گرم گرم، زیادہ گرم جلیبیاں
از، یاسر چٹھہ
آج یہ راقم افطاری کے وقت سے کوئی آدھ گھنٹہ پہلے پاس والی جی الیون مرکز اسلام آباد کی مارکیٹ گیا۔
گوشت لینا تھا، کارِ روائی اور کار و بار کا با قاعدہ آغاز کیا گیا۔
قصاب کو کہا بھیا، کچھ قیمہ بھی کر دیجیے گا۔ وہ پورے انہماک سے گوشت بناتے بناتے، بیچ بولا، جی ٹھیک۔
راقم نے کافی مقدور بھر کلو گرام گوشت خریدا تھا۔ اچھے خاصے کلو گرام تھے، جن کا نصف بھی کیا جائے تو ماڑی موٹی رقم نہیں بنتی اور نا ہی وزن۔ بَل کہ ادھر ادھر دیکھ رہا ہوں کہیں شبر زیدی ڈان کے آدمی تو نہیں سَن گُن لے رہے۔
بڑی رقم، زیادہ مال، اس لیے اہم اہم محسوس کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس روزے دار قصاب نے ہماری بہ ظاہر نفیس ہدایات کے تحت خوب صاف گوشت بنا دیا۔
اب تھی قیمہ کی باری! اب تھی اصل امتحان کی گھڑی…! گوشت پلاسٹک کی تھیلیوں میں ڈال کر قیمے کے لیے الگ کی ہوئی چند کُولی کُولی بوٹیوں کو قیمے والی مشین کی طرف لڑھکا کر اپنے چھوٹے لڑکے بالے کو قصاب نے کہا
“.. کر دے لڑکے قیمہ…”۔
ہم نے یہ سنا تو فوراً کسی حکیم کا کہا بول دیا:
وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم
حد اُس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کُچل دیتے ہیں آلات
آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر
تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات
اس نے کہا، “ایک کیہ آکھنے پئے ہو، سر جی؟” (کیا کہہ رہے ہو سر جی؟”
ہم نے پُر سوز لہجے میں مزید سوز بھرتے ہوئے کہا:
” قسم ہے اس درمیانی عمر کی بکری کی جس نے اپنے فرزند کی آج صبح قربانی دی؛ اور اس کی اس قربانی سے تمہارا روز گار چلا۔ یہ مت جانو کہ اس بکری نے اپنا کل اپنے فرزند سے کسی قسم کے جنسی محرمات incest کے مسائل سے نبرد آزمائی سے بچنے کے لیے قربان کیا تھا۔ اس نے اپنا کل، تمہارے آج کے لیے قربان کر دیا، اے منحوس ففتھ جنریشن سخت دل… اس بکری کے فرزند کی کُولی کُولی بوٹیوں کو مشین سے مت گزار، اے بگڑے پیشہ ور، اس قیمہ کے لیے اپنے بُغدے کو استعمال میں لا۔”
لیکن ہمارا سوزِ دل اور حزن سامانی کا اس پر کچھ اثر نا ہوا۔ اس نے کہا:
“روزہ بہت لگا ہوا ہے، اس وقت بغدے سے قیمہ نہیں بنا سکتا۔” (اسے اردو بولنے کا بہت شوق تھا، حالاں کہ سانوں پتا سِی کہ اَڑدا کتھوں کتھوں اے…)
ہم نے جواباً کہا، نہیں تے فِر رہن دے… تُوں قیمہ نا کر… لیکن ہمیں کہنے دے کہ تیرے دن بھر دی بُھوک پیاس نے تیرے اندر کوئی تزکیۂ نفس پیدا نئیں کیتا۔ تمہارا دل ابھی بھی اس درمیانی عمر کی بکری کے جگر گوشے کی قربانی کے لیے احساس نہیں پال سکا۔ جا تیرا روزہ اور تیری بھوک ایویں ای گئی۔
گوشت لیا، قیمے والی کُولی کُولی بوٹیاں الگ الگ تھیلیوں میں لے کر اپنی چلتی گاڑی جو اس وقت روکی ہوئی تھی، کی جانب جانے لگا۔
خیال اور عقل مل جل کر آئے اور سر گوشی کیے کہ راقم جی، بکری کے فرزند کا گوشت لینے کے بعد آپ کی جیب خالی ہو چکی ہے۔ ان کی بات سنی اور اے ٹی ایم سے کیش لیا۔
کیش لیا تو سامنے سموسوں والا نظر آ گیا۔ پکوڑے اور سموسے گرم گرم ہوں تو بھلے جتنے مرضی فواد چودھری جیسے ہوں، بہت پیارے لگتے ہیں اور ساتھ وہ سخت دل جلیبیاں؛ بالکل ایسے ہی جیسے اپوزیشن میں موجود سیاست والے۔
سموسے لیے تو پاس کُھلے پیسے نہیں تھے، ہزار کا نوٹ دیا۔ اسے کھلا کرنے میں دیر لگ رہی تھی۔
ہم نے گرم گرم سموسوں کا کاری وار تو کسی نا کسی طور سہہ لیا تھا، لیکن جلیبیاں تے جٹ بس رہ رہ جا ریا سِی۔ دو تین بار ہاتھ پکڑتے پکڑتے رکا۔ تیسری بار تو ایک جلیبی کے وَل (بَل) پر ہاتھ لگ ہی گیا۔
سموسے والے petty bourgeois کا سیلز مین پشتون تھا، اور گرم گرم اور مزید گرم جلیبیوں پر ہاتھ پنجابی جَٹ کا تھا۔ پشتون کا ایمان اور جَٹ کا جذبہ آمنے سامنے تھے۔ گویا، دونوں طرف تھی آگ تقریباً برابر لگی ہوئی۔ (ہو سکتا ہے چند اعشاریوں کا فرق ہو، بہ ہر حال تحقیق ہو گی تو پتا چلے گا۔ لگ جائے گا پتا، یہ کوئی جسٹس جاوید اقبال کی رپورٹ تو نہیں ہو گی کہ بس بیٹھ ہی جائے۔) معرکۂِ ایمان و عشق دُو بہ دُو بہ اور eye ball to eye ball تھے۔
ہَں، ہوں، ہوں (ٹھہریے سانس لینے دیجیے۔)
اگلے ہی لمحے خیال آیا:
“اے راقم تم نے سارا دن بھوک پیاس سہی، اور صبر شکر کیا، کیا محض اس حقیر سے جلیبی کے ٹکڑے پر وارنے کے لیے؟ … نہیں تیرا ایمان اس قصائی جتنا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ تیرے نفس کا تزکیہ کیا اس جلیبی کے ٹکڑے پر چپک کر جان دے دے گا۔ ایمان ہوا کہ کوئی آوارہ شہد کہ مکھی (اسی اثناء میں ضمیر کی بدلی کڑکی، تیز روشنی نے چاروں طرف نور سا پھیلا دیا…) بس وہ رہا جلیبی کا ٹکڑا…
اسی دوران ہزار روپے کا کھلا مل چکا تھا۔ ہم نے اپنے سموسوں پکوڑوں کے ساتھ جلیبیوں کا بھی آرڈر جاری کر دیا جو فوری طور پر پیک کر دیا گیا۔ اپنا مال پکڑا، ایمان اور ماتھا بچا کر، تزکیۂ نفس کے امتحان سے flying colours کے ساتھ کامرانی حاصل کر کے گھر کی جانب لوٹ آئے۔
گھر پہنچے تو روزہ کھل گیا۔ پہلا ہاتھ جلیبی پر رکھا تو معلوم پڑا کہ جلیبی بنانے والے کا بھی نفس تزکیہ نا کرا سکا۔ بے وقوف نے پکوڑوں والی کڑاہی میں ہی جلیبیاں بھی تلی ہوئی تھیں۔ ان کا ذائقہ ایسا ہی تھا جیسا 2018 کے سیلیکشنیات Selectioniat کے بعد تبدیلی کا تھا۔
ان جلیبیوں کو چکھنے کے بعد محسوس ہوا اے پروردگارِ عالم سارے نفس کے تزکیے کا بار ہماری بھوک اور پیاس نے ہی اٹھانا تھا کیا؟
پروردگار کے فیڈ بیک کے انتطار کے ساتھ خدا حافظ کہتے ہیں، یاسر تزکیۂ نفس والے