قائد اعظم یونیورسٹی کے سراپا احتجاج طلباء اور عمران خان
انورعباس انور
قائد اعظم یونیورسٹی کے سراپا احتجاج طلباء نے مدد کے لیے عمران خان کے ضمیر پر دستک دیے ی قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طلباء گزشتہ کئی ہفتوں سے سراپا احتجاج ہیں ، اسی مہینے کی چوبیس تاریخ کو یونیورسٹی کے 75 طلباء کے خلاف سکریٹریٹ تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا ہے، اس ایف آئی آر میں جو دفعات لگائی گئی ہیں ان میں یونیورسٹی کی بسوں کو روکنے ، کار سرکار میں مداخلت اور کلاسز کا بائیکاٹ کروانا شامل ہیں، دو ہفتے بند رہنے کے بعد جب یونیورسٹی دوبارہ کھلی تو طلباء کا جوش ٹھنڈا ہونے کی بجائے پہلے سے زیادہ گرم ثابت ہوا ہے۔
احتجاج کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے، طلباء اسلام آباد کی شاہراہوں پر احتجاجی جلوس نکالتے ہیں جو انتہائی منظم اور پرامن رہتے ہوئے اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگاتے ہیں ’’we want justice we want justice‘‘ اور نعرہ طلباء جیئے طلباء ، نعرہ نعرہ نعرہ طلباء جیئے جیئے جیئے طلباء۔
ایشیا بلکہ دنیا بھر کی چند بہترین یونیورسٹیوں میں شمار ہونے والی قائد اعظم یونیورسٹی میں حالات گزشتہ مئی سے کشیدہ چلے آرہے، اس صورتحال کی ابتدا دو طلبہ گروہوں کے مابین تصادم سے ہوا، بلوچستان میں اعلٰی تعلیم کے مواقع دستیاب نہ ہونے کے باعث صوبے کے طول عرض سے یہاں اعلی تعلیم کے حصول کے لیے آنے والے طلباء اپنے چند ساتھیوں کو بلاوجہ یونیورسٹی سے بے دخل کیے جانے پر سراپا احتجاج ہیں۔
بلوچ طلباء کا موقف ہے کہ وہ کسی قسم کے تصادم میں ملوث نہیں ہیں بلکہ 20 مئی کو قائد اعظم یونیورسٹی میں پیش آنے والا واقعہ دانستہ انتظامیہ کی غفلت کا نتیجہ تھا بلوچ طلباء کو موقف ہے کہ 20 مئی کی صبح ایک طلباء کا ایک گروہ لڑائی کے منصوبے کے ساتھ یونیورسٹی کے ایڈمن بلاک کے قریب جمع ہوا تو اسی وقت صبح 11 بجے سے 12 کے درمیان طالب علم کامران بلوچ کی جانب سے Provost, Resident officer, وارڈن نعیم اور تھانہ سکریٹریٹ کے ایس ایچ او اطلاع دی گئی جس پر ان تمام حضرات کی جانب سے طالب علم کامران بلوچ کو یقین دہانی کروائی گئی کہ آپ کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے، ہم صورتحال کو سنبھال لیں گے ان حضرات نے کامران بلوچ کو ہدایات کہ کہ وہ بلوچ طلباء اکٹھا نہ ہونے دیں، تاکہ اشتعال پیدا نہ ہو ۔۔۔ مگر اس کے باوجود دن کے 2 اور 3 بجے کے درمیان ایڈمن بلاک کے قریب جمع ہونے والے گروہ نے پیدل مارچ کرتے ہوئے مجید ہٹس پر بیٹھے کھانا کھانے میں مصروف بلوچ طلباء پر حملہ کیا جس کی تفصیلات یونیورسٹی کی طرف سے درج کرائی گئی ایف آئی آر میں موجود ہیں۔
بلوچ طلباء کا موقف ہے کہ حملے کی نیت سے جمع ہونے کی اطلاع دینے کے وقت اور حملے کے درمیان کے دورانیہ میں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بلوچ طلباء کے تحفظ کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہ کیے گئے اور نہ ہی حملہ رکوانے کے لیے عملی اقدامات کیے گئے، حملہ کرنے والے گروہ نے ایک ہاسٹل کو بند کرکے اند ر موجود طلباء کو یرغمالی بنا لیا اور خود ٹیرس پر چڑھ گئے تو اس وقت تک بھی یونیورسٹی انتظامیہ نے ہاسٹل کا قبضہ چھڑانے اور یرغمالی طلباء کو آزاد کروانے کے لیے ایکشن لینے کی بجائے مسلسل خاموشی اختیار کیے رکھی تو مجبورا یرغمالی طلباء کو آزاد کروانے کے لیے بلوچ طلباء آگے بڑھے جس پر دوسرا تصادم ہوا۔
اس تصادم کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے جو ھکمت عملی اپنائی اگر وہ پہلے ہی اپنا لی جاتی تو صورتحال اس نہج تک نہ پہنچتی، اس ساری صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیاجائے تو اس میں واضح طور پر یونیورسٹی انتظامیہ کی غفلت لاپروائی دکھائی دیتی ہے اور بادی النظر میں یونیورسٹی انتظامیہ کے کچھ لوگ شائد اس تصادم کے خواہش مند اور متمنی تھی تاکہ انہیں ان کے مذموم مقاصد کے حصول میں آسانیاں اور مدد مل سکے۔
بلوچ سٹوڈنٹ کے بقول اس ساری صورتحال کے پیچھے یونیورسٹی انتظامیہ اور اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کی آپس کی دھڑے بندی اور اختلافات پوشیدہ ہے۔ گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں بلوچ طلباء نے واضح کیا وہ ہرگز یہ برداشت نہیں کریں گے کہ انتظامیہ ااپس کے اختلافات کی سزا ہم بلوچ طلباء کو قربانی کا بکرا بنا کر دیں اور دس دس کرکے بلوچ طلباء کو یونیورسٹی سے نکال کر ہمارے تعلیمی کیرئیر اور ہماری زندگیوں کو تباہ کرے،
جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ19 اکتوبر کو قائد اعظم یونیورسٹی انتظامیہ سے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد، اے سی اسلام آباد، ایس ایس پی پولیس اسلام آباد اے ایس پی اسلام آباد اور مجسٹریٹ اسلام آباد کی ثالثی جو مذاکرات ہوئے اور ان مین جو معاملات طے پائے تھے ان پر عمل درآمد نہ کرکے جو خلاف ورزی کی گئی وہ قابل مذمت ہے اس میں یونیورسٹی انتظامیہ غلطی پر ہے۔
گزشتہ چار ہفتوں سے اب تک یونیورسٹی کے حالات سدھرنے کی بجائے دن بہ دن ابتری کی جانب بڑھتے جا رہے ہیں حکومت یونیورسٹی انتظامیہ کو اس صورتحال کے جلد خاتمہ کے لیے احکامات دے بلکہ وزیر اعظم خود اس تنازعہ کو حل کرنے کے لیے میدان میں خود اتریں کیونکہ وفاقی دارالحکومت میں ایسی صورتحال کازیادہ دیر برقرار رہنا ملک و قوم اور حکومت کے لیے نیک نامی نہیں، وزیر اعظم یونیورسٹی سے نکالے گئے بلوچ طلباء کی بحالی اور طلباء کے ساتھ اسلام آباد انتظامیہ کے مذاکرات میں طے پانے والے معاملات پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں کیونکہ ہٹ دھرمی سے معمولات سدھرنے کی بجائے مزید بگڑتے ہیں۔
بلوچ طلباء نے حکومت اور انتظامیہ سے مایوس ہوکر حکومت کے سب سے بڑے مخالف لیڈر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں سے مدد و نصرت مانگنا ضروری خیال کیا ہے، بلوچ طلباء نے عمران خان کے نام ایک خط لکھا ہے اور ان سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے دی گئیں غیر منصفانہ سزاؤں کے خلاف اور طلباء کی بحالی کے لیے قائد اعظم یونیورسٹی کے بلوچ طلباء جو گزشتہ چار ہفتوں سے سراپا احتجاج ہیں آپ سے استدعا ہے کہ آپ ایک قومی رہنما کی حثیت سے ان کے مسائل کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
قائد اعظم یونیورسٹی کے طلباء کا اپنے مسائل کے حل کے لیے عمران کاں سے مدد مانگنے سے حکومت کے لیے مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اور معاملات کے مذید گھبیر صورتحال اختیار کرنے کا بھی احتمال بدرجی اتم موجود ہے جو حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ بلوچستان کے سیاسی راہنماؤ ں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے بلوچ طلباء کی مدد و نصرت کے لیے آگے بڑھنا چاہیے بلکل اسی طرح جیسے وہ اپنی فائلیں وزیر اعظم سے سائن کروانے کے لیے وزیر ہاؤس پہنچ جاتے ہیں کیونکہ یہ طلبا بلوچستان کا سرمایہ ہیں اور مستقبل بھی انہیں کے ہاتھوں میں ہے۔ حاصل بزنجو، محمود اچکزئی ڈاکٹر عبدالمالک اور نواب ثناء اللہ زہری وزیر اعلی بلوچستان کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔