رکھوالا کونسل اور عدالت
از، نصیر احمد
ہمارے ذہن میں ایک بات تو پکی ہے کہ سنی ہوں کہ شیعہ، دیوبندی ہوں کہ وہابی، اپنے بریلے ہوں یا اور فرقے، مسلمانوں کو رکھوالا کونسل کی ذہنیت سے باہر آنا چاہیے۔
رکھوالا کونسل کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اور بدی کی بہت سے شکلوں کی طرح اس کونسل کے بارے میں خیالات قدیم تہذیبوں میں موجود تھے۔ افلاطون نے اسے فلسفیانہ دلائل کا جھوٹا وقار عطا کیا۔
اور پھر کاملیت پرستی کے جتنے بھی بہروپ تھے برہمن ازم، ناٹزی ازم، فاشزم اور کمیونزم انھوں نے اسی رکھوالا کونسل کو دلیل بنا کر سیاہ ترین آمریتیں قائم کر لیں۔ کاملیت پرستی کے اسی عروج کے زمانے میں قومیت اور مذہب کو بھی رکھوالا کونسل سے متعلق کر دیا گیا۔
مسلمانوں میں رکھوالا کونسل کو مودودی اور شریعتی وغیرہ نے کاملیت پرستی کی نقالی کرتے ہوئے فروغ دیا جس کے نتیجے میں دانا فقیہوں، دانا محب الوطنوں، دانا عالموں، دانا فوجی جرنیلوں کی حکومتیں بننے لگیں۔ اس دانائی کے لیے جو دلیل استعمال کی گئی وہ ریاستی طاقت تھی جس کے سامنے بات بھی نہیں کی جا سکتی۔
ان داناؤں نے اپنی اپنی ریاستوں کے اداروں پر قبضہ کر لیا اور اپنے مخالفوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانے لگے اور ریاستی ذرائع پر تصرف کے ذریعے ان کے لیے اپنے مخالفین کی زبان بندی بھی آسان ہو گئی۔
جمہوریت کو بھی اس دانائی کا تابع کیا گیا۔ لیکن جیسے وہ کہتے ہیں کہ اونٹ کو پر لگا کر خلا میں نہیں بھیجا جا سکتا، اس طرح اس دانائی کے زیر اثر جمہوریت اپنے معنی کھو بیٹھی۔ یا جیسے بالی وڈ کی فلم دنگل کی گیتا یا ببیتا کہتی ہیں کہ پاپا سلوار قمیج پہنے ہوئے بھاگا نہیں جاتا، جمہوریت کا بھی کچھ یہی ہوا، فقیہوں کی دانش کے کالے کنویں سے نکل ہی نہیں سکی۔ ظاہر ہے پھر جمہوری اداروں نے کہاں پنپنا تھا۔
عدالتییں بھی اسی دانائی کی نذر ہوئیں اور ایسے ایسے منصف مقرر ہوئے کہ یہ آرزو کہ انصاف نہ ہی ہو تو اچھا ہے، انصاف کی تمنا کو کسی پچھل پائی کی مانند پچھاڑ گئی۔ ایسے ہی ایک منصف محمد صادق خلخالی تھی جنھیں بعد از انقلاب ایران میں اسلامی انقلابی عدالت کا حاکم شرع مقرر کیا گیا۔ وہ روح اللہ خمینی کے پرانے ساتھی تھے اور ایران کے شاہ کے خلاف خمینی کے احتجاج کا ایک طویل عرصہ حصہ بھی رہے تھے۔
ان کو منصفی ملی تو جیسے بھونچال آ گیا۔ ایک ایک منٹ کی عدالتی کارِ روائی کے بعد پھانسیاں ہونے لگیں۔ عدالت ظاہر ہے رکھوالا کونسل کی پسندیدہ باندی تھی، عدالت کو کون روک سکتا تھا۔ شاہ پسند، اشتراکی، جمہوری، قوم پرست، اسلامی، کرد، آذری، عرب، بہائی یعنی جسے بھی رکھوالا کونسل نے ناپسند کیا، وہ خلخالی کے سامنے پیش ہوتے رہے، پھانسی پاتے رہے۔
دو تین سال تو خلخالی نے انصاف کے نام پر ایک بازار ستم گرم رکھا اور دنیا بھر میں جلاد کے نام پر جانے گئے۔ ایران کے ایک سابقہ وزیر اعظم امیر عباس ہویدا، جنھیں شاہ نے اپنی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے بدعنوانی کے الزامات میں انقلاب سے پہلے ہی گرفتار کر رکھا تھا، وہ بھی آخرکار خلخالی کی عدالت میں پیش ہوئے۔
امیر عباس ہویدا ڈپلومیٹ حلقوں میں کافی مقبول تھے۔ ان کی جان بخشی کی سفارشیں آنے لگیں۔ خلخالی کو ایک دفعہ ایک ایسا فون آگیا جسے وہ نہ نہیں کر سکتے تھے۔ کچھ مورخوں کے مطابق خلخالی فون سن کر اٹھے اور جس سکول میں انھوں نے عدالت قائم کر رکھی تھی، اس میں جا کر ہویدا کو اٹھایا، صحن میں لے گئے اور اپنے ہاتھوں سے انھیں قتل کر دیا۔ اس کے بعد فون پر یوں جواب دیا کہ انھیں افسوس ہے وہ ہویدا کو بچا نہ سکے کیونکہ سزا تو سفارش سے پہلے ہی دی جا چکی تھی۔
خلخالی چونکہ خود کو دانا فقیہ سمجھتے تھے۔ اس لیے کسی کو کافر قرار دینا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا اور ایرانی اقلیتوں کے لیے تو ان کا انصاف بے رحمی کی حقیقت بن گیا۔ ایک ریسرچ کے مطابق وہ روزانہ تقریبا 60 کُردوں کو پھانسی کی سزا دیتے تھے اور زندگی بھر انھیں اس بات کا تاسف رہا کہ وقت کی کمی کی وجہ سے یہ گنتی بڑھ نہ سکی۔
ایک دفعہ ایک کرد ان کے سامنے لایا گیا۔ بے چارے سے کچھ سوال جواب کیے۔ اس نے خلخالی کو بتایا کہ وہ ارمیہ میں پیدا ہوا اور تہران کے مظاہروں میں اس نے حصہ لیا۔ اس پر خلخالی بول اٹھے کہ یہ ہوئی نا بات۔ اب سقیز (جہاں یہ ٹرائل ہو رہا تھا) میں مر جاؤ۔ سینس صیحیح بنتا ہے۔ یوں خلخالی نے اسے موت کی سزا دی اور اگلے مقدمے کی روٹین میں گم ہو گئے۔
اب انصاف کے تقاضوں کے مطابق تو سینس تو کچھ نہیں بنتا لیکن طاقت کے نشے میں کسی بے دین اور بے قانون غنڈے کو (جسے رکھوالا کونسل کی آشیر باد حاصل ہو) روکنا بھی تو اتنا آسان نہیں۔
ایک اور مقدمے میں انھوں نے سینس بنانے کی کوشش کی۔ کسی سود خور کا بیٹا ان کے سامنے پیش ہوا۔ اسے تو لمحوں میں موت کی سزا کا حکم ہو گیا۔ اس بے چارے نے خلخالی سے پوچھا کہ اس کا کیا قصور ہے، سود خور تو اس کا باپ ہے۔ تو جیسے دیہاتوں سے آئے ہوئے بعض ان پڑھ ہوتے ہیں، ویسے ہی خلخالی نے جواب دیا ہے کہ بیج اچھا نہ ہوگا تو فصل کہاں اچھی ہوگی اور اس بے چارے کو موت کی سزا دے دی۔
خلخالی کے سامنے پیش ہونے والوں کو وکیلوں کی یا جیوری کی سہولت حاصل نہ تھی۔ وہ خود ہی منصف تھے اور جلاد بھی اور جتنی قتل وغارت کرتے تھے اس پر انھیں ناز بھی بہت تھا۔ وہ خود کہا کرتے کہ انھوں نے جتنی بھی پھانسیاں دی ہیں ان پر روح اللہ خمینی نے تو کبھی ناخوشی اور برہمی کا اظہار نہیں کیا۔
رکھوالا کونسل جو تشدد کے ذریعے اپنی حماقتوں کا تحفظ کرتی ہے وہ ملکی مفاد میں نہیں ہوتی اور ترقی کی بجائے غارت گری کا باعث بنتی ہے۔ یہ دلائل بہت دیے جاتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ تو بچے یا مویشی ہوتے ہیں اس لیے فیصلہ سازی جیسا مشکل کام انھیں نہیں سونپا جا سکتا۔ اب تو سالوں کی برین واشنگ کے بعد بچے اور مویشی بنا بھی دیے ہیں، لیکن بات جم نہیں رہی کہ رکھوالا کونسلوں سے صرف بربریت ہی سامنے آ رہی ہے۔
اگر مرحلوں والی دلیل مان بھی لیں تو رکھوالا کونسلیں تو ذمہ داری کے لیے نہ تربیت دے رہی ہیں اور نہ ہی اپنے اختیارات میں مرحلہ وار کمی پر راضی ہیں۔ اور فیصلوں میں نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر خلخالی والی دانائی جھلکتی ہے۔ بات واضح ہے شریعتی عدالت اور انگریزی یا یورپی عدالت میں تال میل نہیں ہو سکتا۔ اور انگریزی عدالت کے قوانین کے ساتھ شریعت کے نام پر کاملیت پسندی نافذ کرنے سے انصاف ختم ہو جاتا ہے جیسے رکھوالا کونسل کے قیام کے بعد جمہوریت کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اور رکھوالا کونسل کے ماتحت چلنے والی عدالتیں بھی خلخالی کی طرح کسی کو انصاف فراہم نہیں کر پاتیں۔
ایک مسئلہ تہذیب، روایت، ثقافت اور شناخت کھو دینے کا بھی ہے لیکن خلخالی جیسے جب شناخت بنتے ہیں تو اپنی انسانیت کے بارے میں آئیں بائیں شائیں ہی رہ جاتی ہے۔
پھر تہذیبیں، روایتیں، ثقافتیں اور شںاختیں کب کوئی ازلی اور ابدی پیکج ہوتا ہے جنہیں سنبھالتے سنبھالتے امکانات بھی ضائع کر دیے جائیں۔ علاوہ ازیں شناخت ایک ذاتی فیصلہ بھی تو ہو سکتی ہے۔ بہرحال، ہمارے خیال میں اس رکھوالا کونسل جیسی ذہنیت کو مسترد کرنے میں گنج قارون نہ سہی لیکن تھوڑی سی بہتر زندگی کے امکانات تو ہیں۔
امریکہ، برطانیہ، فرانس ،جرمنی، جنوبی کوریا اور جاپان جیسے بہت سارے ملک ہیں جن کے تجربات یہی راہ سجھاتے ہیں۔