بارش، کافی اور کتاب
از، ڈاکٹر شاہد صدیقی
اس دن اسلام آباد کا آسمان بادلوں سے گھرا ہوا تھا۔ شام ڈھلتے ہی ہلکی پھوار کا آغاز ہوگیا تھا جو جلد ہی موسلادھاربارش میں بدل گئی۔ میں نے کمرے کی کھڑکی سے پردہ ہٹا کر دیکھا تو درخت تیز ہواؤں سے دہرے ہوئے جارہے تھے میں بارش کی جلترنگ میں گم تھا کہ فون کی گھنٹی بجی، رؤف کلاسرا کا فون تھا کسی تمہیدی گفتگو کے بغیر وہ بولا ”میں ایک کافی ہاؤس میں بیٹھا ہوں آپ بھی آ جائیں کافی بھی پئیں گے گپ شپ بھی ہوگی۔ “
رؤف کلاسرا سے میری ملاقات تقریباً تین برس پہلے سرِراہ ہوئی بغیر کسی پیشگی پروگرام کے لیکن جمیزریڈ فیلڈ اپنی کتاب Celestine Prophecy میں لکھتا ہے کوئی بھی چیز یونہی، خود بخود، سرراہ نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات میں ہونے والے سارے واقعات پہلے سے طے شدہ ہیں۔ ہم بظاہریہ سمجھتے ہیں ہماری اتفاقیہ ملاقات اصل میں کائنات کے پہلے سے طے شدہ پروگرام کاحصہ ہوتی ہے۔
رؤف کلاسراسے پہلی ملاقات میں مجھے یوں لگا جیسے اسے مدتوں سے جانتا ہوں۔ ہم میں تین چیزیں مشترک تھیں، انگریزی ادب کی باقاعدہ تعلیم، شکیل عادل زادہ کا سب رنگ اورکتابوں سے عشق۔ کتابوں سے عشق بھی عجیب عشق ہے ہمیشہ جوان رہتا ہے۔ جس کو یہ چٹک اوائل عمری میں لگی پھر وہ آخری دم تک ساتھ رہتی ہے۔
فارسی کے عظیم شاعر حافظ شیرازی کے خواب کی تکمیل ”فراغتے وکتابے و گوشۂ چمنے‘‘ سے ممکن ہے یعنی فراغت کے کچھ پل، چمن کاایک گوشہ اور کتاب۔ اسی طرح عصر حاضرکے منفردشاعر افتخار عارف اپنی ”محبت کی ایک نظم‘‘ میں کتاب کواپنی زندگی کا اہم جزو بتاتے ہیں۔
”مری زندگی میں بس اک کتاب ہے اک چراغ ہے
ایک خواب ہے اور تم ہو‘‘
ترقی یافتہ ممالک میں کتاب بینی کا کلچر سکول کے ابتدائی درجوں سے متعارف کرایا جاتا ہے۔ مجھے یاد جب میں پی ایچ ڈی کے لیے یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں زیر تعلیم تھا، میری بیٹی ہاجرہ نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز ٹورنٹوکے ایک سکول سے کیا۔ اس کے سکول میں کتب بینی (book reading) پرخاص توجہ دی جاتی تھی۔ ہر طالب علم کے لیے ایک reading log رکھی جاتی اور اس میں ان کتابوں کا اندراج ہوتا جو والدین یا اساتذہ بچے کو پڑھ کر سناتے یا بچے خود پڑھتے۔ سال کے آخر میں جب ہمیں سکول بلایا گیا اور ہاجرہ کی کے جی 2 کی ٹیچر مسز کورٹنی نے ہمیں ہاجرہ کی reading log دی تو مجھے مسرت بھری حیرت ہوئی اس کے مطابق ایک سال میں اس نے 110 کتابوں کی کہانیاں سنی یا پڑھی تھیں۔ یہ ہے وہ مضبوط بنیاد جو بچوں کو تعلیمی سفر کے ابتداہی میں فراہم کردی جاتی ہے۔
ونڈ سکرین پرتیز بارش کی بوچھاڑ مجھے واپس اسلام آباد کی سڑکوں پر لے آئی۔ سڑکوں اور جگہوں کے بارے میں میری معلومات قابلِ رشک نہیں لیکن بھلا ہو گوگل میپ کا جس کی مدد سے میں دیے ہوئے ایڈریس پرکافی شاپ پہنچ گیا۔ بارش کی وجہ سے اوپن ایئر میں بیٹھنے کے امکانات ختم ہوچکے تھے۔
میں کافی شاپ میں داخل ہوا تو لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ ایک کونے کی میز پر رؤف کلاسرا بیٹھا تھا، جلد ہی ہماری گفتگو میں کافی کی مہک شامل ہوگئی۔ ہم جب بھی ملتے ہیں ہماری گفت گو کا محور ادب ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ Netflix پر دیکھی ہوئی تازہ ترین فلموں یا season کے بارے میں بھی میرے علم کو update کرتا ہے۔
ہم ایک دوسرے کو آنے والی نئی کتابوں کی خبردیتے ہیں۔ مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے وہ اخبار کے لیے باقاعدگی سے کالم بھی لکھتا ہے۔ ٹی وی کے لیے شوبھی کرتا ہے، دوستوں سے ملتابھی ہے، خوشی غمی میں اپنے دورافتادہ گاؤں جیسل کلاسرہ بھی جاتا ہے۔ Netflix پر تازہ ترین فلمیں بھی دیکھتا ہے پھراس کے پاس کتابیں پڑھنے کا وقت کہاں سے آ جاتا ہے۔ مثلاً آج جب ہم construction of reality پر گفتگو کر رہے تھے تواس نے ایک کمال فلم vantage point کا حوالہ دیا جس میں ایک واقعہ سے منسلک مختلف کردار اپنے اپنے زاویہ نظر سے اس واقعے کو بیان کرتے ہیں اور ہر ایک کی reality مختلف ہے۔
ہمیں باتیں کرتے ایک گھنٹہ گزر گیا۔ ہم اٹھ کھڑے ہوئے، دروازہ کھولا تو بارش اسی رفتارسے جاری تھی۔ ہماری اگلی منزل سعید بک بنک تھی۔ گاڑی سے اتر کر بک شاپ تک پہنچتے پہنچتے بارش نے اپنا رنگ دکھا دیا۔ وہ تو بھلا ہو دکان کے مالک احمد سعید صاحب کا جو ہمیشہ کی طرح لپک کر آئے۔ حال احوال پوچھا اور فوراً کافی کا آرڈر دیا۔ اب ہمارے چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں تھیں، بہت دیر تک ہم کتابوں کو دیکھتے، الٹتے پلٹتے رہے اور پھر بہت سی کتابیں خرید لیں۔
رؤف کلاسرا نے اپنا پسندیدہ ناول The Reader مجھے گفٹ کیا، اس ناول پرفلم بھی بن چکی ہے۔ ناول کی ہیروئن لکھنا پڑھنا نہیں جانتی لیکن اسے لکھنے پڑھنے کی اہمیت کا احساس ہے۔ بالکل اس کی والدہ کی طرح جنہوں نے کسی سکول سے تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی لیکن تعلیم کی اہمیت سے آشنا تھیں اور اپنی بیٹی سے اخبار کے کالم اور رسالوں سے کہانیاں سنتی تھیں اور جنہوں نے ساری عمر خود محنت اور مشقت کی اور اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کیا۔ کہتے ہیں اچھا ادب زمان و مکاں کی پابندیوں سے آزاد ہوتا ہے۔ قاری کو اچھا ادب پڑھتے ہوئے ایک pleasure of recognition محسوس ہوتی ہے، ”میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔” ہم نے بہت ساری کتابیں خرید کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھ لیں۔
بارش تھی کہ لگاتار برس رہی تھی۔ ہماری اگلی منزل ایک pizza shop تھی۔ تیز بارش اور تاریکی میں ڈرائیونگ مشکل تھی اور پھر پارکنگ کے لیے جگہ کی تلاش۔ آخر ایک خالی جگہ نظر آئی جہاں گاڑی پارک کی گئی۔ کتابوں کا ایک شاپر اٹھایا اور ریسٹورنٹ کی اوپر والی منزل پر بیٹھ کرہم نے میز پر نئی کتابیں پھیلا دیں۔
نئی کتابوں کی اپنی خوشبو ہوتی ہے۔ دورِ حاضر میں ڈیجیٹل کتابوں کا رواج عام ہو گیا ہے۔ کتابیں Kindle اور iPad پر پڑھی جارہی ہیں۔ خاص کر ہمارے بچے اور بچیاں سکرین پر کتابیں زیادہ سہولت سے پڑھتے ہیں۔ لیکن ہماری نسل کے لوگ کتابوں کے لمس اور خوشبو کے بغیر کتاب خوانی کو ادھورا سمجھتے ہیں۔ گلزار کی نظم ”کتابیں‘‘ اسی کھوئے ہوئے رومانوی تجربے پر لکھی گئی ہے جو ڈیجیٹل کتابوں کی نذر ہوگیا ہے۔
”کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پر رکھ کر لیٹ جاتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے
چھوتے تھے جبیں سے‘‘
ہماری نئی خریدی جانے والی کتابوں میں ایک ہندوستان میں برطانوی حکومت کے عہد ریلوے کے حوالے سے تھی۔ اس کے جستہ جستہ اقتباسات پڑھے گئے۔
نئی کتابوں کی مہورت کے بعد ہم نے کتابوں کو دوبارہ شاپر میں ڈالا اور برستی بارش میں گاڑی تک پہنچے۔ واپسی پر ہم یہی بات کرتے رہے کہ ہم اپنے بچوں میں مطالعے کی عادت کو کیسے فروغ دے سکتے ہیں، اس میں سارے سماجی ادارے، خاندان، سکول، میڈیا اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ جس گھر میں کتابیں ہوں گی والدین مطالعے کی حوصلہ افزائی کریں گے وہاں بچے کتاب کی طرف مائل ہوں گے۔ یونہی سکول میں اساتذہ اپنے طلباء میں مطالعے کا شوق پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ خود بھی مطالعے کی عادت پیدا کریں، اسی طرح میڈیا پر کتابوں اور کتب بینی کے حوالے سے پروگرام ہونے چاہییں۔
اس روز میں گھر پہنچا تو بارش کاسلسلہ ہنوز جاری تھا میں نے کافی کا کپ تیار کیا، کھڑکی کا پردہ ہٹایا اورThe Reader ناول کا پہلا صفحہ کھولا۔ بارش، کافی اور کتاب۔ میرے خواب کے تینوں رنگ یک جا ہوگئے تھے۔