دشتِ تمنا، گردشِ ایام اور قائد اعظم یونیورسٹی کے پچاس سال
راجہ قیصر احمد
ملال و وصال کی تکرار سے کئی ہزار میل دور بالکونی میں بیٹھا میں اداسی کو اپنے رگ و پے میں اترتا محسوس کر رہا ہوں۔ ایک اجنبیت اور نامانوسیت کا سامنا ہے۔ ایک درد کا آسیب ہے کہ روح کے شگاف میں نقب لگائے بیٹھا ہے۔ وقت ایک عفریت کی طرح روح اور خیال کی رسائی سے دور بگٹٹ بھاگے جا رہا ہے۔ مڑ کر نہیں دیکھتا۔ دیکھ بھی نہیں سکتا۔ منشا یاد کا افسانہ تیرہواں کھمبا رہ رہ کر یاد آتا ہے۔ شاید اردو ادب کی تاریخ میں اتنا شاہکار افسانہ پہلے نہیں لکھا گیا۔
منشا یاد بھی غریقِ خاک ہو گئے۔ میں آج کل محمد الیاس کی تحریروں کے قرب میں زندہ ہوں۔ کہر، برف، بارش اور دھوپ۔ جمود اتنا ہے کہ روح کی دیواروں پہ کائی اتر آئی ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ اس قحط الرجال میں بھی احمد جاوید صاحب جیسے لوگ زندہ ہیں
عجب سفر تھا عجب تر مسافرت میری
زمیں شروع ہوئی اور میں تمام ہوا
قائداعظم یونیورسٹی اپنے پچاس سال مکمل کر چکی ہے۔۔ یچاس سال ! وکٹر ہوگو نے کہا تھا چالیس سال جوانی کا بڑھاپا ہے اور پچاس سال بڑھاپے کی جوانی۔ یہ یونیورسٹی نہیں ہے ایک حصار ہے جو ہماری روحوں کے گرد کھنچ دیا گیا ہے۔ ہم چاہ کر بھی اس سے نہیں نکل سکتے۔ شاید ہماری ذات کی دیواروں پہ قائدِ اعظم یونیورسٹی کے اشلوک لکھ دِیے گئے ہیں۔ بحثیتِ طالب علم اور پھر ایک فیکلٹی ممبر میری اس یونیورسٹی سے وابستگی کو سات سال ہو چکے ہیں۔
یقین مانیے زندگی باب القائد سے شروع ہوتی ہے۔ مارگلہ کے دامن میں بچھے زمین کے اس سترہ دو ایکڑ کے ٹکڑے میں وقت تھم سا گیا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ اس عدم برداشت اور فکریاتی خلجان کےپھلتے پھولتے موسم میں قائداعظم یونیورسٹی جیسی ایک مختلف دنیا بھی موجود ہے۔ گو اس کی زمین کا ایک بڑا حصہ ایک بڑے با اثر ساست دان کے قبضے میں ہے اور تمام حکومتی ادارے خاموش ہیں۔
جون ایلیا نے بجا کہا تھا کہ ساست دانوں کا طبقہ قابلِ نفرت طبقہ ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ انہیں سروں کے بل جوہڑ میں دھکیل دیا جائے۔ یہ زندگی جو یہاں بستی ہے اس کی کئی جہتیں ہیں۔ یہ ایک انتہائی منفرد دنیا ہے جس کے بام و در میں برداشت، رواداری اور تنوع رچ بس چکے ہیں۔ میں انگلینڈ آنے سے کچھ دن پہلے پی ٹی وی نیوز پر جامعات میں بڑھتے ہوئے تشدد کے رجحان پر بولنے لے لیے مدعو تھا۔ اس میں قائداعظم یونیورسٹی میں ماضیِ قریب میں ہونے والے لڑائی سے متعلق بھی سوال آیا جو شاید پڑھنے والوں کے ذہن میں بھی ہو۔ میرا جواب تھا “Even Homer sometimes nods” .
کیمپس لائف کے اوپر “Malcom Bradubury “کے ناول “The History Man“سے اچھی کوئی تصنیف نہیں ہے. کیمپس لائف ساٹھ کی دہائی میں اتنا بڑا ادبی رجحان رہا کہ لاس اینجلس ٹائمز میں ایک قاری نے طنزاُ لکھا کہ اگر یونیورسٹی لائف پہ لکھے گئے ناول قابلِ ٹیکس ہوتے تو شاید بہت جلد ہم ایک اور جنگ لڑنے کے قابل ہوتے۔ انتہائی خوبصورت لب ولہجے کے شاعر گلزار یاد آئے:
وہ عمر کم کر رہا تھا میری
میں سال اپنے بڑھا رہا تھا
بے حد مصروفیت میں ایک خبر انتہائی طمانیت کا باعث تھی کہ قائد اعظم یونیورسٹی ٹائمز رینکنگ میں پہلی پانچ سو جامعات میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ معاشی انحطاط اور گوناگوں مسائل سے نبرد آزما جامعہ کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور اس کامیابی کی معمار بجا طور پر یونیورسٹی کی فیکلٹی ہے جو انتہائی نا مساعد حالات میں بھی تحقیق اور تدریس احسن انداز میں انجام دے رہی ہے۔ انگلینڈ میں قیام کے دوران پروفیسر نیول وائلی سے ملاقات ہوئی۔
نیول انٹرنیشنل ہسٹری کے پروفسر اور ناٹنگھم یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ہیں اور 2014 میں پاکستان میں کئی جامعات کا دورہ کر چکے ہیں اور ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کی دعوت پر سکول آف پالٹکس اور انٹرنیشل ریلیشنز میں بھی سیمینار سے خطاب کر چکے ہیں۔ نیول نے کہا کہ وہ کئی پاکستانی یونیورسٹیز میں گئے مگر قائداعظم یونیورسٹی کا رنگ طلبہ کی گفتگو اور رجحان انتہائی متاثر کن تھا۔ نیول ڈاکٹر جسپال کی دفاعی امور پر گرفت سے بھی خاصے متاثر ہیں اور بجا طور پر اس کا اظہار کرتے بھی نظر آئے۔
نیول شاید یہ نہیں جانتے کہ یہ ایک روایت ہے اور نصف صدی سے قائم ہے۔ پرویز ہود بھائی تیس سال قائد اعظم یونیورسٹی میں رہے اور لمز انہیں ایک سال بھی نہ برداشت کر سکی۔ یہ دوسری جامعات اور قائد اعظم یونیورسٹی میں فرق ہے۔ ڈاکٹر عبدالحمید نیر، ڈاکٹر دشکا سید، ڈاکٹر محمد وسیم، ڈاکٹر رسول بخش رئیس، ڈاکٹر رخسانہ صدیقی، ڈاکٹر طاہر امین، ڈاکٹر طارق رحمان، ڈاکٹر پرویز اقبال چیمہ، ڈاکٹر سکندر حیات، ڈاکٹر رفیق افضل اور نہ جانے کتنے نابغہِ روزگار لوگ۔ مختلف نقطہ نظر اور مختلف نظریاتی وابستگیاں مگر پھر بھی سفر تھا کہ جاری و ساری رہا۔ افتخار عارف نے بھی کیا خوب کہا تھا
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
یہ بہار کے گلاب کی طرح کے در و دیوار۔ یہ تا حدِ نظر کشادگی ، آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والا مارگلہ کا سبزہ اور یہ سکوت۔ زندگی کی رو۔ زندگی بلند ہے۔ زندگی مقدس ہے۔ زندگی پاکیزہ ہے۔ اندھیرا زور سے گرجتا ہے. اردو ادب سے اب میرا تعلق رسمی اور واجبی سا رہ گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ادب نے مجھے اداس اور میرے روح کو بوڑھا کر دیا ہے۔ میں جن لوگوں کو پڑھتے پڑھتے بڑا ہوا ہوں اب انہیں پڑھنا چاہتا ہوں۔ میں بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں مگر بے معنویت کا آسیب میری ذات سے چمٹ گیا ہے۔
میں وقاص سلیم سے کئے گئے وعدے کو بروقت پورا نہ کر سکا۔ پچاس سالہ تقریبات کے ضمن میں نوجوان پروفیسرز وقاص سلیم اور سلمان علی بھٹانی کی کوششیں لائقِ تحسین ہیں۔ گزشتہ ایک مہینے میں نے ہر روز اس تحریر کو لکھنے کا ارادہ کیا مگر مظہرالاسلام کے افسانے، جون ایلیا کی شاعری اور ناصر کاظمی کی تیرگی میرے جسم اور روح سے لپٹ گئی۔
نوردانِ شہرِ تمنا کو کیا خبر
ہم ساکنانِ کوئے ملامت کے رات دن
ایک بات بہرحال طے ہے کہ قائداعظم یونیورسٹی میں ادب اور فنونِ لطیفہ کی کوئی سنجیدہ روایت نہ پنپ سکی۔ قائداعظم یونیورسٹی اُس ثریا کی خاک کو بھی چھونے سے قاصر رہی جس اوجِ کمال پہ گورنمنٹ کالج لاہور گیا۔ کوئی ٖفیض یا پطرس نہ بن سکا۔ نہ کوئی غامدی نہ خشونت سنگھ۔ کوئی ن م راشد بھی نہیں اور کوئی مرزا اطہر بیگ بھی نہیں۔ کوئی طارق فارانی نہیں جس کے قدموں میں بڑے بڑے موسیقار بیٹھتے ہیں اور نہ کوئی بخاری آڈیٹوریم جیسی روایت۔
شاید گورنمنٹ کالج کو بنے ڈیڑھ سو سال اور قائدِ اعظم کو محض پچاس سال۔ کوئی ٹاور بھی تو نہیں۔ اگر کچھ ہے تو وہ مارگلہ کی کشادگی جو دلوں اور دماغوں میں بھی بس گئی ہے اور تنگ نطری کو مات دے گئی ہے اور ہٹس جو ہیبرماس کی زبان میں ایک ‘public sphere’ ہے۔
زاہد امروز انتہائی غیر راویتی اور شاندار شاعر تھا مگر وہ بھی انگلینڈ جا چکا ہے۔ بہرحال پھر بھی اس درسگاہ کا ادبی بانجھ پن کھائے جاتا ہے۔سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر بننے والی دیوار نے گو اس کا حسن گہنا دیا ہے اور یہ بات انتہائی اداس کر دینے والی ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ بد امنی کے دور میں بنائی جانے والی دیواریں کیا امن کے دور میں گرائی بھی جائیں گیں؟
یادوں کا ایک سیل رواں ہے جو رکنے میں نہیں آتا۔ روحوں پہ لکھے اشلوک سے بھلا فرار کہاں ممکن ہے۔ میلان کندیرا نے لکھا تھا کہ یونانی میں واپسی کو ‘nostos’ کہتے ہیں اور ‘algos’ کا مطلب ہے دکھ۔ اسی لیے ناسٹیلجیا وقت کی واپسی کی خواہشِ لاحاصل میں حاصل کردہ دکھ کا نام ہے۔
مجھے جو اسلام آباد سے محبت ہے
وہ بھولی بسری اک یاد سے محبت ہے
وہاں مطلق سکوت ہے۔ ساری کائنات اس کے جھکڑ کے ساتھ دھیرے دھیرے متوازن سانس لیتی ہے ۔ پتے سرسراتے ہیں۔ میں جو زندہ ہوں اور میں جو مر چکا۔ آواز کی بازگشت پکارتی ہے۔ مجھے اسی دائرے میں گھومنا ہے۔ آواز کی بازگشت چیختی ہے۔ پوس کی ہوائیں فضا میں منڈلاتی ہیں اور چاند مدہم ہو کر رفتہ رفتہ بادلوں میں اوجھل ہو جاتا ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.