سوال اٹھائیے؟
از، نعیم بیگ
کچھ لوگ سوال پیدا کرتے ہیں اور کچھ لوگ سوال کو الجھاتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ سوال اٹھانے والے کہاں ہیں؟ تینوں جِہات کا اِدغام کہیں تو ہونا لازم ہے، لیکن کون ہے جو اسے ترتیب دے گا؟ سوال یہ پیدا ہو رہا ہے؟
سوال کب پیدا نہیں ہوا تھا؟ جب کائنات بنی، سجدوں کا حکم ہوا۔ سوال تو جب بھی پیدا ہوا اور اٹھا بھی۔
جب ہندوستان پر حملے ہوئے سوال تو جب بھی پیدا ہوا۔
سوال جب بھی پیدا ہوا جب کیک کا بڑا حصہ آزاد ہوا اور چھوٹا اسیر ہوا۔
سوال تو جب بھی پیدا ہوا جب نطفہ وقتِ مقرّرہ سے پہلے پیدا ہوا۔ تب اسے کاغذی شہریت کے لیے در بَہ در ہونا پڑا۔ انبوہ پر چلچلاتی دھوپ رہی۔ پسینے بہتے رہے۔ سفر جاری رہا۔ خون بہتا رہا۔ ندیاں سرخ ہوئیں۔ دریا خشک ہوئے۔ زمینیں چِھن گئیں۔ لوگ خاک بَہ سَر ہوئے۔ جہالت اور غلاظت چاروں طرف پھیلتی گئی اور خدا کے گھر بنتے گئے۔
سوال تو تب بھی محکوموں کے ذہنوں میں پیدا ہوا۔ آج بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔
پھر سوال الجھنے لگا … جب ہم کرایے پر اٹھ گئے اور اپنا مستقبل بیچ دیا۔
اب سوال یہ کہ کوئی سوال اٹھاتا کیوں نہیں؟
نہ اٹھائیے! کوئی اور اٹھا لے گا؟ وہ اس سوالوں کو اپنی منشاء میں بدل دے گا۔ تب لوگ کہیں گے کہ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے؟
صدیوں سے سکالرز نے سوال پیدا کیے۔ فلسفیوں نے سوال اٹھائے، لیکن سرمایے نے ان سوالوں کو دفن کر دیا۔
اب سوال اٹھانے کی سَکت کس میں ہے؟ کہنے کو کچھ چارہ نہیں؟
انسان اگر زندہ ہے۔ اگر ہے؟ تو اٹھائے اس بوجھ کو۔
میں نہیں اٹھا سکتا؟ تم نہیں اٹھا سکتے؟ وہ نہیں اٹھا سکتے؟
ہم سب مل کر نہیں اٹھا سکتے ؟
تو پھر کون ہے جو اس بوجھ کو اٹھائے گا؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے …