برہم ہونا افسر شاہی کا
(فرحان عابد گوندل)
“سول سروس” اور “سول سرونٹس” جنھیں ہم لغوی مفہوم کے تحت بالترتیب “خدمتِ عوام” اور “خادمینِ عوام ” کہیں گے، لیکن حقیقت میں ایسا کہنا کسی لطیفے سے کم نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ عوامی بہبود، قیامِ امن ، ظلم کے خاتمے اور عوامی مسائل کے حل کے لیے بنائے گئے یہ عہدے اور ادارے ہمیشہ نااہل حکمرانوں کے اقتدار کی مضبوطی اور اسے دوام بخشنے کے لیے استعمال کیے گئے۔ ان کے ذریعے سے عوام پر جبرکیا گیا۔ ان اداروں سے عوام کا استحصال کرنے اور ان کے بنیادی حقوق غصب کرنے کا کام لیا گیا۔پاکستان کے ہر شہری کے علم میں یہ بات ہے کہ رشوت ، کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں میں نیچے سے لے کر اوپر تک تمام انتظامی افسران کا حصہ طے شدہ ہوتا ہے۔ان تمام دفاتر میں بغیر پیسے اور رشوت کے کسی عام آدمی کے مسائل کو حل نہیں کیا جاتا۔اگرچہ پرویز مشرف نے کسی حد تک ان اداروں اور عہدوں کا ڈھانچہ بدلنے کی اپنی سی کوشش کی تھی، لیکن موجودہ حکومت نے پھر سے انھی لوگوں کو پرانے نظام کے تحت عوام پر مسلط کردیا۔
اس ساری تمہید کا مقصد گزشتہ دنوں گورنمنٹ کالج کوٹمومن، ضلع سرگودھا میں ہونے والےواقعے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے۔ اس قضیے میں درحقیقت اسسٹنٹ کمشنرکوٹ مومن عفت النساء صاحبہ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے، حسبِ عادت اور حسبِ رواج، اپنے عہدے کے زعم میں اساتذہ پر رعب جمانے اور ان کی تذلیل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن سوئے اتفاق کہ وہاں کچھ ایسے اساتذہ بھی موجود تھے جو اسسٹنٹ کمشنرکے اختیارات کی حدود سے واقف بھی تھے اور کچھ جرات اظہار بھی رکھتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے موصوفہ کو ان کی حدود سے کیا آگاہ کردیا، ہر طرف طوفان برپا ہوگیا۔سوشل میڈیا، اخبارات، الیکڑونک میڈیا اور دیگردستیاب ذرائع پرایک طرف اساتذہ نے اس فعل کی شناعت واضح کرتے ہوئے اور اپنے ساتھیوں کا دفاع کرتے ہوئے کچھ احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑا تو دوسری انتظامی افسران کی انا کوٹھیس پہنچی اورانھوں نے صحیح اور غلط کی پروا کیے بغیراپنی کولیگ کو بچانے اور اساتذہ کو نیچا دکھانے کے لیے دن رات ایک کردیا۔
جب یہ معاملہ ہاتھ سے نکلتا دکھائی دینے لگا اور اساتذہ اے سی صاحبہ کے تبادلے کے لیے مظاہرے کرنے لگے تو انتظامیہ نے مختلف بااثرشخصیات اورڈی پی آئی کالجز، ڈائریکٹر کالجز اوراساتذہ نمائندوں کے ذریعے سے فوری طورپربظاہراے سی صاحبہ سے معافی منگوا کراساتذہ تحریک کو فوری طور پر روک دیا۔ اساتذہ تو اخلاقی دباؤ کا شکار ہوکراپنے موقف سے دست بردار ہوگئے لیکن عوام کے سروں پر عشروں سے مسلط یہ افسران اپنی دُم پر عام آدمی کا پاؤں کیسے برداشت کرسکتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے ایک طرف معافی نامے کا ڈھونگ رچا کراساتذہ کی تحریک کو روکا اور دوسری طرف میڈیا میں اپنے لوگوں کے ذریعے سے اس سارے معاملے کو خلط ملط کرتے ہوئے دوسرا رنگ دینا شروع کردیا۔
انھوں نے لوگوں کویہ باور کرانا شروع کیا کہ مذکورہ اے سی صاحبہ امتحانی سنٹرکا معائنہ کرنے گئی تھیں اور اساتذہ سنٹرکے معاملات میں بدعنوانی کررہے تھے۔جب کہ یہ دونوں معاملات الگ ہیں۔ اے سی صاحبہ پہلے بھی سنٹرکا معائنہ کرچکی تھیں اور کسی نے ان کے اختیارات پراعتراض نہیں کیا۔ اس واقعے کو غلط طریقے سے امتحانی سنٹر کے معاملے کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ ان پروفیسر حضرات کا امتحانی سنٹرکے معاملات سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا اور نہ ہی مقامی پروفیسروں کی امتحانی ڈیوٹی مقامی سنٹرپرلگائی جاتی ہے۔ اے سی صاحبہ سنٹرکی معائنہ کرنے کے بعد اپنے عہدے اوراختیارات کے زعم میں کالج کے پرنسپل کے دفترمیں جا کران کی کرسی پربراجمان ہوئیں اور کالج کے اساتذہ کا حاضری رجسٹرطلب کیا تو مقامی اساتذہ نے ان سے گزارش کی کہ آپ نہ تو اس کرسی پربیٹھنے کا حق رکھتی ہیں اور نہ ہی کالج کے معاملات کی تفتیش آپ کے اختیارات میں ہے۔
اس پرموصوفہ نے اودھم مچایا اور اعتراض کرنے والے پروفیسر کو کھری کھری سنائیں۔ صرف بدزبانی اور بدکلامی پراکتفا نہیں کیا بلکہ پولیس کوبلا کرپروفیسر موصوف کو حوالات میں بند کرادیا۔ اس غنڈہ گردی پراساتذہ نے احتجاج کیا اور طلبہ و اساتذہ نے ہرفورم پراے سی کو ہدفِ تنقید بنایا توپھرمختلف ذرائع سے اساتذہ پردباؤ ڈال کرایک طرف صلح کا ڈرامہ رچاتے ہوئے صلح نامے میں اپنی موصوفہ کو صاف بچا کراساتذہ ہی کو موردِ الزام ٹھہرادیا۔ دوسری طرف احتجاج کرنے والے اساتذہ کے خلاف فوری طورپر انتقامی کارروائیوں کا بھی آغاز کردیا۔اپنے دفاتر میں نیچے سے لے کراوپر تک رشوت اور کرپشن کے عادی افسران اور نامعلوم افراد کی جانب سے دھمکیوں کے ساتھ ساتھ ایک متحرک استاد طارق کلیم کوجو کہ سرگودھا یونیورسٹی کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ تھے وزیراعلیٰ کے حکم پرفوری طور پر عہدے سے برطرف کردیا گیا۔
مزید براں ان پرمتعدد قسم کے الزامات لگا کرمیڈیا میں ان کے خلاف مہم بھی شروع کردی گئی ہے۔ شاید پرانے وقتوں میں اس قسم کے منفی ہتھکنڈوں سے یہ افسران لوگوں کی آواز کودبا بھی لیتے تھے، لیکن اب زمانہ بدل چکا ہے اور میڈیا کے بہت سارے شعبہ جات براہِ راست عوام کی دسترس میں بھی ہیں۔ اب وقت آچکا ہے کہ ان براہمنوں کو افسرشاہی اور نا اہل حکمرانوں کے اقتدار کو مضبوط کرنے کے بجائے، اپنی اصل ذمہ داری ادا کرتے ہوئے عوام کی خدمت کرنا ہوگی اور ان کے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔آئیے ہم سب مل کراساتذہ کے شانہ بشانہ جدوجہد کریں اور عوام پر مسلط ان افسران کوعوام کے خادم بننے پرمجبورکردیں۔