قرۃ العین حیدر کے ناول : چند معروضات
معراج رعنا
اردو فکشن بالخصوص اردو ناول کی تاریخ میں قرۃالعین حیدر (1927.2007) اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتیں۔ انھوں نے اپنے معجز بیان قلم سے اردو ناول کو فکری عظمت ، فلسفیانہ گہرائی اور فنی رفعت سے اس طرح روشناس کرایا کہ یہ تمام چیزیں اُن کے ادبی اسلوب سے مخصوص ہو گئیں۔ قرۃالعین حیدر سے قبل اردو ناول کی ایک روایت ہمارے سامنے موجود ہے مگر اُس روایت میں ایسے بہت کم لوگ ہیں جن کی فلسفیانہ یا تجربی ساخت اور فنی دروبست قرۃالعین حیدر کے ناولوں سے مماثلت رکھتا ہو۔
جہاں تک متاثر ہونے کا سوال ہے تو وہ بھی کسی نہ کسی سے ضرور متاثر رہی ہوں گی۔لیکن اُن کے ناولوں کے مطالعے کے بعد یہ بات نمایاں ہو جاتی ہے کہ اُن کی یہ اثر پذیری مشرقی نہیں بلکہ خالص مغربی ہے۔ اسکاٹ ، رچرڈسن، ورجینیا وولف، جوائس سے وہ ایک حد تک قریب نظر آتی ہیں۔ تکنیکی اعتبار سے بھی وہ ناول کی مغربی تکنیک سے ہی رجوع کرتی ہیں۔
اسکاٹ سے وہ تاریخ کی تقلیب کی ہنر مندی سیکھتی ہیں تو جوائس سے فلسفے کا تخلیقی استعمال۔ اُن کے یہاں متاثر ہونے عمل محض رسمی نہیں بلکہ وہ اس اثر پذیری سے اپنے ناولوں میں ایک ایسی دنیا آباد کرتی ہیں جو اسکاٹ اور جوائس کی دنیاؤں سے قدرے مختلف واقع ہوئی ہیں۔ قرۃالعین حیدر اکثر و بیشتر ناول اپنی انفرادی شان اور فنی ندرت کے نقشِ دوام ہیں۔ مطلب یہ کہ اُن کے تمام ناول اپنی جگہ ایک مکمل اور انوکھا تجربہ ثابت ہوئے ہیں۔
اُن کی فکشن نگاری کا بنیادی میلان تاریخ و فلسفے کا تخلیقی عرفان ہے۔ مگر وہ تاریخ اور فلسفے کو زیب و زینت کے لیے استعمال نہیں کرتیں بلکہ تاریخی حقائق اور فلسفے کے جزو سے افسانے تخلیق کرتی ہیں۔ اُن کے یہاں تاریک صرف تاریخ ہوتی ہے اور نہ فلسفہ صرف فلسفہ۔ یہاں تاریخ متقلب ہو کر انسانی عروج و زوال کا منظر نامہ بن جاتی ہے،اور فلسفہ تبدیلیِ صورت کے بعد جیتے جاگتے کرداروں کی روح بن جاتا ہے۔ گوتم نیلمبرہو یا ابو المنصور بغدادی ، چمپا ہو یا ہری شنکر، ریحان الدین ہو روشن آرا یا پھر سیتا میر چندانی، قرۃالعین حیدر کے یہ وہ تمام کردار ہیں جو تاریخ کے نمائندے بھی ہیں اور کسی نہ کسی فلسفے کے ترجمان بھی۔
اس لیے یہ تمام کردار فکشن کے سیاق و سباق میں اکہرے نہیں بلکہ کئی کئی تہوں کے حامل نظر آتے ہیں۔ تاریخ اور فلسفے سے کس طرح فکشن بنتا ہے، یہ ہنر مندی پہلی بار قرۃالعین حیدر نے سکھائی۔اُن کے فکشن کے معاشرتی اور سماجی پہلوؤں کے بارے میں یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ اُن کے یہاں ایک خاص اعلیٰ طبقے کی عکاسی کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اُس شخص سے یہ توقع کی بھی نہیں جا سکتی کہ وہ اُن طبقوں کی معاشرت کو اپنے فکشن کا موضوع بنائے جس سے اُس کی وابستگی نہ ہو۔ چونکہ اُن کا تعلق ایک علیٰ طبقے سے تھا اس لیے اُن کے یہاں اُسی طبقے کی معاشرتی فکر اور اُس کا عروج و زوال بیان کیا گیا ہے۔ لیکن اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اُن کے یہاں بالائی طبقے کے ساتھ زمینی طبقات کی زندگیاں اور اُن کے مسائل بھی بیان ہوئے ہیں۔
اُن کے تمام ناولوں میں آگ کا دریا کو غیر متوقع شہرت حاصل ہوئی۔ اس شہرت کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ اس میں تاریخ اور فلسفے کی ایک لا محدود دنیا آباد ہے۔ لیکن یہ بات بڑی حد تک فراموش کر دی گئی کہ تاریخ اور فلسفے کسی ناول یا ادبی تخلیق کی عظمت کی دلیل نہیں ہوتے۔ اور اگر تاریخ اور فلسفے ہی کسی ناول کی عظمت ٹھہرتے تو اردو میں ایسے اور بھی ناول موجود ہیں لیکن اُن کی عظمت کو آگ کا دریا کی عظمت کے برابر تسلیم نہیں کیا جاتا۔
در اصل یہ ناول تاریخ اور فلسفے کے مشترکہ رویے سے تخلیق بنانے کا ایک بڑا کارنامہ ہے جسے قرہ العین حیدر جیسا بڑا ذہن ہی انجام دے سکتا تھا۔ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئیے کہ تاریخ یا تاریخی واقعات کو من و عن پیش کر دینے سے اگر فکشن بنتا تو تاریخ کی زیادہ تر کتابیں فکشن کے دائرے میں آجاتیں۔ تاریخ اور فلسفے جب تک تجربے، مشاہدے اور تخیل سے ہم آہنگ نہیں ہو جاتے تب تک وہ کسی فکشن یا ادبی تخلیق کے ظہور کا سبب نہیں بن سکتے۔”آگ کا دریا” اس لیے عظیم المرتبت ہے کہ اس میں تاریخ، فلسفہ، تہذیب،ادب، ثقافت، مذہب اور عقائد کے مشترکہ انضمام سے واقعات کا ایک ایسا تسلسل قائم ہوتا ہے جو وقت کی لا متناہی قوت کے سہارے اُبھرتا، معدوم ہوتا اور معدوم ہو کر پھر ایک نئی صورت میں ظاہر ہوتا چلا جاتا ہے۔
اس لیے ابو المنصور کمال الدین،جو ایک عرب کردار ہے اور شیر شاہ سوری کے زمانے میں اپنے تشخص کے لیے جد وجہد کرتا ہے، کس طرح بنگالی مچھیرا بن جاتا ہے۔ پھر وہی کمال لندن میں علیٰ تعلیم حاصل کرکے تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کر جاتا ہے۔ چمپا بائی، چمپا احمد بن جاتی ہے، گوتم اور ہری شنکر آزاد ہندوستان میں اعلیٰ منصب پر فائز ہو جاتے ہیں۔ دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کردار کس طرح تاریخ کو منقلب کر کے تخلیق کے کرب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان تمام کرداروں کو بار بار زنگی اور موت کے کرب و نشاط سے گزارنا حیرت انگیز کام ہے۔
قرۃ العین حیدر کے ناول “آگ کا دریا (1959)”اور گیبریل گارشیا مارکیز کاکے ناول One Hundred Years of Solitude(1970) میں کچھ باتیں مشترک ہیں۔ مثلا تکرارِ تاریخ کی غیر مفرور کیفیت، علامتی و استعاراتی اسلوب اور وقت کی پیچیدگی لیکن محض ان بنیادوں پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مارکیز کا ناول “آگ کا دریا “سے بالواسطہ فیضان کا نتیجہ ہے۔ مارکیز کے مذکورہ ناول کی فنی قدر و قیمت اپنی جگہ لیکن سچائی یہ ہے کہ قرۃ العین حیدر کے اس ناول میں بشری فضیلت کو تاریخی تناظر میں وقت سے منسلک کر کے جس خلاقیت سے پیش کیا گیا ہے وہ مارکیز کے ناول میں ناپید ہے۔
Remedios Moscote کا کردار”تنہائی کے ایک سو سال “میں امتیازی حیثیت تو رکھتا ہے لیکن اس کردار میں تقلیب کی وہ تحرُکی خوبی نہیں ملتی جو “آگ کا دریا” کے گوتم نیلمبر، ہری شنکر، ابو المنصور کمال الدین اور چمپا کے کرداروں میں نمایاں ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ یہ تمام کردار وقت کی جبریت سے مسخ ہو کر بھی اپنی بنیادی شناخت مجتمع کیے رہتے ہیں۔ مارکیز کی دستاویزیت ایک خاندان پر مشتمل ہے جب کہ قرۃ العین کی تاریخی دستاویزیت قدیم ہندوستان سے لے کر معاصر ہندوستان میں انسانی رشتوں کی بازیافت سے تعلق رکھتی ہے۔ یہی وہ سطح ہے جہاں آگ کا دریا تنہائی کے ایک سو سال سے بلندہوجاتاہے۔
آگ کا دریا سے قطع نظر اُن کا کوئی بھی ناول اُٹھا لیا جائے اُس میں فکر و فلسفے کا متناسب امتزاج نمایاں نظر آتا ہے۔مثال کے لیے آخرِ شب کے ہمسفر کو لیا جاسکتا ہے۔یہ ناول آزادی سے ذرا قبل بنگال کی سیاسی اور سماجی صورتِ حال میں دہشت پسند تنظیم کے قول و فعل میں پائے جانے والے تضادات کی ترجمانی کرتا ہے۔ ریحان، دیپالی سرکار، روزی بنرجی وغیرہ کے کردار یہاں بھی وقت کے ساتھ ساتھ اپنے مزاج، رویے اور خیالات میں نمایاں تبدیلیاں پیدا کرتے نظر آتے ہیں۔
ہر مقصدی تنظیم شروع میں اصولوں کی بنیاد پر اپنی بقا کی ضامن ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن جب اُس پر ذاتی مفاد کا غلبہ طاری ہوتا ہے تو اصولوں کی زنجیریں کچے دھاگے کی طرح ٹوٹنے لگتی ہیں۔ ریحان پہلا شخص ہے جو اصول کی پہلی زنجیر توڑتا ہے،اور establishment کاحصہ بن جاتا ہے۔ اس ناول کے تمام کردار بنگال کی دہشت گرد تنظیم کے رکن تھے لیکن وقت کے ساتھ وہ اُسی اقتدار کا حصہ بن جاتے ہیں جس کے خلاف اُن کی اصولی اور عملی جنگیں شروع ہوئی تھیں۔
جارج آرویل نے اینمل فارم لکھ کر یہ بتایا کہ کس طرح اشتراکیت کا اصول اپنی انتہا یا مقصد کو پہنچ کر من مانے طریقے سے اپنی طعیش کی خندق میں دفن ہو جاتا ہے۔ یہاں بھی نپولین اور باکسر کے کردار اشتراکی نظام کے نمائندے نہ رہ کر وقت کے ہاتھوں تاجر اور سوداگر بن جاتے ہیں،جن کے پیشِ نظر صرف اُن کے اپنے مفادات ہی اہم ہوتے ہیں۔ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ اُن کا ناول “میرے بھی صنم خانے” ہو یا “آگ کا دریا”،”آخرِ شب کے ہمسفر” ہو یا “گردشِ رنگِ چمن”،وقت کے جبر سے آزاد نظر نہیں آتا۔