قائد اعظم کا سگار اور بڑے قاضی صاحب کی شیروانی
از، یاسر چٹھہ
زیرِ نظر تصویر میں قائد اعظم محمد علی جناح پرانے پاکستان والے کے ساتھ بیٹھے شخص نیا پاکستان میں سپریم کورٹ کے جج، جناب جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے والد قاضی عیسٰی ہیں۔
اتہاس کی گواہی کے ساتھ ساتھ یہ تصویر بھی چڑ چڑا کر گواہی دے دے رہی ہے قائد اعظم نے بڑے قاضی صاحب سے کہا، بے شک آپ 1906 والی لیگ کے لیے جتنا مرضی کام کر لیں، روپیہ دھیلا لگا دیں، سونا چاندی خرچ دیں ایک وقت آئے گا جب نیا پاکستان کا show boy خلیفہ بنے گا…۔
قائد بولتے گئے، “اس وقت اس show boy کی خلافت ہر چند کہ اسی طرح کی ہی ہو گی جس طرح کسی بھلے مانس آخری مغل شاعر کی کسی مشرقی ہندوستان کمپنی East India Company کے دور میں بادشاہت تھی: وہ اگر غزل کہنے میں آزاد تھے، تو یہ خلیفہ 2.0 صرف گالم گلوچ میں قادر الکلام ہیں۔”
اس کہنے اور بڑے قاضی صاحب کے سننے کے بعد وہ لمحہ آیا جب قائد کے اس لمحے کو اس تصویر نے اپنی یاد داشت میں سمیٹ لیا۔ اس تصویر میں قائدِ اعظمِ اصلی پاکستان کے ہاتھ میں سِگار ہے۔ آپ کمال دور اندیشی سے نیا پاکستان نام کی بدعتِ باجوہ و شجاع کو نیم وا آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔
بہ ظاہر لگتا تھا کہ خلا میں دیکھ رہے ہیں، لیکن اس وقت کوئی نا جان پایا تھا کہ وہ خلا در اصل خلا نہیں تھی، بَل کہ پتھریلے علاقوں سے ہیولے کی شکل میں بر آمد کی گئی ایک خلائی حقیقت تھی۔ وہ خلا آج کا نیا پاکستان تھا، وہ خلا نیا پاکستان میں بَٹتی دال تھی۔ مت پوچھیے، ایسے مواقع پر دال کس میں بَٹا کرتی ہے۔
کچھ شارحینِ ماضی قائد کے اس سگار کو بھی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ آنکھیں مَلتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں۔ اب کچھ کہنے کو لَب کھولتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ قائد کا یہ سگار اور بڑے قاضی صاحب کی کسی تیز آنکھ اور نفیس ہاتھ کی سِلی شیروانی سے دو بالشت سے بھی کم فاصلے پر آن رکی ہے، یہ در اصل سے بھی اصل وہ ریفرنس تھا جس کا آج کل غوغا زیادہ ہے اور اس میں مواد و کیمیت prima facie اتنا ہی جتنا خلیفہ 2.0 کی کسی کنٹینر پر اور پی ٹی وی کی تقریر میں ہوتا ہے۔
مزاح کا فکری فریم ورک
زبان کے مختلف استعمالات و معنی آفرینی میں incongruity یعنی موافقت گریزی کا لطف لینے کی توفیق سے تہی، مزید پڑھیں، اچھی صحبت اختیار کریں۔
کچھ اسی طرح میلان کنڈیرا کے ناول The Unbearable Lightness of Being کے صفحہ 62 پر پینٹنگز اور آرٹ کے متعلق بات ہو رہی ہوتی ہے:
“On the surface, an intelligible lie; underneath, the unintelligible truth.”
اَز راہِ مزید تفنن
موجودہ حکومت نام کا پنجر تو ہے ہی مذاق، تو اس کو کیا سنجیدگی سے اڑایا جائے؟
نہیں یہ تجویز ایک اور مذاق کہلا سکتا ہے۔ مذاق کو مذاق کی طرح ہی اڑانا بھلا… اونچا اڑے گا۔
35 پنکچروں،
4 حلقوں،
200 ارب ڈالروں،
آئی ایم ایف سے وابستہ حیات افروز خود کشیوں،
جاپان کو جرمنی کی ہمسائیگی میں دینے،
اور اب بالکل بیکری سے نکلا تازہ چٹکلہ گولان کی پہاڑیاں اسرائیل سے چھین چھان کر شام سے کرایہ پر لے کر فلسطین کے حوالے کرنے وغیرہ،
ایک کروڑ نوکریوں کی انصافی پریڈوں کو کیا کوئی اعوذ باللہ، بسم اللہ، اور الحمد پڑھ کر celebrate کرے؟
ناں بھائی صاحب، ناں