قومیں ناکام کیوں ہوتی ہیں
محمد بلال غوری
دوسری جنگ عظیم سے قبل کوریا جاپان کی کالونی تھا مگر جب جاپان کو بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تو کوریا نے آزادی حاصل کرلی۔ کوریائی باشندے آزادی کو بٹوارے کے نام سے یاد کرتے ہیں کیونکہ کوریا دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان 38 متوازی نام کی سرحدی لکیر کھینچ دی گئی۔
اس بٹوارے کے دوران ہزاروں خاندان بچھڑ گئے۔ 2000ء میں دونوں حکومتوں نے پہلی بار اس بات پر اتفاق کیا کہ تقسیم کے وقت ایک دوسرے سے بچھڑ جانے والے خاندانوں کی ملاقات کا بندوبست کیا جائے۔ اس ملاپ پر یوں تو چارسو جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے اور ہر شخص کے پاس کوئی درد ناک کہانی تھی مگر جنوبی کوریا کے ایک ڈاکٹر ہوانگ پیانگ ون کا قصہ بہت مشہور ہوا۔
اس کا بھائی بٹوارے کے وقت جدا ہو گیا تھا اور اب جب ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ شمالی کوریا کی فضائیہ میں پائلٹ ہے۔ دونوں بھائی اپنے اپنے ملکوں میں اہم عہدوں پر تھے مگر ان کے حالات زندگی وضع قطع اور خدوخال سے ہی عیاں تھے۔
ڈاکٹر ہوانگ یانگ کے پاس گاڑی تھی مگر اس کے بھائی کے پاس کوئی ذاتی سواری نہیں تھی۔ اس نے اپنے پائلٹ بھائی سے پوچھا، کیا تمہارے پاس موبائل فون ہے؟ اس نے کہا میرے پاس تو لینڈ لائن بھی نہیں البتہ میری بیٹی جو وزارت خارجہ میں کام کرتی ہے اسے سرکاری ٹیلی فون کی سہولت میسر ہے لیکن وہاں سے بھی کوڈ ملائے بغیر کال نہیں کی جا سکتی۔
ڈاکٹر ہوانگ یانگ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ اس نے اپنی جیب سے کچھ رقم نکالی اور اپنے بھائی کو دینا چاہی تاکہ وہ اپنے لیے کچھ آسانیاں خرید سکے۔ مگر اس کے بھائی نے یہ کہتے ہوئے رقم لینے سے انکار کر دیا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں جب واپس جاوں گا تو تلاشی لی جائے گی ، پوچھا جائے گا کہ یہ رقم کہاں سے آئی اور پھر سرکاری خزانے میں جمع کروا دی جائے گی کیونکہ شمالی کوریا کے شہریوں کو کسی شے کے مالکانہ حقوق حاصل نہیں، ہر چیز ریاست کی ملکیت ہے۔
ڈاکٹر ہوانگ یانگ کی نظر اپنے بھائی کے پھٹے ہوئے کوٹ پر پڑی تو انہوں نے اپنا خوبصورت کوٹ اتار کر بھائی کو دینا چاہا مگر اس نے وہ کوٹ بھی لینے سے انکار کر دیا۔ اس نے بتایا کہ یہ پھٹا ہوا کوٹ بھی اس کی ملکیت نہیں بلکہ حکومت نے ادھار دیا ہے اس ملاقات کے لیے۔ اگر میں نیا کوٹ پہن کر چلا جاوں تو بھی اسے گھر نہیں لے جا سکتا۔ اسے بھی سرکاری مال خانے میں جمع کروانا پڑے گا۔
بعض ملک پسماندہ اور بعض ملک خوشحال کیوں ہوتے ہیں؟ غربت اور خوشحالی پر اثر انداز ہونے والے عوامل کون سے ہیں؟ ہر دور میں معاشی اور سماجی ماہرین نے ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ مثال کے طور پر 18ویں صدی کے فرانسیسی مفکر Montesquieu نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ترقی و خوشحالی کا تعلق جغرافیہ اور آب و ہوا سے ہے۔ گرم مرطوب ممالک کے باشندے مزاج کے اعتبار سے سست، کاہل اور تحقیق و تجسس سے عاری ہوتے ہیں، ایجادات کی طرف مائل نہیں ہوتے، اس لیے ترقی و خوشحالی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
لیکن سنگاپور ، ملائیشیا اور بوستانوے نے اس نظریے کو اٹھا کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا۔ بعد ازاں ماہر معاشیات Jeffry Sachs نے اس نظریے میں کچھ رد و بدل کیا اور بتایا کہ جغرافیہ اور آب و ہوا کا مزاج پر تو کوئی اثر نہیں ہوتا البتہ اس کے نتیجے میں جو موسمی حالات جنم لیتے ہیں ،وہ قوموں کی ترقی و خوشحالی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملیریا اور طاعون جیسے وبائی امراض کا تعلق موسمیاتی تبدیلیوں سے ہے۔ زمین کاشتکاری کے لیے موزوں نہیں رہتی اور یوں لوگ غربت کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔
مگر یہ تھیوری بھی بہت جگہوں پر غلط ثابت ہوئی۔ جرمن ماہر سماجیات میکس ویبر کہتا ہے کہ ترقی و خوشحالی کا تعلق معاشرے کی اقدار و روایات اور تہذیب و ثقافت سے ہے۔ افریقی ممالک اس لیے غریب ہیں کہ ان کی عادات و اطوار اور اعتقادات فرسودہ ہیں۔ وہ ابھی تک جادو ٹونے پر یقین رکھتے ہیں ، چڑیلوں، جنوں اور پریوں کے فسانوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ وہ ملک جو ان فضول چیزوں سے آگے نکل گئے، ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرتے چلے جا رہے ہیں۔
میکس ویبر کی یہ بات اس لیے غیر موزوں محسوس ہوتی ہے کہ کل تک چینیوں کے بارے میں اسی طرح کی باتیں ہوتی تھیں لیکن آج جب وہ معاشی طاقت بن گئے ہیں تو سب ان کی جفا کشی اور محنت کا حوالہ دیتے ہیں۔ جب کوئی معاشرہ ترقی کرتا ہے تو پھر حوالے بھی بدل جاتے ہیں۔ پنجابی کا مشہور مقولہ ہے ”جیدھے گھر دانے، اوہدے کملے وی سیانے۔‘‘ جب دولت آتی ہے تو پھر عادات و اطوار بھی بدل جاتے ہیں اور اعتقادات بھی پہلے جیسے نہیں رہتے۔
اگر ترقی و خوشحالی کا آب و ہوا ، جغرافیہ یا اقدار و روایات اور تہذیب و ثقافت سے کوئی تعلق ہوتا تو دیوار برلن کے انہدام سے قبل مغربی اور مشرقی جرمنی کے حالات میں تفاوت نہ ہوتی۔ امریکی ریاست ایری زونا اور میکسیکو کی سرحد پر واقع شہر نوگلز جو دو حصوں میں تقسیم ہے اس کے دونوں طرف آباد افراد کے حالات زندگی ایک جیسے ہوتے۔
اور اس ضمن میں سب سے بڑی مثال شمالی اور جنوبی کوریا کی ہے۔ دونوں ممالک کی آب و ہوا اور جغرافیائی حالات ہی نہیں ثقافتی و تہذیبی ورثہ بھی مشترک ہے اور عادات و اطوار میں بھی کوئی خاص فرق نہیں، مگر معاشی حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
جنوبی کوریا ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک ہے جس کا جی ڈی پی 1622 ارب ڈالر ہے، جبکہ شمالی کوریا انتہائی پسماندہ اور غریب ملک ہے جس کا جی ڈی پی محض 40 ارب ڈالر ہے۔جنوبی کوریا کی بر آمدات 522.6 ارب ڈالر سالانہ ہیں، جبکہ شمالی کوریا کی بر آمدات کا تخمینہ 4.71 ارب ڈالر ہے۔
شمالی کوریا کے مقابلے میں جنوبی کوریا کے باشندے خوشحال ہیں اور ان کا طرز زندگی پرتگال اور اسپین جیسا ہے اس لیے ان کی اوسط عمر 79.3 برس ہے، جبکہ شمالی کوریا کے شہریوں کے حالات زندگی افریقی ممالک سے بھی بدتر ہیں اس لیے ان کی اوسط عمر 69 برس ہے۔
شمالی کوریا کو محض دو حوالوں سے جنوبی کوریا پر برتری حاصل ہے۔ ایک تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق شمالی کوریا دنیا کا بدعنوان ترین ملک ہے اور دوسرے شمالی کوریا کے دفاعی اخراجات اپنی حیثیت سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
جنوبی کوریا نسبتا ً بڑا ملک ہے اس کی آبادی تقریباً پانچ کروڑ ہے اور اس کی مسلح افواج کی تعداد (بشمول ریزرو فورس) 655000 ہے اور یہ اپنے جی ڈی پی کا 2.8 فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے، جبکہ شمالی کوریا کی آبادی اڑھائی کروڑ ہے اس کی مسلح افواج کی تعداد 1190000 ہے اور یہ دفاع پر جی ڈی پی کا 22.3 فیصد خرچ کرتا ہے۔
اگر کوئی شخص یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ قوموں کی ترقی و خوشحالی کا راز کیا ہے اور قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں تو جنوبی اور شمالی کوریا کی صورت میں دو رول ماڈل موجود ہیں۔ ایک ملک آمریت کے راستے پر چلا، سکیورٹی سٹیٹ کا ماڈل اختیار کیا، قدامت پسندی اور ریاستی جبر کے بل پر آگے بڑھنا چاہا، ملکی دفاع کو اپنی طاقت بنایا اور آج ایک ناکام ریاست کے طور پر سامنے ہے۔
اس کے برعکس جنوبی کوریا نے جمہوریت کا راستہ منتخب کیا، فری اکانومی کو فروغ دیا، اظہار رائے کی آزادی اور افراد کے حق ملکیت کو تسلیم کیا، جمہوری اداروں کی مضبوطی کو اپنی طاقت بنایا اور آج ایک کامیاب رول ماڈل کے طور پر سامنے ہے۔
(لکھاری کا نوٹ: اس کالم کے لیے بعض اعداد و شمار اورحوالے Daron Acemoglue اور James A Robinson کی کتاب Why Nations Fail سے لیے گئے ہیں۔)
بشکریہ: dunya.com.pk