نوبل انعام یافتہ سائنسدان سٹیون وائن برگ کا یہ مضمون انگریزی میں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔ نیو یارک ریویو آف بکس پر شائع شدہ اس مضمون کی اردو میں ترجمہ شدہ شکل لالٹین میگزین کے ویب سائٹ پر 29 جنوری 2017 کو جاری کی گئی۔ ادارہ “ایک روزن” لالٹین میگزین کی مجلس ادارت کا بے حد ممنون ہے۔
تحریر: سٹیون وائن برگ؛ ترجمہ: فصی ملک
بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں کوانٹم میکانیات میں ہونیوالی ترقی بہت سارے طبیعیات دانوں کے لیے حیرت کا باعث بنی۔ آج بھی اس کی کامیابی کے باوجود اس کے معانی اور مستقبل کے متعلق بحث جاری ہے۔
(1)
Quantum-physics
پہلا دھچکا اس واضح درجہ بندی کو للکارنے کی صورت میں آیا جس سے انیسویں صدی کے طبیعیات دان مانوس ہو چکے تھے۔ ہمارے پاس ذرات تھے — جیسا کہ جواہر (atoms)اور پھر برقیے (electrons)اور جوہری مراکز(atomic nuclei)—-اور ہمارے پاس میدان (fields)تھے—جو کہ مکان(space) کی حالتیں ہیں اور ان خِطوں تک سراعیت کر جاتی ہیں جن میں برقی، مقناطیسی اور ثقلی قوتیں عمل کرتی ہیں۔ روشنی کی لہروں کو برقی اور مقناطیسی میدانوں کے خود پرور اہتزازات (oscillations)کے طور پر پہچانا جا چکا تھا۔ لیکن گرم اجسام سے نکلنے والی روشنی کی شعاعوں کو سمجھنے کے لیے البرٹ آئن سٹائن نے ضروری سمجھا کہ روشنی کی موجوں کو بے کمیت ذرات کی ایک ندی کی طرح لیاجائے، یہ ذرات بعد میں ضیائیے (photons)کہلائے۔
1920 کی دہائی میں لوئس ڈی بروئلی (Louis de Broglie)اور اورن شروڈنگر (Erwin Schrodinger)کے نظریات سے یہ ظاہر ہوا کی برقیے، جن کو ہمیشہ سے ذرات کے طور پر جا نا گیا تھا، کچھ حالات میں موج کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔ جوہر کی مستحکم حالتوں کی توانائی (energy of stable states of atom)کی وضاحت کرنے کے لیے طبیعیات دانوں کو اس خیال کو ترک کرنا پڑا کہ برقیے چھوٹے چھوٹے نیوٹنائی سیارے (Newtonian planets) ہیں جو کہ جوہری مرکزے کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ جوہر میں موجود برقیوں کو موجوں کے طور پر بیان کیا گیا جو کہ مرکزے کے گرد ایسے موافق بیٹھتی ہیں جیسے ارغنوں کی نلیو ں (Organ pipes) میں صوتی امواج۔ دنیا کی کی گئی تمام کی تمام درجہ بندی گڈمڈ ہو چکی تھی۔
اس سے بھی بدتر یہ کہ برقیائی موجیں (electronic waves) برقیائی مادے کی موجیں نہیں ہیں جیسا کہ سمندری موجیں پانی کی موجیں ہوتی ہیں۔اس کی بجائے میکس بارن(Max Born) نے محسوس کیا کہ برقیائی موجیں احتمال کی موجیں(probability waves) ہیں۔مطلب یہ کہ جب کوئی برقیہ کسی جوہر سے ٹکرائے گا تو ہم اصولاً یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ کسی سمت میں واپس جائے گا۔ برقیائی موج جوہر سے مٹھ بھیڑ(interaction) کے بعد ہر سمت میں پھیلتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے ایک سمندری موج چٹان سے ٹکرانے کے بعد پھیلتی ہے۔ جیسا کہ بارن نے کہا، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ برقیہ بذاتِ خود ہر سمت میں پھیل جاتا ہے۔ اس کے برعکس غیر منقسم برقیہ کسی ایک سمت میں جاتا ہے۔ لیکن اس سمت کی صحیح طور پر پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن اس کے اس سمت میں جانے کے اغلب مواقع میں جہاں موج شدید (بلند درجے پر واقع) ہوتی ہے۔ لیکن کوئی بھی سمت ممکن ہے۔
1920 کے عشرے کے طبیعیات دان احتمال سے ناواقف نہیں تھے، لیکن اس کے بارے میں عموماً یہ سوچا جاتا تھا کہ یہ درپردہ طبیعی قوانین میں لا جبریت (indeterminism)نہیں بلکہ جو کچھ بھی پڑھا جا رہا ہوتا ہےاس کا ادھورا علم فراہم کرتی ہے۔ نیوٹن کے حرکت اور تجاذب کے نظریات نے جبریت کے قوانین کا میعار قائم کر دیا تھا۔جب کسی لمحے پر ہمارے پاس نظامِ شمسی میں موجود ہر جسم کی حالت اور رفتار کا مناسب حد تک صحیح علم ہوتا ہے تو نیوٹن کے قوانین ہمیں بہت درستگی سے یہ بتاتے ہیں کہ وہ مستقبل میں کسی وقت پر کس جگہ پر موجود ہوں گے۔نیوٹنائی طبیعیات میں احتمال اس وقت آتا ہے جب ہمارا علم نامکمل ہو، مثال کے طور پر جب ہمیں علم نہ ہو کہ پانسوں کا جوڑہ (pair of dice) کیسے پھینکا جائے۔ لیکن نئی کوانٹمی میکانیات کے ساتھ طبیعیات کے قوانین کی لمحہ بہ لمحہ جبریت بذاتِ خود ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
سب کچھ بہت عجیب ہے نا؟ 1926میں میکس بارن کو لکھے گئے ایک خط میں آئن سٹائن نے شکایت کی:
“کوانٹمی میکانیات بہت اثر آفرین ہے،تاہم ایک اندرونی آواز مجھے بتاتی ہے کہ ابھی یہ بھی ایک حقیقی چیز نہیں ہے، یہ نظریہ بہت اچھے نتائج دیتا ہے پر بمشکل ہی ہمیں اس پرانے اسرار کے قریب لاتا ہے،میں ہر طرح سے قائل ہوں کہ خدا پانسہ پھینکنے کا کھیل نہیں کھیلتا”
1964 میں کارنل (Cornel) میں اپنے قاصدی دروس (messenger lectures) میں رچڑڈ فائن من (Richard Feynman) نے شکوہ کیا کہ “میرے خیال سے میں مکمل یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کی کوئی بھی کوانٹمی میکانیات کو نہیں سمجھتا”۔کوانٹمی میکانیات ماضی کی طبیعیات سے اتنی مختلف تھی کہ پچھلی تمام طبیعیات کلاسیکی کہلائی جانے لگی۔
کوانٹمی میکانیات کا عجب پن بہت سارے مقاصد کے لیے مسلہ نہیں تھا۔ طبیعیات دان جوہروں اور ان کے انرجی لیولز اور ذرات کے ایک دوسرے سے ٹکرانے کے بعد منتشر ہونے کی سمت کے احتمالوں کے بارے میں درست سے درست ترپیشین گوئی کے قابل ہوتے جا رہے ہیں۔ لارنس کراس (Lawrence Krauss)نے ہائدروجن کے طیف میں ایک نتیجے کو کوانٹم میکانیاتی حساب کا پوری سائنس میں سب سے زیادہ صحیح اور بہترین پیشین گوئی کا درجہ دیا ہے۔ جوہری طبیعیات کے علاوہ طبیعیات دان جینو سیگری(Gino Segre) نے کوانٹمی میکانیات کے ابتدائی اطلاقات (applications)کی فہرست بنائی ہے ان میں جوہروں کا سالموں(molecules) میں بندھنِ، جوہری مرکزے کا تابکارانہ انحطاط(radioactive decay)، برقیائی موصلیت، مقناطیسیت اور برقناطیسی شعاعیں(electromagnetic radiations) شامل ہیں۔بعد میں آنے والے اطلاقات بالاموصلیت(superconductivity) کے نظریات، سفید بونے اور تعدیلہ ستارے(white dwarf and neutron stars)، مرکزائی قوتوں اور اساسی ذرات کا احاطہ کرتے ہیں۔
بہت سارے طبیعات دان یہ سوچنے لگے ہیں کہ کوانٹمی میکانیات کے غیر مانوس پہلوؤں پر فائنمن، آئن سٹائن اور دوسروں کے ردِعمل کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ یہ میرا نقطہِ نظر ہوتا تھا۔بہرحال نیوٹن کے نظریات بھی اس کےبہت سارے ہم عصروں کے لیے تلخ تھے۔ نیوٹن نے ثقل کو متعارف کرایا جس کو اس کے ناقدین ایک نہاں قوت کے طور پر دیکھتے تھے۔ جس کا مادی طور پر دھکیلنے یا کھینچنے سے کوئی تعلق نہ تھا اور جس کی توضیح فلسفے یا نظری ریاضی( pure mathematics) کی بنیاد پر نہیں کی جا سکتی تھی۔مزید براں اس کے نظریات نے سیاروی مداروں کا احاطہ اولین اصول(First principle) سے معلوم کرنے کے بطلیموس(Ptolemy) اور کیپلر کے اہم مقاصد کو ٹھکرا دیا۔لیکن آخر میں نیو ٹونیانزم (Newtonianism) کی مخالفت منظر سے غائب ہو گئی۔نیوٹن اور اس کے بعد میں آنے والے نہ صرف سیاروں کی حرکت اور گرتے ہوئے سیبوں، بلکہ دم دار ستاروں(comets) اور چاندوں اور زمین کی ہیئت اور اس کے گردشی محور(axis of rotation) کی سمت میں تبدیلی کی بھی وضاحت دینے میں کامیاب ہوئے۔یہ کامیابی اٹھارویں صدی کے اختتام تک نیوٹن کے حرکت اور تجاذب کے نظریات کو سچا یا پھر کم از کم حیران کن حد تک صحیح تقریب (accurate approximation) مقرر کر چکی تھی۔ اس چیز کا سختی سے مطالبہ واضح طور پر غلط ہے کہ نئے طبیعی نظریات کو کچھ پہلے سے اندازہ شدہ فلسفیانہ میعاروں پر پورا اترنا چاہیئے۔
کوانٹم میکانیات میں کسی نظام کی حالت کلاسیکی طبیعیات کی طرح ہر ذرے کا مقام اور رفتار اور مختلف میدانوں کی تبدیلی کی شرح کی قیمتیں دے کر بیان نہیں کی جاتی۔اس کے برعکس کسی بھی لمحے کسی نظام کی حالت ایک موجی تفاعل (wave function) سے بیان کی جاتی ہے جو کہ بنیادی طور پر بہت سارے عددوں کی فہرست ہے، جس میں سے ہر عدد نظام کی ہر ممکنہ صورت کو ظاہر کرتا ہے۔اگر نظام ایک ذرے پر مشتمل ہے، تو ہمارے پاس مکان میں ہر اس جگہ کے لیے ایک عدد ہوگا جس میں وہ ذرہ سکونت اختیار کر سکتا ہے۔یہ کلاسیکی طبیعیات میں صوتی موج کی وضاحت کی طرح ہے، سوائے اس کے کی صوتی موج میں مکان میں ہر نقطے پر عدد اس نقطے پر ہوا کے دباؤ (Pressure) کو ظاہر کرتا ہے جب کہ کوانٹمی طبیعیات میں ایک ذرے کے لیے کسی جگہ پرموجی تفاعل کا عدد اس جگہ پر ذرے کے موجود ہونے کے احتمال کو ظاہر کرتا ہے۔اس میں اتنی مبہم چیز کیا ہے؟ یقیناً آئن سٹائن اور شروڈنگر کا کوانٹمی میکانیات کو استعمال نہ کرنا اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں خود کواس شاندار ترقی سے دور کر لینا جو دوسروں نے کی، ایک المناک غلطی تھی۔
(2)
اس کے بعد بھی میں کوانٹمی میکانیات کے مستقبل کے بارے میں اتنا پریقین نہیں ہوں جتنا کبھی تھا۔ یہ ایک برا شگون ہے کہ حال کے وہ طبیعیات دان جو کوانٹمی میکانیات سےبہت مطمئین ہیں اس کے معانی پر ایک دوسرے سےمتفق نہیں ہیں۔ کوانٹم میکانیات میں تضاد خصوصاً پیمائش کی فطرت(nature of measurement) سے اٹھتا ہے۔اس مسلے کی وضاحت ایک سادہ سی مثال، برقیے کی غزل (spin) کی پیمائش،سے کی جا سکتی ہے)کسی ذرے کی کسی بھی سمت میں غزل کی پیمائش اسی سمت میں کھینچی گئی لکیر کے گرد مادہ کے گھماؤ کو ظاہر کرتی ہے)۔
اس بات پر تمام نظریے متفق ہیں اور تمام تجربات تصدیق کرتے ہیں کہ جب آپ اپنی مرضی کی سمت میں برقیے کی غزل کی پیمائش کرتے ہیں تو دو ممکنہ نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ ایک ممکنہ نتیجہ ایک مثبت عدد کے برابر ہے جو کہ قدرت کا ایک کائناتی مستقل(universal constant) ہے۔یہ وہ مستقل ہے جسے بنیادی طور پر میکس پلانک نے 1900 میں تپشی شعاعوں کے نظریے(theory of heat radiations) میں متعارف کرایا تھا اور یہ h اور 4π کا حاصلِ تقسیم ہوتا ہے۔دوسرا ممکنہ نتیجہ اس کا متضاد ہے، یعنی پہلے نتیجے کا امتناعی(Negative) ہے۔غزل (spin)کی یہ مثبت یا منفی قیمتیں ایک ایسے برقیے(electron) کو ظاہر کرتی ہیں جو اپنی پسند کی ساعتی یا ضد ساعتی(clockwise or counter-clockwise) سمت میں گھوم رہا ہوتا ہے۔
لیکن یہ دو ممکنات صرف اس وقت ہیں جب پیمائش کی جاتی ہے۔ایک برقیے کی غزل جس کی پیمائش نہ کی گئی ہو موسیقی کی ایک دھن کی طرح ہے جو کہ دو سُروں، جن کا اپنا اپنا حیطہ (amplitude) ہوتا ہے،کے انطباق سے بنائی گئی ہو۔ ہر سُر مثبت اور منفی غزل کو ظاہر کرتی ہے۔جس طرح ایک دھن ایک آواز پیدا کرتی ہے جو اس کی بنانے والی سُروں سے مختلف ہوتی ہے،اسی طرح ایک برقیے کی غزل جس کی ابھی پیمائش نہ کی گئی ہو اس کی دونوں حالتوں کی متعین غزلوں کا انطباق (superposition of spins)ہوتی ہے اور یہ انطباقی حالت کیفیتاً باقی دونوں حالتوں سے مختلف ہوتی ہے۔اس موسیقائی مطابقت میں غزل کی پیمائش کا عمل دھن کی ساری شدت کسی ایک سُر پر ڈال دیتا ہے، جس کو پھر ہم سنتے ہیں۔
اس کو موجی تفاعل کی صورت میں بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر ہم برقیے کی غزل کے علاوہ اس کی ہر شئے(خوبی) کو نظر انداز کر دیں تو پھر اس کے موجی تفاعل میں موج جیسا کچھ نہیں رہ جاتا۔یہ صرف عددوں کا ایک جوڑا ہے جس میں ہر عدد کسی ایک سمت میں غزل کو ظاہر کرتا ہے۔بالکل ایسے جیسے دھن میں سُروں کے حیطوں کا جوڑا ہوتا ہیں۔ایک برقیے کا موجی تفاعل،جس کی غزل کی پیمائش نہ کی گئی ہو، میں عمومی طور پر دونوں طرح کی غزل کی قیمت غیر صفری ہوتی ہے۔
کوانٹمی میکانیات کا ایک اصول ہے جو کہ بارن کے اصول (Born Rule)سے جانا جاتا ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح ہم کسی تجربہ میں موجی تفاعل کو استعمال کر کے مختلف نتائج کے حاصل ہونے کےاحتمالوں کا حساب لگاتے ہیں۔مثال کے طور پر بارن کا اصول ہمیں بتاتا ہے کہ جب کسی ایک سمت میں غزل کی پیمائش کی جاتی ہے تو اس کے مثبت یا منفی ہونے کا احتمال غزل کی ان دو حالتوں کے موجی تفاعل میں موجودعددوں کے مربع کے متناسب ہوتا ہے۔
طبیعیات کے اصولوں میں احتمال کا تعارف ماضی کے ماہرِ طبیعیات کے لیے بہت پریشان کن تھا، لیکن کوانٹمی میکانیات کے ساتھ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس میں احتمال موجود ہیں۔ ہم اسے برداشت کر سکتے ہیں۔ مسلہ یہ ہے کہ کوانٹمی میکانیات میں موجی تفاعل کی وقت کے ساتھ تبدیلی کو ایک مساوات سے ظاہر کیا جاتا ہے جو شروڈنگر کی مساوات کہلاتی ہے اور اس میں احتمالات موجود نہیں ہیں۔ یہ اتنی ہی جبریتی (deterministic) ہے جتنا کہ نیوٹن کی حرکت اور تجاذب کی مساواتیں ہیں۔ مطلب یہ کہ اگر آپ کے پاس کسی ایک لمحے پر موجی تفاعل موجود ہے تو شروڈنگر کی مساوات آپ کو بتائے گی کہ مستقبل میں کسی وقت پر موجی تفاعل کیا ہو گا۔یہاں بدنظمی(chaos) کا بھی امکان نہیں ہے جو نیوٹنائی میکانیات میں ابتدائی شرائط(initial conditions) میں نہایت حساس تبدیلیوں سے بھی پیدا ہو جاتی تھی۔لہٰذا اگر ہم پیمائش کے سارے عمل کو کوانٹمی میکانیات کی مساواتوں سے منسوب کر دیں اور یہ کہ یہ مساواتیں مکمل طور پر جبریتی ہیں تو پھر کوانٹمی میکانیات میں احتمالات کہاں سے آتے ہیں؟
ایک عام جواب یہ ہے کہ پیمائش کے دوران غزل(یا جو کچھ بھی ماپا جائے) ایک کبیرماحول(macroscopic environment) کے ساتھ تعامل کرتی ہے جس سے اس میں غیر پیش گوئیانہ(unpredictable) انداز میں جنبش (Jitter)پیدا ہوتی ہے۔مثال کے طور پر یہ ماحول روشنی کی شعاع میں ضیائیوں(photons) کا فوارہ ہو سکتا ہے جسے کسی نظام کا مشاہدہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہو،جو کہ فطرت میں اتنا ہی غیر پیش گوئیانہ ہے جتنا کہ بارش کے قطروں کا فوارہ۔ ایسا ماحول موجی تفاعل میں مختلف حالتوں کے انطباق(superposition) کو توڑنے کا باعث بنتا ہے۔جس سے پیمائش کا ایک غیر پیش گوئیانہ نتیجہ آتا ہے(جو کہ غیر اتصال(decoherence) کہلاتا ہے)۔یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک پرشور پسِ منظر غیر پیس گوئیانہ طور پر کسی دھن کے صرف ایک سُر کو قابلِ سماعت رہنے دیتا ہے۔لیکن یہ اس سوال کو جنم دیتا ہےکہ اگر جبریتی شروڈنگر کی مساوات وقت کے ساتھ صرف غزل ہی نہیں بلکہ پیمائشی سامان اوراس کو استعمال کرنے والے طبیعیات دان میں ہونے والی تبدیلیوں کو بھی بتاتی ہے تو پھر پیمائش کے نتائج اصولاً غیر پیش گوئیانہ نہیں ہونے چاہیے۔ لہٰذا ہمیں پھر سے پوچھنا ہو گا کہ کوانٹمی میکانیات میں احتمالات کہاں سے آتے ہیں؟
اس پہیلی کا ایک جواب 1920 کی دہائی میں نیل بوہر(Neils Bohr) نے دیا، جو کہ کوانٹمی میکانیات کی کوپن ہیگنی تاویل(Copenhagen interpretation) کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بوہر کے مطابق کسی بھی پیمائشی عمل میں کسی نظام کی حالت(جیسا کہ غزل) کسی ایک یا دوسرے نتیجے تک محدود ہو جاتی ہے جس کو کوانٹمی میکانیات سے بیان نہیں کیا جا سکتا اور یہ حقیقتاً غیر پیش گوئیانہ ہوتا ہے۔ یہ جواب اب بڑے پیمانے پر ناقابلِ قبول محسوس کیا جاتا ہے۔بوہر کے مطابق ہمارے پاس ایسا کوئی راستہ نہیں ہے جو ان حدود کی نشاندہی کرے جن کے بیچ کوانٹمی میکانیات لاگو ہوتی ہے۔جب یہ ہو رہا تھا تب میں کوپن ہیگن میں بوہر انسٹیٹیوٹ(Bohr institute) میں گریجوایشن کا طالب علم تھا۔ وہ بہت عظیم تھا اور میں بہت کم عمرا اور مجھے اس سے اِس کے بارے میں پوچھنے کا کبھی موقع نہیں ملا۔
کوانٹمی میکانیات کی وضاحت کے دو نقطہِ نظر ایسے ہیں جن کو بہت زیادہ مانا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک حقیقت پسندانہ (realist) اور دوسرا آلیتی (instrumental) نقطہِ نظر کہلاتا ہے۔ یہ دونوں پیمائش میں احتمال کے مبدا (origin)کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں۔ کچھ وجوہات، جن کی میں وضاحت کروں گا، کی بنا پر مجھے کوئی بھی نقطہِ نظر تسلی بخش نہیں لگتا۔
(3)
آلاتی نقطہِ نظر کوپن ہیگنی تاویل(Copenhagen interpretation) کا ہی ایک جد ہے۔ بجائے اس کے کہ ان حدود کا تعین کیا جاتا جن کے اندر کوانٹم میکانیات حقیقت کی صحیح تشریح کر سکتی ہے انہوں نے اس کو یکسر رد کر دیا۔ اس میں ابھی بھی ایک موجی تفاعل ہے مگر یہ ایک ذرے یا میدان کی طرح حقیقی نہیں ہے بلکہ محض ایک آلہٰ ہے جوکسی پیمائش میں مختلف نتائج کے حاصل ہونے کے احتمالوں کی پیشین گوئی کرتا ہے۔
اس نقطہِ نظر کے ساتھ مسلہ صرف یہی نہیں ہے کہ یہ سائنس کے ایک قدیم مقصد کو ہی نظر انداز کر دیتا ہے: کہ اس میں حقیقتاً ہو کیا رہا ہے۔ بلکہ یہ ایک بہت افسوس ناک قسم کی دست برداری ہے۔آلیتی نقطہِ نظر میں جب انسان پیمائش کرتے ہیں تو ان اصولوں کو قدرت کے اساسی اصولوں کے طور پر گمان کرنا پڑتا ہےجن کی مدد سے موجی تفاعل کو استعمال کر کے مختلف نتائج کے احتمالوں کا حساب لگایا جاتا ہے۔لہٰذا انسانوں کو بہت بنیادی سطح پر قوانینِ قدرت میں داخل کر لیا گیا ہے۔یوجین وگنر(Eugene Wigner)،جو کے کوانٹمی میکانیات کے بانیوں میں سے تھا،کا کہنا ہے کہ شعور (consciousness)کے بنا کونٹمی میکانیات کے قوانین کو یکساں طور پر وضع کرنا ممکن نہ تھا۔
لہٰذا آلیتی نقطہِ نظر اس نقطہِ نظر سے منہ موڑ لیتا ہے جو ڈارون کے بعد رائج رہا کہ دنیا میں چند اٹل طبیعی قوانین ہیں جو انسانی رویوں سمیت ہر چیز کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ ہمارا یہ اعتراض اس لیے نہیں ہے کہ ہم انسانی سوچ کے مخالف ہیں بلکہ ہم اس سوچ کے مخالف ہیں جو یہ کہتی ہے کہ انسان اور فطرت کے تعلق کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ فرض کرنا پڑے گا کہ ہم فطرت کے بنیادی قوانین بناتے ہوئے اس سے اپنی ذاتی سوچ کو منہا نہیں کر سکتے۔ ہو سکتا ہے ہمیں آخر میں اس مقصد کو ترک کرنا پڑے پر میرے خیال سے ابھی نہیں۔
کچھ طبیعیات دان جو آلیتی نقطہِ نظر کے حامی ہیں یہ دلیل دیتے ہیں کہ وہ احتمالات جو ہم موجی تفاعل سے اخذ کرتے ہیں معروضی احتمالات ہیں اور ان کا ان انسانوں سے کوئی واسطہ نہیں جو پیمائش کر رہے ہوتے ہیں۔میں اسے قابلِ دفاع نہیں سمجھتا۔ کوانٹمی میکانیات میں احتمالات اس وقت تک موجود نہیں ہوتے جب تک لوگ یہ فیصلہ نہ کریں کہ کس چیز کی پیمائش کرنی ہے، جیسا کہ کسی ایک یا دوسری سمت میں غزل(spin) کی پیمائش کرنا۔ کلاسیکی طبیعیات کے برخلاف ہمیں لازمی طور پر انتخاب کرنا ہو گا کیونکہ کوانٹمی میکانیات میں ہر شئے کی بیک وقت پیمائش نہیں کی جا سکتی۔ جیسا کہ وارنر ہائزنبرگ (Warner Heisenberg)نے کہا کہ کوئی بھی ذرہ بیک وقت معین رفتار اور معین مقام نہیں رکھ سکتا۔ کسی ایک کی پیمائش دوسرے کو پیمائش سے محروم کر دیتی ہے۔اسی طرح اگر ہمیں اس موجی تفاعل کا پتہ ہو جو ایک برقیے کی غزل کو بیان کرتا ہو تو ہم اس احتمال کا حساب لگا سکتے ہیں کہ پیمائش کرنے پر اس برقیے کی مثبت غزل کی سمت شمال کی جانب ہو گی یا پھر مشرق کی جانب،مگر ہم دونوں سمتوں میں مثبت غزل کے احتمال کی بات نہیں کر سکتے کیونکہ ایسی کوئی حالت نہیں ہے جس میں برقیے کی دونوں سمتوں میں معین غزل ہو۔
(4)
کوانٹمی میکانیات کے حقیقت پسندانہ نقطہِ نظر میں ان مسائل سے آلیتی نقطہِ نظر کے برخلاف جزوی چھٹکارہ حاصل کر لیا گیا ہے۔اس میں موجی تفاعل اور اس کے جبریتی ارتقا(deterministic evolution) کو سنجیدگی سے حقیقت کے اظہار کے طور پر لیا جاتا ہے مگر یہ دیگر مسائل پیداکرتا ہے۔
حقیقت پسندانہ نقطہِ نظر کا ایک بہت عجیب مضمر ہے جس کا حساب پہلی مرتبہ مرحوم ہف ایورٹ(Hugh Everett) کے پرنسٹن کے پی ایچ ڈی کے مقالے میں لگایا گیا۔جب کوئی طبیعیات دان کسی برقیے کی غزل کی پیمائش کرتا ہے، کہہ لیں کہ شمال کی سمت میں، توحقیقت پسندانہ نقطہِ نظر سے برقیے، پیمائشی سامان اورطبیعیات دان کا موجی تفاعل شروڈنگر کی مساوات کی رو سے جبریتی طور پر ارتقا پاتا ہے،لیکن اس پیمائش کے نتیجے میں موجی تفاعل دو ٹرمز کا انطباق(superposition) بن جاتا ہے،جن میں سے ایک میں برقیے کی غزل مثبت ہوتی ہے اور ہر کوئی جو بھی اس کو دیکھتا ہے سمجھتا ہے کہ یہ مثبت ہے جب کہ دوسرے میں منفی ہوتی ہے اور ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ منفی ہے۔چونکہ ہر کوئی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ موجی تفاعل کی ہر ٹرم(Term) میں غزل کا ایک ہی حتمی نشان(sign) ہے اس لیے انطباق کا پتہ چلانا ممکن نہیں۔ نتیجتاً دنیا کی تاریخ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
یہ بہت عجیب ہے پر تاریخ کا بٹ جانا صرف اسی وقت نہیں ہوتا جب ہم غزل کی پیمائش کرتے ہیں۔ حقیقت پسندانہ نقطہِ نگاہ سے تاریخ لامتناہی طور پر تقسیم ہوتی جاتی ہے،اور ایسا ہر بار ہوتا ہے جب بھی کوئی اجمالی(Macroscopic) جسم کسی کوانٹمی حالت کے ساتھ منسلک ہوتا ہے۔ان ناقابلِ فہم اقسام کی تواریخ نے سائنس فکشن کے لیے کافی مواد مہیا کیا ہےاور یہ کثیرِنات(multiverse) کے لیے توجیہہ(rationale) فراہم کرتی ہے۔اور اس میں وہ خاص کائناتی تاریخ جس میں ہم پائے جاتے ہیں اس چیز کی پابند ہے کہ اس کو لازمی طور پر ان تواریخ میں سے ایک ہونا تھا جن میں صورتحال ایسی ہو کہ وہان ذی شعور لوگ رہ سکیں۔ لیکن ان متوازی تواریخ کا تصور کافی پریشان کن ہے اور بہت سارے دوسرے طبیعیات دانوں کی طرح میں بھی ایک اکیلی تاریخ کو ہی ترجیح دوں گا۔
ہماری تنگ نظرانہ ترجیحات سے بالا تر، حقیقت پسندانہ نقظہِ نظر میں ایک اور چیز بھی ہے جو غیر تسلی بخش ہے۔ اس نقطہِ نظر میں کثیرِنات(multiverse) کا موجی تفاعل جبریتی طور پر ارتقا پاتا ہے۔ ہم اب بھی احتمالوں کی وقت کی کسروں کی صورت میں بات کر سکتے ہیں کہ جب بھی کسی ایک تاریخ میں پیمائش کو بہت بار دہرایا جاتا ہے تو ہمیں بہت سے ممکنہ نتائج حاصل ہوتے ہیں۔لیکن وہ اصول جو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ کون کون سے احتمالوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے وہ پوری کثیرِنات کے جبریتی ارتقا کے نتیجے میں حاصل ہوں گے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر احتمالوں کی پیش گوئی کرنے کے لیے ہمیں کچھ اضافی مفروضے قائم کرنے پڑتے کہ کیا ہوتا ہے جب انسان کوئی پیمائش کرتے ہیں اور اس طرح ہمیں پھر سے انہیں خامیوں کا سامنا کرنا ہو گا جن کا ہم آلیتی نقطِ نظر میں کر چکے ہیں۔ حقیقت پسندانہ نقطہِ نظر کے بعد بہت ساری کوششیں بارن کے اصول(Born rule)،جو کہ تجرباتی طور پر بہت اچھے نتائج دیتا ہے، کی طرح کے اصول اخذ کرنے کے قریب پہنچی پر میرے خیال سے کسی کو حتمی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔
ہف ایوریٹ کے کثیر تواریخ کے بارے میں لکھنے سے پہلے ہی کوانٹم میکانیات کا حقیقت پسندانہ نقطہِ نگاہ ایک مختلف قسم کے مسلے سے دوچار ہو چکا تھا۔ جس کے بارے میں آئن سٹائن اور اس کے ہم منصبوں بورس پوڈولسکی(Boris Podolsky) اور ناتھن روزن(Nathan Rosen) نے 1935 میں چھپنے والے ایک مقالے میں لکھا۔اور یہ مسلہ الجھاؤ(entanglement) کے عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔
فطرتاً ہم یہ سوچتے ہیں کہ حقیقت کو مقامی طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ میں یہ بتا سکتا ہوں کہ میری تجربہ گاہ میں کیا ہو رہا ہے اور تم یہ بتا سکتے ہو کہ تمہاری میں کیا ہو رہا ہے مگر ہم ایک ہے وقت میں دونوں کے بارے میں نہیں بتا سکتے۔لیکن کوانٹمی میکانیات میں ایک نظام کا الجھاؤ(entanglement) کی حالت میں ہو نا ممکن ہے، جو کہ ایک ہی نظام کے دو مختلف حصوں کے درمیان باہمی تعلق کو بیان کرتا ہے جو ایک دوسرے سے بہت دور ہوتے ہیں۔ بالکل ایک بہت لمبی ٹھوس چھڑی کے دو کناروں کی طرح۔
مثال کے طور پر فرض کیجیے ہمارے پاس برقیوں کا ایک جوڑا ہے جن کی کسی بھی سمت میں کل غزل(total spin) صفر ہے۔ایسی حالت میں موجی تفاعل(غزل کے علاوہ ہر چیز کو نظر انداز کرتے ہوے) دو ٹرمز کا مجموعہ ہے: ایک ٹرم میں برقیہ الف(electron A) کی غزل مثبت جبکہ برقیہ ب(electron B) کی غزل منفی ہے، کہہ لیں شمال کی سمت میں، جب کہ موجی تفاعل کی دوسری ٹرم میں مثبت اور منفی علامات الٹ دی جاتی ہیں۔ ایسی حالت میں کہا جاتا ہے کہ برقیوں کی غزلیں (spins)الجھ چکی ہیں۔اگر ایسا کچھ نہ کیا جائے جس سے ان غزلوں میں مداخلت پڑے تو یہ الجھی ہوئی حالت ایسے ہی رہے گی چاہے برقیے ایک دوسرے سے بہت دور چلے جائیں۔ وہ جتنے بھی دور ہوں ہم صرف دونوں برقیوں کے موجی تفاعل کی بات کر سکتے ہیں، ہر ایک کے علیحدہ علیحدہ کی نہیں۔ گھماؤ نے کوانٹمی میکانیات پر آئن سٹائن کی بے اعتباری میں اتنا ہی یا اس سے بھی زیادہ حصہ ڈالا جتنا کہ احتمالوں کے ظہور نے ڈالا تھا۔
عجیب تو یہ ہے ہی پر الجھاؤ جس کو کوانٹمی میکانیات ممکن بناتی ہے،کا تجرباتی مشاہدہ کیا جا چکا ہے۔ لیکن کوئی اتنی عجیب چیز حقیقت کا اظہار کیسے کر سکتی ہے۔
(5)
quantam-physics-2
تو کوانٹم میکانیات کی خامیوں کے بارے میں کیا کیا جانا چاہیے؟ ایک مناسب جواب ایک استفساریہ طالب علم کو دی گئی عظیم صلاح میں موجود ہے: منہ بند کرو اور حساب لگاو”۔ اس بارے میں کوئی بحث نہیں ہے کہ کوانٹم میکانیات کو کیسے استعمال کیا جائے بلکہ یہ ہے کہ کیسے بیان کیا جائے کہ اس کا کیا مطلب ہے، چناچہ مسئلہ صرف الفاظ کا ہے۔
دوسری جانب ہو سکتا ہے کوانٹم میکانیات کی موجودہ حالت میں ادراکِ پیمائش کے مسائل ہمیں تنبیہ کر رہے ہوں کہ نظریے کو ترمیم کی ضرورت ہے۔ کوانٹمی میکانیات جوہروں کے لیے اتنے اچھے طریقے سے کام کرتا ہے کہ کسی بھی نئے نظریے کو اتنی چھوٹی چیزوں پر لاگو ہونے کے کیے کوانٹم میکانیات سے تقریباً بلا امتیاز(indistinguishable) ہونا پڑے گا۔ لیکن ایک نیا نظریہ اس طرح بنایا جا سکتا ہے کہ بڑے اجسام جیسا کہ طبیعیات دان اور ان کے تجرباتی سامان کی حالتوں کا انطباق(superposition) تنہائی میں بھی ایک یکایک خودکار تصادم کا شکار ہو جائے جس میں احتمالات ارتقا پا کر وہی نتائج دیں جو کوانٹم میکانیات میں متوقع تھے۔ایوریٹ کی متعدد تواریخ فطرتی طور پر ایک تاریخ میں منہدم ہو جائیں گی۔ نیا نظریہ بنانے کا مقصد پیمائش کو طبیعیات کے قوانین میں کوئی خاص حیثیت دیئے بنا مابعد کوانٹمی نظریے میں عام طبیعیاتی عمل کا حصہ بنانا ہے۔
نیا نظریہ بنانے میں ایک مسلہ یہ ہے کہ ہمیں تجربے سے کوئی جہت نہیں ملتی- اب تک کا تمام ڈیٹا(data) عام کوانٹم میکانیات کے ساتھ مطابقت رکھتاہے۔تاہم ہمیں کچھ عمومی اصولوں سے کچھ مدد ملتی ہے جو کسی بھی نئے نظریے پر حیران کن پابندیاں عائد کرتے ہیں۔
ظاہر ہے احتمالات لازمی طور پرمثبت عدد اور ان کا مجموعہ سو فیصد ہونا چاہیے۔ایک اور مطالبہ بھی ہے جو عام کوانٹم میکانیات میں پورا ہوتا ہے۔وہ یہ کہ الجھی حالتوں(entangled states) میں پیمائش کے دوران احتمالوں کے ارتقا کو آنی اشارے(instantaneous signals) بھیجنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ یہ نظریہِ اضافیت کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔نظریہ اضافیت کا تقاضہ ہے کہ کوئی بھی اشارہ(signal) روشنی کی رفتار سے تیزسفر نہیں کر سکتا۔جب ان تقاضوں کو اکٹھا کیا جاتا ہے تو احتمالوں کا ارتقا لنڈبالڈ مساواتوں (Lindbald equations)کی ایک مساوات پر پورا اترتا ہے۔کوانٹم میکانیات کی شروڈنگر کی مساوات لنڈبالڈ مساواتوں میں ایک خاص حالت(special case) کے طور پر ظاہر ہوتی ہے، لیکن عمومی طور پر ان مساواتوں میں بہت ساری نئی مقداریں ہیں جو کہ کوانٹم میکانیات سے انحراف کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان مقداروں کی تفصیلات ہمیں معلوم نہیں ہیں۔نظریاتی برادری کے باہر اگرچہ اس بات کو کم محسوس کیا گیا ہے تاہم تحقیقی مقالوں کی ایک اچھی خاصی مقدار ہے جو چھپ چکی ہے ان میں 1986 کا جیان کارلو غرارڈی(Gian Carlo Ghirardi)، البرٹو ریمینی(Alberto Rimini) اور ٹولیو ویبر (Tulio Weber) کا وہ پُر اثر مقالہ بھی شامل ہے جس میں لنڈبالڈ مساواتوں کو استعمال کر کے کوانٹم میکانیات کی کئی طریقوں سے ترمیم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
حالیہ دنوں میں میں جوہری گھڑیالوں(atomic clocks) میں کوانٹم میکانیات سے انحراف کے ممکنہ تجربے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔کسی بھی جوہری گھڑیال کا بنیادی حصہ ایک آلہ ہے جسے مرحوم نارمن ریمزی(Norman Ramsey) نے خردموجی(microwave) اور مرئی شعاعوں (visible radiation) کے تعدد(frequency)کو ایک معلوم شدہ تعددسے ہم آہنگ (tune)کرنے کے لیے بنایا۔جب بھی جوہر کا موجی تفاعل دو مختلف توانائی کی حالتوں کا انطباق ہوتا ہے تو اس قدرتی تعدد پر ارتعاش (oscillate) کرتا ہے۔یہ قدرتی تعدد (natural frequency)گھڑیال میں استعمال ہونے والی دو مختلف حالتوں کے توانائی کے فرق کو پلانک کے مستقل(Plank’s constant) پر تقسیم کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔یہ تمام بیرونی حالات کے تحت ایک ہی رہتا ہے اور تعدد کے لیے ایک قائم شدہ حوالے(fixed reference) کا کام کرتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے سیورز(Sevres) کے مقام پر رکھا پلاٹینم اور اریڈیم (platinum , Iridium) کا استوانہ (cylinder) کمیت کے لیے قائم حوالے کا کام کرتا ہے۔
ایک برقناطیسی موج (electromagnetic wave) کے تعدد کو اس حوالے کے تعدد سے ہم آہنگ کرنا ایک میٹرونوم(metronome) کو دوسرے میٹرونوم سے ہم آہنگ کرنے کی طرح کام کرتا ہے۔اگر آپ دو میٹرونوموں کو اکٹھے بجائیں تو ان کے سُر ہزار سُروں کے بعد بھی ہم آہنگ ہوں گے۔آپ جانتے ہیں کہ ان کے تعدد ایک کے ایک ہزارویں حصے تک برابر ہیں۔کوانٹم میکانیاتی حساب یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کچھ جوہری گھڑیالوں میں ہم آہنگی ایک کے ایک سو ملین بلین ویں(hundred million billion) حصے تک درست ہونی چاہیے اور درحقیقت یہ درستگی دیکھی گئی ہے۔ لیکن اگر کوانٹم میکانیات میں اصلاحات (corrections)،جن کوتوانائی کی شکل میں لکھی لنڈبالڈ کی مساواتوں میں نئی ٹرمز سے ظاہر کیا جاتا ہے، گھڑیال میں استعمال ہونے والی جوہری حالتوں کے توانائی کے فرق کے ایک سو ملین بلین ویں حصے کے بھی برابر ہوتی تو یہ درستگی ختم ہو جاتی۔ لہٰذا نئی ٹرمز کواس سے بھی خفیف(smaller) ہونا ہو گا۔
یہ حد کتنی مؤثر ہے؟ بدقسمتی سے کوانٹم میکانیات میں اصلاح کے یہ تصورات نہ صرف قیاسی بلکہ مبہم بھی ہیں۔ اور مجھے کوئی اندازہ نہیں ہے ہمیں کوانٹم میکانیات کی ان اصلاحات کو کتنا بڑا گمان کرنا چاہیے۔ نہ صرف اس مسلے بلکہ عمومی طور پر کوانٹم میکانیات کے مستقبل کے متعلق مجھے بارہویں رات میں وائلا(Voila in Twelfth Night) کی طرح صدا لگانا ہو گی “اس پہیلی کو اب وقت ہی سلجھا سکتا ہے میں نہیں”