخرے کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ اسے کرپٹ، نااہل اورغدار قرار دیتے رہے۔
40 سال کی مداخلتوں کے بعد جب پنجاب میں پیپلزپارٹی کا آنگن سُونا ہو گیا تو اب بڑے بھائی جان کو افسوس ہے کہ ایک فیڈرل سیاسی جماعت کو نقصان پہنچایا گیا۔ بڑے بھائی جان کا عالمی ویژن بھی بدلتا رہتا ہے۔ پہلے سالہا سال تک یہ کہتے رہے کہ افغانستان ہماری تزویراتی (اسٹریٹجک) گہرائی ہے۔ اس تاثر سے نقصان ہوا تو اب بڑے بھائی جان برابری کی بنیاد پر تعلقات چاہتے ہیں۔ بڑے بھائی جان کے تضادات بھی ’’بڑے‘‘ ہیں۔ ہماری سیدھی سادی دوشیزہ بھولی بی بی ان پرعاشق ہے کہ وہ دہشت گردوں سے بہادری کے ساتھ لڑتے ہیں، قربانیاں دیتے ہیں اور ریاست کی حفاظت کرتے ہیں۔
عوام کی ترجمان دوشیزہ بھولی بی بی کبھی کبھی تحفظات اور اعتراضات کرتی ہے تو بڑے بھائی جان اکثر اسے بہلا پھسلا لیتے ہیں۔ اگر وہ پھر بھی نہ مانے تو بڑے بھائی جان کی ایک قہرآلود نگاہ ہی کافی ہے۔ بڑے بھائی جان بھولی بی بی پر مکمل دسترس رکھتے ہیں۔ منہ پھٹ دوشیزہ بھولی نے اپنی طاقت ، حسن و جوانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دھرنے کےخاتمے پر کہہ ہی دیا ’’بادشاہ ننگا ہے‘‘ بڑے بھائی جان اس پر بہت ناراض ہوئے اور بھولی بی بی کو پیار کرتے ہوئے کہا یہ سب اس کی بھلائی کے لیے ہے۔
قوم کوبحران سے نکالنے کے لیے ’’بادشاہ ننگا ہو گیا‘‘ مگر قوم کو تو بحران سے نکال لیا۔ اسلام آباد کے عدالت خان نے جو کہا وہ تاریخ کا ریکارڈ تو بن گیا مگر بڑے بھائی جان پر اس کا اثر نہیں ہوگا کیونکہ وہ تمام کام قومی حمیت اور ملی جوش و جذبہ کے تحت کرتے ہیں۔
بھولی بی بی منکوحہ تو منتخب حکومت کی ہے مگر کئی سال سے بڑے بھائی جان کی منظورِ نظر بن چکی ہے۔ اب بھی وقت ہو تو بڑے بھائی جان اس سے پیار کے دوچار بول کہہ لیتے ہیں۔ بھولی بی بی کو بولنے اور بڑبڑ کرنے کی بری عادت پڑ چکی ہے۔ دھرنے کے خاتمے پر تو اس کی قینچی جیسی زبان میں اور کاٹ آگئی۔ کہنے لگی کہ ’’دھرنا اٹھانا اچھا کام تھا مگر معاہدہ بری مثال ہے جس کے اثرات ہم آنے والے دنوں میں بھگتیں گے۔‘‘ بڑے بھائی جان کو اس پر غصہ آگیا اوروہ بھولی بی بی کو جھڑک کر بولے ’’تمہیں پتا کیا ہے سوائے بولنے کے۔ تمہیں آتا کیا ہے۔‘‘ بھولی کوبھی غصہ آیا اور وہ بھڑک کر بولی ’’مجھے آپ سے پیار ہے مگر مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ آپ طالبان کے حامی بھی رہے، پھر انہیں مارتے بھی رہے۔
شاہد عباسی آپ کی مرضی سے وزیراعظم بنے۔ اب آپ اس کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں۔ آپ ایک گورکھ دھندا ہیں۔ زرداری دور میں خود امریکہ سے مذاکرات کرنا چاہتے تھے۔ اب کہتے ہو کہ نہیں منتخب حکومت کے ساتھ ایک صفحے پرہو کر اکٹھے مذاکرات کیے جائیں۔ پہلے شہباز شریف کو اٹھایا، اسے وزیراعظم بنانے کا خواب دکھایا، اب اسے بھی فارغ کرناچاہتے ہو۔ آپ کیوں ایسے ہو؟ یہ تضادات کیوں؟‘‘ بڑے بھائی جان نے غصے سے بھولی بی بی کو دیکھ کر کہا ’’تمہیں قومی مفادات کا کیا علم؟ تم توبالکل بھولی ہو۔ ‘‘بھولی بی بی کہاں چپ رہنے والی تھی، بولی ’’میں تو حیران ہوں کہ تم عوام ہی کی منتخب کردہ حکومت کے خلاف چلتے ہو اور اس کے باوجود عوام تم سے مطمئن رہتے ہیں۔ تمہارے پاس ایسا کون سا نسخہ ٔ کیمیا ہے؟‘‘
بڑے بھائی جان کے چہرے پرمسکراہٹ آئی اور کہا ’’ہم جانیں دیتے ہیں جبکہ عوام کے نمائندے صرف باتیں کرتے ہیں۔ ہم ہٹ جاتے تو دھرنا ختم کرنا مشکل ہو جاتا۔‘‘ بھولی بی بی نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’مجھے علم ہےکہ دھرنا اٹھانے میں اتنی جلدی کیوںکی گئی؟ ‘‘ بڑے بھائی جان نے حیران ہو کر بھولی بی بی کو دیکھا تو وہ کہنے لگی ’’چونکہ حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے تھے، چند دنوں میں امریکی وفد اہم مذاکرات کے لیے آنے والا تھا اس سے پہلے دھرنے ختم کرنا ضروری تھے وگرنہ دنیا کہتی کہ آپ 2000 لوگوں کو تو اٹھا نہیں سکتے دہشت گردی سے کیسے لڑیں گے؟‘‘
بڑے بھائی جان نے بے یقینی سے بھولی بی بی کی طرف دیکھا اور کہا ’’اپنےسے بڑی باتیں نہ کیا کرو۔ ملک محفوظ ہاتھوںمیں ہے۔ اب جلد انتخابات ہی قوم کی منزل ہیں۔ اس کے بعد ایک صاف شفاف حکومت قائم ہوگی اور ملک کا مقدر بدلے گی۔‘‘ بھولی بی بی کہنے لگی ’’علامہ خادم حسین رضوی جیت کے جھنڈے لہراتےہوئے واپس لاہور آئے ہیں۔ کیا ن لیگ کا مستقبل تاریک ہو گیا؟‘‘ بڑے بھائی جان نے تفکر آمیز لہجے میں کہا ’’ہم نہیں چاہتے کہ کوئی بھی وفاقی جماعت ختم ہو اور ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ ایک جماعت اندھی اکثریت لے کرآئین اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کرے۔‘‘ بڑے بھائی جان نے توقف کیا تو بھولی بی بی زورزور سےقہقہے لگانے لگی اور کہا ’’اچھا اچھا ’’معلق پارلیمان‘‘……