قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے چند واقعات
از، اسد محمود جنجوعہ
’’دنیا میں اگر آپ خود کو سپاہِ اسلام کے طور پر منوانا چاہتے ہو تو لوگوں کو معاشی، سماجی، تعلیمی اور سیاسی میدان میں یکجا کرو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس طرح تم وہ طاقت بنو گے کہ پوری دنیامیں تسلیم کی جائیگی‘‘یہ بیان کسی اورکا نہیں ہمارے بانی پاکستان اور امت مسلمہ کے عظیم لیڈر قائد اعظم محمد علی جناع کا ہے ۔ یہ اس عظیم لیڈر کا قول ہے جس کے بارے میں ہمارے شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا کہ ’’ نہ تو اسے خریدا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ خیانت کر سکتا ہے‘‘۔ ہم لوگوں کی حالت ایسی ہو چکی ہے کہ جن بزرگوں نے پاکستان کی تعمیر کی تھی ہم لوگوں نے ان کے نام تک تاریخ کی کتابوں سے مٹا دئیے ہیں۔ میں آج کچھ ایسے ہی واقعات کا ذکر کروں گا۔ قائداعظم محمد علی جناع کے بارے میں بچپن سے لے کر یونیورسٹی کی کتابوں تک صرف ایک ایک مضمون پڑھایا جاتا ہے اور یہ نہیں بتایا جاتا کہ قائداعظم ہمارے ملک کو کیسا پاکستان بنانا چاہتے تھے۔
پیر جماعت علی شاہ اپنے دور کے اولیاء اللہ میں شمار ہوتے تھے انہوں نے ایک دفعہ کہا کہ محمد علی جناع اللہ کا ولی ہے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ آپ اس شخص کی بات کر رہے ہیں جو دیکھنے میں گورا نظر آتا ہے اور اس نے داڑھی بھی نہیں رکھی تو امیر ملت پیر جماعت علی شاہ نے کہا ’’ کہ تم اس کو نہیں جانتے وہ ہمارا کام کر رہا ہے‘‘۔علامہ شبیر احمد عثمانی سے لوگوں نے کہا کہ آپ راتوں رات تبدیل کیسے ہو گئے آپ تو اس کی مخالفت کرتے تھے تو آپ نے فرما کہ ’’ رات کو میرے خواب میں حضور ﷺ کی زیارت نصیب ہوتی ہے اور آپ قائد اعظم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ میرا سپاہی ہے اس کی کبھی مخالفت نہ کرنا۔1920میں جب قائداعظم محمد علی جناع کی شادی ہوئی تو انہوں نے اپنے غسل خانہ کی تعمیر میں اس وقت کے پچاس ہزار روپے خرچ کئے۔ مگر یہی جب گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں تو قائداعظم ڈیڑھ روپے کا موزہ لینے سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ غریب مسلمان ملک کے گورنر کو اتنی مہنگی چیز نہیں پہننی چاہئیے۔ایک دفعہ برطانیہ کے سفیر نے آپ سے کہا کہ برطانیہ کے بادشاہ کا بھائی آ رہا ہے آپ انہیں ایئرپورٹ لینے جائیں ۔ قائد اعظم نے یہ شرط رکھی کہ میں تب ایئر پورٹ جاؤں اگر میرے بھائی کی برطانیہ آمد پر وہاں کا بادشاہ اسے لینے آئے۔
ایک دفعہ سرکاری استعمال کے لئے سینتیس (37)روپے کا فرنیچر لایا گیا۔ قائداعظم نے لسٹ دیکھی تو دیکھاسات روپے کی ایک کر سیاضافی آئی ہے، آپ نے پوچھا یہ کس لئے ہے توکہا گیا کہ آپ کی بہن فا طمہ جناع کے لئے۔ آپ نے وہ کاٹ کے فرمایا کہ اس کے پیسے فاطمہ جناح سے لو۔کابینہ کی جتنی میٹنگز ہوتیں تھیں قائد اعظم محمد علی جناع نے منع فرمایا تھا کہ کچھ بھی کھانے کے لئے نہ دیا جائے۔ 1933سے لے کر 1946تک قائداعظم محمد علی جناع نے ایک اندازے کے مطابق 17قرارداتیں پیش کیں جس میں فلسطین کے حق خوددرایت کی بات کی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان بھی وجود میں نہیں آیا تھا مگر اس کے باوجود ان کے دل میں امت مسلمہ کے لئے جذبہ کوٹ کوٹ کے بڑھاتھا۔اس وقت انگریزوں نے ایک قانون بنایاتھا کہ جس کے پاس بھی سائیکلیں ہیں اس کے آگے لائیٹ لگائی جائے۔ ایک دفعہ قائداعظم کچھ نوجوانوں سے بات کر رہے تھے۔ آپ نے پوچھا کہ کون کون پاکستان میں شامل ہو گا سب مسلمان بچوں نے ہاتھ کھڑے کئے پھر آپ نے پوچھا کہ کس کس بچے کی سائیکل پر لائیٹ موجو د ہے۔ صرف ایک بچے نے ہاتھ کھڑا کیا۔ آپ نے فرمایا کہ صرف یہ پاکستان میں جا ئے گا، نوجوانوں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا جو قانون پر عمل نہیں کرتا اسے ہمارے ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔
قائد اعظم جب بیمار تھے تو ایک خاتون ڈاکٹر ان کی خدمت میں مامور تھیں ا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ تم نے میری بہت خدمت کی ہے بتاؤ میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں تو اس نے کہا کہ میری ٹرانسفر میرے آبائی شہر میں کروا دیں تو آپ نے کہا کہ یہ میرا کام نہیں یہ وزارتِ صحت کا کام ہے۔ ایک دفعہ آپ گاڑی میں کہیں جا رہے تھے تو ایک جگہ ریلوے ٹریک بند ہو گا۔ آپ کا ڈرائیور اتر کے وہاں پر موجود شخص سے کہنے لگا کہ گورنر جنرل آئے ہیں ٹریک کھولو۔ مگر ہمارے عظیم لیڈراور بانی پاکستان نے فرمایا کہ نہیں اسے بند رہنے دو۔ میں ایسی مثال قائم نہیں کرنا چاہتا جو پروٹوکول پر مبنی ہو۔محمد علی جناع وہ لیڈر تھے جن کے بارے میں انگریزوں نے بھی کہا تھا کہ اگر ہمیں پتا ہوتا قائداعظم کو اتنی بڑی بیماری ہے تو ہم کبھی پاکستان نہ بننے دیتے۔مرنے سے پہلے آپ نے اپنے ڈاکٹر سے کہا ’’ کہ پاکستان ہرگز وجود میں نہ آتا اگر اس میں فیضان نبوی ﷺ شامل نہ ہوتا۔‘‘
اس کے علاوہ بھی کئی ایسے واقعات ہیں جن کو ہمارے لیڈروں نے ہماری کتابوں تک سے مٹا دئیے ہیں تا کہ لوگوں کو قائداعظم محمد علی جناع کی تاریخ کا پتا نہ چل سکے۔ٹیپو سلطان کے بعد محمد علی جناع ہی امت مسلمہ کے عظیم لیڈر ہیں۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو چاہئے کہ فوری طور پر عظیم قائد کے بارے میں نصاب میں واقعات شامل کریں تا کہ ہماری قوم عظیم لیڈر کے بارے میں جان سکے۔