فلم ریڈ نے میدان مار لیا
از، حسین جاوید افروز
ہندوستان کو دنیا بھر میں سب سے بڑی جمہوریت کے نام سے جانا جاتا ہے ۔یہ درست ہے کہ ستر سال سے جاری جمہوریت کے اس سفر میں اس ملک نے کبھی مارشل لاء کا سامنا نہیں کیا مگر یہ بھی سچ ہے کہ جمہوریت کے متواتر چلتے رہنے کے باوجود سماج میں سب کچھ مثالی انداز میں نہیں چل رہا ہے ۔ بھارتی سماج میں سیاست دانوں کی ہوشرباکرپشن کہانیوں کی داستانیں ہر دور میں زبان زد عام رہی ہیں ۔یہیں پر یہ سوال ذہن میں کلبلاتا ہے کہ پھر ایسی جمہوریت کا فائدہ جس میں کہنے کو تو عوام راج کا جم کر پرچار کیا جائے جبکہ حقیقت میں جمہوریت کے نام پر آج بھی سیاست دان ہی عوام کے پیسے سے پھلتا پھولتا ہے ؟ اور جب بھی کبھی اس پر نکیل کسنے کا وقت آتا ہے تو کیسے وہ سیاسی بلیک میلنگ سے حالات اپنے حق میں سازگار کر لیتا ہے ۔حال ہی میں یہی سب کچھ ڈاریکٹر راج کمار گپتانے اپنی فلم’’ ریڈ‘‘ میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔
راج کمار گپتانے اس فلم میں جولائی 1981 میں ہونے والے سچے واقعہ کو بنیاد بنایا جب کانپور کے ایک ایماندار انکم ٹیکس افسر شردھا پرسادپانڈے نے شہر کے طاقتور سیاستدان اور کانگرسی رہنماء سردار اندر سنگھ کے گھر ریڈ کرنے کا بیڑہ اٹھایا ۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب گپتا نے کسی سچے واقعہ پر کام کیا ہوا ،اس سے قبل No one killed Jessica ،عامر اور گھن چکر میں بھی وہ اصل واقعات کو ہی فلمبند کر چکا ہے ۔فلم کی کہانی ایک انکم ٹیکس افسر امے پٹنائک کے گرد گھومتی ہے جو کہ ایک بے حد ایماندار اور اصول پسند افسر ہے جو کہ7 سال میں49 ٹرانسفر کروا چکا ہے ۔لکھنو ٹرانسفر ہوتے ہی اس کو ایک خفیہ اطلاع کی بنیاد پر علاقے کے بااثر سیاست دان رامیشور سنگھ عرف تاؤ جی کے خلاف کارروائی کرنے کی ترغیب ملتی ہے ۔یہ فیصلہ پٹنائک کی سروس کا مشکل ترین فیصلہ ہوتا ہے کیونکہ ثبوت نہ ملنے کے بدلے اس کی نوکری بھی داؤ پرلگ سکتی ہے۔
لیکن وہ ان تمام نتائج اور دستیاب اطلاع کی بنیاد پر تاؤ جی کے گھر ریڈ کرتا ہے کیونکہ اطلاعات کے مطابق تاؤ جی نے 420 کروڑ کی بھاری رقم اپنے گھر میں چھپائی ہوتی ہے ۔اب تاؤ جی اور پٹنائک کے درمیان بلی چوہے کا کھیل شروع ہوتا ہے اور کہانی پل پل بدلتی ہے ۔ریڈ کے دوران تاؤ جی اس انکم ٹیکس افسر کو دباؤ میں لانے کے لیے فنانس منسٹر اور یہاں تک کے اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی تک بھی رسائی حاصل کرلیتا ہے ۔پھر کیا ہوتا ہے کیا پٹنائک کو 420 کروڑ کے حصول کے حوالے سے کوئی کامیا بی ملتی ہے ؟کیا اسے تاؤ جی کی اعلیٰ حلقوں تک رسائی اور بے پناہ سیاسی دباؤ کے آگے سر نگوں ہونا پڑتا ہے ؟کیا تاؤ جی کے حامیوں کی فوج کے سامنے انکم ٹیکس ٹیم آزادانہ ماحول میں اپنی کارروائی جاری رکھ پاتی ہے؟
ان سب سوالوں کے جوابات آپ کو راج کمار گپتا کی کرائم تھرلر فلم ریڈ دیکھ کر ہی مل پائیں گے ۔اداکاری کے شعبے کی بات کی جائے تو یہ فلم اجے دیوگن ،سوربھ شکلا اور الیانا ڈی کروز کے گرد ہی گھومتی ہے ۔خصوصااجے دیوگن نے امے پٹنائک کے کردار میں ثابت کردیا کہ سماجی بدعنوانی کے خلاف ڈٹ جانے والے کیریکٹر کے لیے وہ ایک مثالی اداکار ہے ۔اس سے قبل بھی ہم اجے کی ایسی پرفارمنس گنگا جل ،سنگم اور اپرن میں دیکھ چکے ہیں ۔لیکن اب اجے دیوگن اپنے کیرئیر میں جس طرح متنوع اداکاری کر کے اپنے پرستاروں کے دل جیت رہے ہیں وہ واقعی قابل تعریف ہے ۔جیسے گول مال اگین جیسی مزاحیہ فلم ہو ،یا دریشام کا سیدھا سادا لیکن اپنی فیملی کے لیے لڑنے والا کردار ہو ۔اجے دیوگن امے پٹنائک کے کردار میں بھی اپنی گہری چھا پ چھوڑنے میں کامیاب رہے ۔خصوصا اب جب وہ فلم میں دباؤ کا شکار ہوئے اور اس کے بعد جب جب ان کا پلہ بھاری ہوتا رہا۔ ان مناظر میں اجے نے اپنی آنکھوں سے لامثال تاثرات دیے۔ایک پاگل پن کی حد تک ایماندار افسر کے کردار میں جس ٹھنڈے مزاج سے اجے نے مکالموں کی جاندار ادائیگی کی وہ یقینا ان کا ہی خاصا ہے۔
رامیشور سنگھ عرف تاؤ جی کے کردار میں ’’سوربھ شکلا ‘‘نے ایک عیار، شاطر سیاست دان کے کیریکٹر کو گویا چار چاند لگا دیے ۔اس سے پہلے بھی شکلا فلم ’’ستیہ کے کلو ماما‘‘ اور ’’جولی ایل ایل بی‘‘ میں ایک جج کے کردار میں ناقابل فراموش اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں۔فلم کی خوبصورتی ہی شکلا اور اجے دیوگن کے مابین بڑھتی چقپلش ہے جس نے گویا فلم بینوں کو بھی بھرپور تفریح فراہم کی ۔بلا شبہ ’’ تاؤ جی‘‘ کے کردار نے اتر پردیش کی سیاست میں موجود جنگل راج کی کمال عکاسی کی ہے۔ فلم میں اجے دیوگن کی بیوی کے کردار میں الیانا ڈی کروز بہت ہی خوبصورت دکھائی دی اور فلم بادشاہو کے بعد اجے کے ساتھ ان کی جوڑی خاصی متاثر کن لگی۔ جبکہ انکم ٹیکس افسر کے کردار میں امت سیال نے اپنے مزاح سے فلم بینوں کو لطف فراہم کیا ۔جبک اس کے ساتھ ہی فلم میں اندرا گاندھی کے کردار کو بہت ہی مہارت سے پیش کیا گیا جس سے فلم میں مزید گہرائی دیکھنے کو ملی ۔فلم کے مکالمے ،کہانی اور سکرین پلے رتیش شاہ کی مرہون منت رہے اور وہ اس کاوش میں خاصے کامیاب دکھائی دیے۔
فلم کا سکرین پلے گویا سنیما میں شائقین کو باندھے رکھتا ہے ۔خصوصا فلم میں پل پل بدلتی صورتحال سے لے کر کلائمکس تک آپ اس فلم سے قطعی بور نہیں ہوتے ۔جبکہ فلم کی بیشتر عکس بندی اتر پردیش کے شہر لکھنو اور بریلی میں کی گئی ۔اب بات ہوجائے فلم کی خامیوں کی تو فلم میں میوز ک اتنا دم دار نہیں رہا جتنا ہونا چاہیے تھا ۔اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ نصرت فتح علی خان کے گیت خیر منگ دا اورسانوں ایک پل چین نہ آوے سے چھیڑ چھاڑ کی کیا ضرورت تھی ؟دوسری اہم بات کہ اگر فلم کے ڈاریکٹر کے ذہن میں اتر پردیش کا معروض موجود ہے تو فلم میں پنجابی گانے خاصے بے تکے سے محسوس ہوتے ہیں۔بہر حال مجموعی طور پر فلم ’’ریڈ‘‘ کاروباری نقطہ نگاہ سے بھی سود مند ثابت ہورہی ہے۔ فلم کا بزنس اوپننگ ڈے کے اختتام پر 10 کروڑ رہا ۔امید کی جارہی ہے کہ فلم پہلے ویک اینڈ تک 30 کروڑ بٹورنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ فلم کے کرائم تھرلر تھیم اور حیران کن کلائمکس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اس فلم کو 3/5 ریٹ کروں گا۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.